cookie

ما از کوکی‌ها برای بهبود تجربه مرور شما استفاده می‌کنیم. با کلیک کردن بر روی «پذیرش همه»، شما با استفاده از کوکی‌ها موافقت می‌کنید.

avatar

📚علم و عمل🍀

https://t.me/joinchat/AAAAAFjTiUH1IE8fLL2oSw 🌺احادیث کو پڑھیں اور عمل کریں اور دیگر احباب کیساتھ بھی شیئر کریں 💓آپ تمام سے گزارش ہے کہ ہمارے اس چینل میں دیگر احباب کو بھی ایڈ کروائیں ۔ 💗جزاک اللہ خیرا💗

نمایش بیشتر
پست‌های تبلیغاتی
485
مشترکین
اطلاعاتی وجود ندارد24 ساعت
اطلاعاتی وجود ندارد7 روز
-530 روز

در حال بارگیری داده...

معدل نمو المشتركين

در حال بارگیری داده...

🤎 - *"تقویٰ کسے کہتے ہیں؟"* 🍂 أمير المؤمنين سيدنا عمر بن خطاب رضي الله عنه نے سيد القراء سيدنا أبي بن كعب رضي الله عنه سے تقوٰی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا : 🍂 کیا آپ کو کبھی کانٹوں والے راستے پر چلنے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ 🍂 تو پوچھا: آپ ایسے راستے پر چلتے ہوئے کیا کرتے ہیں؟ فرمایا : دامن کو سمیٹ لیتا ہوں اور کوشش کر کے احتیاط سے گزر جاتا ہوں۔ 🍂 ابی بن کعب رضي الله عنه نے فرمایا : بس ایسے ہی گناہوں سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ 📜 - *(تفسير القرطبي : ١٦١/١، تفسير ابن كثير : ٢٥٥/١، الدر المنثور للسيوطي : ٥٧/١)* #فوائد #سلسلة_اقوال_السلف #تقوی
نمایش همه...
‘‘دعا میں اپنی تقصیر و کوتاہی کا اعتراف‘‘ اللہ تعالی سے دعا کرتے وقت اپنی طرف ظلم و تقصیر کی نسبت اور بار گاہِ الہی میں اپنے آپ کو بطور مجرم و قصور وار پیش کرنا یقیناً دعا کی قبولیت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے۔ ✿⇚ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ ﷺ سے نماز میں پڑھنے کے لیے دعا سکھلانے کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے انہیں یوں دعا بتائی : «اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ». ’’اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیے اور آپ کے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطا فرمائیں۔‘‘ (صحیح بخاری : 6326، صحیح مسلم : 2705) قرآن مجید میں بیان شدہ انبیاء کی دعاؤں پر غور کرنے سے بھی یہی چیز سامنے آتی ہے۔ ✿⇚سیدنا آدم و حوا علیہما السلام نے دعا کی : ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾. ’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘ (الأعراف : 23) ✿⇚موسی علیہ السلام یوں دعا کرتے ہیں : ﴿رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي﴾. ’’اے میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے، مجھے معاف کر دیں۔‘‘ (القصص : 16) ✿⇚یونس علیہ السلام اندھیروں میں رب تعالی کو یوں پکارتے ہیں : ﴿لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾. ’’الہی! آپ کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ پاک ہیں بیشک میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘(الانبیاء : 87) ✿⇚سیدنا خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام اپنی طرف خطأ و کوتاہی کی نسبت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ﴾. ’’اور (وہ رب کہ) جس سے میں توقع رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میری خطائیں معاف کر دے گا۔‘‘ (الشعراء : 82) ✿⇚رسول اللہ ﷺ سے بھی اسی معنی کے قریب دعا ثابت ہے : «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ». ’’اے اللہ ! آپ ہی بادشاہ ہیں آپ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، آپ میرے رب ہیں اور میں آپ کا بندہ ہوں، میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں، میرے سارے گناہ معاف کر دیں کیونکہ آپ کے علاوہ گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم : 771) اے ہمارے رب! ہم معترف ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں پر بڑے ظلم کیے ہیں، اے ہمارے رب! ہمیں معاف فرما، ہماری کوتاہیوں اور خطاؤں سے درگزر فرما ۔ آمین ۔ (حافظ محمد طاھر) #مسنون_دعائیں #اصلاحی_تحریریں
نمایش همه...
🍏 - *سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ...* 🔹 سيدنا أبو هريرة رضي الله عنه کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : *❐ ’’تُعرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنينِ والخميسِ فأحبُّ أن يُعرَضَ عملي وأنا صائمٌ.‘‘* "اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو (الله سبحانه وتعالیٰ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔" 📗 - *(سنن الترمذي : ٧٤٧، صححه الألباني)* 🔹 ایک دوسری روایت میں آپ عليه الصلاة والسلام سے جب سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : *❐ ’’إنَّ يومَ الاثنينِ والخميسَ يَغفِرُ اللَّهُ فيهما لِكُلِّ مسلمٍ، إلَّا مُهتَجِرَينِ، يقولُ : دَعهما حتَّى يصطَلِحا.‘‘* "سوموار اور جمعرات کو الله تعالیٰ ہر مسلمان کی مغفرت فرما دیتا ہے مگر وہ دو آدمی جو آپس میں قطع تعلق کیے ہوئے ہوں۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے: انہیں چھوڑ دو حتیٰ کہ صلح کر لیں۔" 📗 - *(سنن ابن ماجه : ١٧٤٠، صححه الألباني)* 🔹 سوموار اور جمعرات کو نفل روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ روزہ ایک بڑا نیک عمل ہے جس کی برکت سے مغفرت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے بلاوجہ ناراض رہنا بڑا گناہ ہے۔ کسی دینی وجہ سے ناراضی رکھنا اور اہل و عیال کو تنبیہ کرنے کے لئے ناراض ہو جانا اس وعید میں شامل نہیں۔ 📗 - *(فوائد و مسائل از مولانا عطاء الله ساجد حفظه الله || سنن ابن ماجه : ٦٣٠/٢)* #منتخب_احادیث #فوائد #روزہ
نمایش همه...
🍂 *قبر کا امتحان!* 🔹 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے امتحان کا ذکر کیا جہاں انسان جانچا جاتا ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر کر رہے تھے تو مسلمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔*🔹 📗«صحیح بخاری-1373» #قبر
نمایش همه...
Photo unavailableShow in Telegram
*عفت و عصمت اور مال و دولت پانے کی دعا*👆🏻 #مسنون_دعائیں
نمایش همه...
*✨صحابی رسول عبد الله بن عمر رضی الله عنهما ، سید التابعین سعید بن مسیب رحمه الله سے فتوی پوچھا کرتے تھے••••* 🌷امام مالک نے فرمایا : "عبد الله بن عمر رضی الله عنهما سعید بن مسیب کی طرف سوال بھیجا کرتے تھے اور ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنه کے فیصلوں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے" 📔(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمه: ١١٢/ ۲) 🌷اسی طرح امام یحیی بن سعید الانصاری نے فرمایا: "عبد الله بن عمر رضی الله عنهما سے جب کوئی ایسا سوال پوچھا جاتا جو انہیں مشکل معلوم ہوتا، تو وہ کہتے کہ (جاؤ) سعید بن مسیب سے پوچھو، کیونکہ وہ صالحین کی (صحبت) میں بیٹھے ہیں۔" 📔(کتاب المعرفة والتاریخ: ٤٧٥/ ١ واسنادہ حسن) 🌷اسی طرح امام سالم بن عبد الله بن عمر بن خطاب رحمہ الله فرماتے ہیں: "ابن عمر رضی الله عنه سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: سعید بن مسیب سے پوچھو، پھر انہوں نے ہمیں مسئلہ بتایا۔ پھر وہ شخص متوجہ ہوا اور سعید سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اس مسئلے میں ویسا ہی فتوی جیسا ابن عمر نے ہمیں بتایا۔ پھر وہ شخص ان کے پاس واپس آیا اور بتایا کہ اس مسئلے میں سعید نے ویسا ہی فتوی دیا ہے جیسا ابن عمر نے دیا ہے، تو ابن عمر نے فرمایا: میں نے تم لوگوں کو بتایا تھا کہ سعید علماء میں سے ہیں۔" 📔(تاریخ ابن زرعه الدمشقی: ص ٤٠٤ ، واسنادہ صحیح)
نمایش همه...
Photo unavailableShow in Telegram
بالخصوص برصغیر میں اہل حدیث کے ہاں اگر کوئی روایت کتب احادیث میں بھی ہو لیکن اس کی سند ضعیف ہو تو وہ قابلِ عمل نہیں رہتی چہ جائیکہ ایک روایت جس کا کتب احادیث میں وجود نہیں محض سیرت و تاريخ کی بات ہے، پھر یہ کہ وہ قرآنی آیت کے خلاف ہے، پھر مزید یہ کہ وہ صحیح احادیث جن میں عیسی علیہ السلام کے صلیب توڑنے کا ذکر ہے ۔ (مسند أحمد، مؤسسة الرسالة: ١٢/ ١٢٠ وغيرها) اس کے خلاف ہے کہ انہیں اپنی صلیب مساجد میں لا کر عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ یہاں منکرینِ حدیث کے تمام گروہوں کے لیے بھی قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان کے ہاں صحیحین کی مستند ترین احادیث بھی قرآن کے خلاف نظر آنے پر رد اور نا قابلِ عمل قرار پاتی ہیں جبکہ یہاں واضح قرآنی آیت کے خلاف ایک خبر واحد جو کہ تاریخی بات ہے منقطع و معضل سند سے ہے وہ بھی بڑے شوق سے مذہبی رواداری کے نام پر پیش کر رہے ہیں ۔ ⇚تنبیہ : اگر کسی مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہو تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ازالہ کرے، ان کے ساتھ بطورِ شہری تعاون کرے، ان کے لیے متبادل انتظامات کرے، لیکن مسلمانوں کا اپنی مساجد جو کہ توحید و سنت کا مینار ہیں انہیں غیر مسلموں کی مشرکانہ عبادت کے لیے کھول دینا ہرگز جائز نہیں، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ موجودہ دور میں جب مسلمانوں کے متعلق برے خیالات اور اسلام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو تالیف قلب اور اسلام کا اچھا چہرہ پیش کرنے کے لیے اس کی کوئی گنجائش نکالنی چاہیے حالانکہ موجودہ دور میں جب کہ ملحدین و سیکولر لوگوں کی طرف سے بیت ابراہیمی کی دعوت دے کر اسلام اور یہودیت و عیسائیت کو ملا کر ایک ہی جگہ عبادت خانے بنائے جانے کا رواج زور پکڑ رہا ہے اس صورت حال میں زیادہ شدت کے ساتھ ایسے اقدام کی نفی ہونی چاہیے وگرنہ یہ مستقبل میں مداہنت و یکجہتی کا ایک خطرناک دروازہ کھول دے گا ۔ والله أعلم. (حافظ محمد طاھر، 21 اگست 2023ء) #اصلاحی_تقریریں #مساجد
نمایش همه...
’’غیر مسلموں کو مساجد میں عبادت کی اجازت؟ ‘‘ بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله ﷺ..!!! کسی غیر مسلم (چاہے اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ میں سے ہو) جس کی عبادت اللہ تعالی کے ساتھ شرک پر مشتمل ہو اسے مسجد میں عبادت کی دعوت دینا قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾. ’’اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں لہذا اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘ (سورہ الجن : ١٨) ⇚امام قتادہ بن دعامہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : «كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللَّهِ، فَأَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ أَنْ يَخْلِصَ لَهُ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ». ’’یہود و نصاریٰ جب اپنے کنائس و عبادت گاہوں میں جاتے تو اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتے لہذا اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ جب کسی بھی مسجد میں جائیں تو خالص اللہ تعالی کو پکاریں۔‘‘ (تفسیر عبد الرزاق : ٣/ ٣٥٤، جامع البيان للطبري : ٢٣/ ٣٤١ وسنده صحیح) ⇚حافظ قرطبی رحمہ اللہ نے اس قول کو امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن : ١٩/ ٢٢) ⇚امام ابن جریج رحمہ اللہ سے مروی ہے : إنّ اليهود والنصارى إذا دَخلوا بِيَعهم وكنائسهم أشركوا بربّهم، فأمَرهم أن يُوَحِّدوه. ’’یہود و نصاریٰ جب اپنے کلیساؤں اور معبد خانوں میں جاتے تو اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے تھے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت پر کاربند رہیں۔‘‘ (ذكره السيوطي وعزاه إلى تفسير ابن المنذر) ⇚حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (٧٧٥هـ) ایک ہی علاقے میں مساجد و کلیساؤں کی موجودگی پر سلف کے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : فالجمع بين فعل الصلاة التي وضعت لأجلها المساجد، بين الكفر المفعول في الكنائس في بقعة واحدة أولى بالنهي عنه، فكما أنهم لا يُمكّنون من فعل عباداتهم في المساجد ، فكذا لا ينبغي للمسلمين أن يصلوا صلواتهم في معابد الكفار التي هي موضع كفرهم . ’’نماز کہ جس کے لیے مساجد بنائی گئی ہیں اس کی ادائیگی اور کلیساؤں (چرچوں) میں کیا جانے والا کٗفـر ایک ہی جگہ جمع کر دینا ممنوع ہونے کے زیادہ لائق ہے لہذا جس طرح کفار کو اپنی عبادات مساجد میں ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ کفار کے عبادت خانوں میں جو کہ کفر کا گڑھ ہیں وہاں اپنی نماز نہ ادا کریں۔‘‘ (فتح الباري لابن رجب : ٣/ ٢٤٣) ⇚سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نصاریٰ (عیسائیوں) سے معاہدہ کرتے وقت جو شرائط رکھی تھیں، ان میں سختی کے ساتھ تنبیہ تھی کہ وہ اپنی عبادت کو چھپا کر رکھیں گے، چنانچہ اس میں شرط تھی: أَنْ لا نَضْرِبَ نَوَاقِيسَنَا إِلا ضَرْبًا خَفِيفًا فِي جَوْفِ كَنَائِسِنَا، وَلا نُظْهِرَ عَلَيْهَا صَلِيبَنَا، وَلا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا فِي الصَّلاةِ، وَلا الْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِيمَا يَحْضُرُهُ الْمُسْلِمُونَ، وَأَنْ لا نُخْرِجَ صَلِيبَنَا وَلا كِتَابَنَا فِي سُوقِ الْمُسْلِمِينَ. ’’ہم اپنے ناقوس پست وہلکی آواز میں اپنے کلیساؤں کے اندرونی حصے میں ماریں گے، اپنی صلیب ظاہر نہیں کریں گے، مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے چرچ میں بھی اپنی عبادت وقراءت کی آواز بلند نہیں کریں گے، اپنی صلیب اور کتاب مسلمانوں کے بازار میں نہیں لائیں گے۔‘‘ (أحكام أهل الذمة والردة للخلال: ١٠٠٠، معجم ابن الأعرابي : ٣٦٥، السنن الكبرى للبيهقي : ٩/ ٣٣٩) ان شرائط پر علمائے امت کا اجماع ہے جیسا کہ حافظ ابن حزم (٤٥٦هـ) اور امام ابن تیمیہ (٧٢٨هـ) نے نقل کیا ہے ۔(مراتب الإجماع : ١١٥، إقتضاء الصراط المستقيم : ١/ ٣٦٣) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس معاہدے اور اس پر مسلمانوں کے اجماع سے معلوم ہوا کہ یہود وعیسائی اپنی عبادت مسلمان ریاست میں چھپ کر صرف اپنی عبادت گاہوں میں کریں گے چہ جائیکہ انہیں باقاعدہ مساجد میں اپنی باطل وشرکیہ عبادت کو سرانجام دینے کے باقاعدہ مواقع فراہم کیے جائیں ۔ ⇚اس سلسلے میں جو قصہ پیش کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے نصاری کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی تھی، وہ کتبِ احادیث میں کہیں نہیں، بلکہ بعض مؤرخین و مفسرین نے معضل ومنقطع اسانید کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صریح نص قرآنی کے خلاف ایسی بے جان، ضعیف و غیر ثابت روایات کو بنیاد بنانا درست نہیں ۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس قصے کے متعلق فرماتے ہیں : هذا منقطع ضعيف ، لا يحتج بمثله . ’’یہ ضعيف ومنقطع ہے، اس جیسی روایت کو دلیل نہیں بنایا جاتا۔‘‘ (فتح الباري : ٣/ ٢٤٤)
نمایش همه...
*•••💝 #بھولی_بسری_سنتیں : (2) 💝•••* *🔅 دو رکعت تحیّةالمسجد ادا کرنا* 🍁 رســـول اللہﷺ نے فـــرمایا : جب کوئی تم میں سے مسجد میں آئے تو نہ بیٹھے جب تک دو رکعت ( تحیۃ المسجد کی ) نہ پڑھ لے. 📓【صحیح بخاری : 1163】        *🌹 آئیے ان سنتوں کو زندہ کریں🌹* https://t.me/ilmoAmall
نمایش همه...
یک طرح متفاوت انتخاب کنید

طرح فعلی شما تنها برای 5 کانال تجزیه و تحلیل را مجاز می کند. برای بیشتر، لطفا یک طرح دیگر انتخاب کنید.