cookie

We use cookies to improve your browsing experience. By clicking «Accept all», you agree to the use of cookies.

avatar

Surgical Strike

ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کے ہفتہ واری پروگرام سرجیکل اسٹرائک کی تشہیر کے لیے یہ چینل ہے۔ https://t.me/Surgicalstrikeyasir

Show more
The country is not specifiedUrdu167Religion & Spirituality34 480
Advertising posts
1 404
Subscribers
No data24 hours
No data7 days
-630 days

Data loading in progress...

Subscriber growth rate

Data loading in progress...

03:18
Video unavailableShow in Telegram
دھورو راٹھی اور اچاریہ پرشانت کی طرف سے مورتی پوجا کے حق میں دی گئی دلیل کا ایک عام فہم جواب۔
Show all...
3.59 MB
دارالعلوم دیوبند کا یہ اعلان انتظامی ہے یاسر ندیم الواجدی قومی اور ملی اداروں کی اپنی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں، ان سے اتفاق اور اختلاف دونوں کیے جا سکتے ہیں، جس طرح اتفاق کو خیرخواہی کا نام دیا جاتا ہے حسن نیت پر مبنی اختلاف کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنا تجربہ پیش کرنا چاہوں گا۔ دارالعلوم دیوبند میں داخلے سے پہلے، میں نے تقریبا دو سال محلہ قلعہ کے ایک استاذ سے انگریزی سیکھی تھی، پھر سال سوم میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا۔ پہلا سال غیر سنجیدگی کا شکار رہا، اس دوران ایک کوچنگ سینٹر میں کچھ دن کمپیوٹر چلانا بھی سیکھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب درسگاہ سے باہر درسی وغیر درسی دینی کتابوں کو ہاتھ لگانے کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ پھر اللہ کے فضل سے، سال چہارم سے کچھ سنجیدگی پیدا ہوئی تو درسی و غیر درسی اوقات میں صرف مطالعہ اور تکرار وغیرہ پر ہی توجہ دی۔ پھر دارالعلوم کی تعلیم سے فارغ ہوکر ہم نے باقاعدہ کالج میں انگریزی سیکھی، پہلے سے موجود بنیاد اور امریکہ کے ماحول کی وجہ سے، کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ آج بھی بڑی تعداد ایسی ہے جو عالمیت کے نصاب سے فارغ ہوکر ملک کے مختلف اداروں میں جا کر انگریزی سیکھتی ہے اور اس زبان میں مہارت پیدا کرتی ہے۔ جب گزشتہ سال دارالعلوم دیوبند میں یہ اعلان کیا گیا کہ ادارے کے تحت ہی طلبہ دسویں کلاس تک کی تعلیم حاصل کریں گے، تو یہ حسرت ابھر آئی کہ یہ نظام ہمارے زمانے میں کیوں نہیں بنایا گیا۔ ( حالانکہ عملی طور پر یہ نظام ابھی بھی موجود نہیں ہے، لیکن اس کی توقع ہے کہ جلد ہی مدارس میں یہ نظام نافذ العمل ہو جائے گا) میں یہ سمجھتا ہوں کہ درس نظامی سے پہلے طالب علم کو ہائی اسکول، یا انٹر تک تعلیم حاصل کرلینی چاہیے، پھر عالمیت کا نصاب شروع کرنا چاہیے۔ مجھے اس کی کمی آج تک محسوس ہوتی ہے۔ عالمیت وفضیلت کا نصاب اگر سنجیدگی سے پڑھا جائے تو درحقیقت طالب علم کے پاس مزید کچھ کرنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی چھ سے سات گھنٹے پر مشتمل لیکچرز نہیں ہوتے، لیکن مدارس میں ابتدائی درجات میں 6 اور وسطی درجات سے سات گھنٹے روزانہ دروس ہوتے ہیں، اس کے بعد تکرار ومطالعہ کے لیے وقت درکار ہے۔ ریسرچ کے مطابق ایک طالب علم اوسطاً چھ سے سات گھنٹے ہی یومیہ تعلیم میں منہمک رہ پاتا ہے۔ لہذا درس نظامی (کہ جس کا بوجھ کالج ویونیورسٹی کی تعلیم سے کہیں زیادہ ہے) کے ساتھ اضافی کورس کرنا درس نظامی کا حق ادا کرنے میں یقینا مخل ہوگا۔ ( استثناء ہر جگہ ہوتا ہے)۔ لہذا یا تو درس نظامی کا بوجھ کچھ کم ہو اور اس میں ترمیمات کی جائیں، یا پھر اس کورس سے پہلے یا بعد میں عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ البتہ دارالعلوم دیوبند کے اس اعلان کو عام میڈیا چینلوں کی طرح کسی زبان کی مخالفت سے، یا فکری انحطاط سے موسوم کرنا مناسب نہیں ہے۔ میں کتنے ہی انگریزی دانوں سے واقف ہوں جن کی فکر تحت الثریٰ میں ہے۔ یہ خالصتا ایک انتظامی مسئلہ ہے اور اس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
Show all...
Photo unavailableShow in Telegram
Show all...
EP: 55 || Caste System in Islam || Live Q&A || Dr. Mufti Yasir Nadeem al Wajidi

فقہ میں یہ مسئلہ ملتا ہے کہ اگر زوجین کی آپس میں کبھی ملاقات نہ ہوئی ہو اور بچہ ہو جائے تو بھی اس بچے کو ولد الزنا نہیں کہا جائے گا اور اس کا نسب باپ سے ثابت مانا جائے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیسے ممکن ہے؟ واضح رہے کہ یہ مسئلہ حدیث الولد للفراش وللعاہر الحجر سے ثابت ہے۔ یہاں لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ شوہر خاموش رہ کر اس بچے کو 'کلیم' کررہا ہے، اب عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ زوجین کب ملے اور کیسے ملے۔ نیز چار گواہ موجود نہیں ہیں کہ زنا ثابت ہو۔ تو پھر بچے کا نسب باپ سے کیوں کر ثابت نہ ہو۔ اگر باپ کلیم نہیں کرنا چاہتا ہے تو شریعت نے لعان کا آپشن دیا ہے، وہ اس پر عمل کرے۔ اس آپشن کے ہونے کے باوجود خاموش رہنے کا مطلب ہے یہ ہے کہ وہ بچے کو کلیم کررہا ہے جس کی بنا پر نسب کا ثبوت درست ہے۔ ایک مفتی صاحب نے یہ مسئلہ اپنے بیان میں ذکر کیا تو ان کی ویڈیو کے نیچے کمنٹس میں اَنعام نے طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا تھا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قانون جذبات کے اوپر مبنی ہوتا ہے، جب وہ قانون کی کوئی بات اپنے جذبات کے خلاف آتے ہیں تو اس کو غلط سمجھتے ہیں۔ قرآن نے ایسے ہی لوگوں کو إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا کہا ہے جن کے یہاں عقل پر جذبات غالب رہتے ہیں۔ یاسر ندیم الواجدی
Show all...
مسلم یونیورسٹیوں میں ٹرانسجینڈرازم کی تعلیم یاسر ندیم الواجدی حکومت ہند نے سپریم کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی مذہب وفطرت اور بھارتی معاشرے کے خلاف ہے۔ عدالتیں اس وقت "ووک" کلچر سے متاثر ہیں، اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہم جنس پرستوں کے حق میں آئے گا۔ لیکن حکومتی موقف اور اس کے عمل میں ایک بڑا تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ بھارت کے کالج اور یونیورسٹیوں میں ٹرانسجینڈرازم کو فروغ دینے والے مضامین شامل نصاب ہیں اور طلبہ کو یہ پڑھایا جارہا ہے کہ انسان کا ایک بائیولوجیکل سیکس ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اس کو مذکر یا مونث کے خانوں میں ڈالا جا سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ جینڈر بھی ہوتا ہے، جو کہ انسانی معاشرے کی تشکیل ہے۔ واضح رہے کہ اس سال تک 103 جینڈرز کی فہرست سازی کی جاچکی ہے۔ تہافت الملاحدہ پروگرام کے تحت ہونے والی کلاس میں مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے مجھے بتایا کہ اس کی ٹیچر نے بی ایڈ کورس کے طلبہ کو یہی رٹوایا ہے کہ جنس الگ ہے اور جینڈر الگ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ مسلم یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے تو عام اداروں کا کیا حال ہوگا۔ یونیورسٹی کا مسلم اقلیتی کردار در حقیقت اس بات سے طے ہونا چاہیے کہ وہاں اسلامی عقائد سے مداہنت کی تعلیم تو نہیں دی جارہی ہے، یہ معیار نہیں ہے کہ وہاں کتنے مسلم بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ٹرانسجینڈرازم کا سارا فلسفہ یہی ہے کہ بچے کی پیدائش کے وقت اس کے اعضا کی بنیاد پر اس کی بایولوجیکل جنس تو متعین کی جا سکتی ہے، لیکن بڑا ہونے پر وہ بچہ خود اپنے جذبات واحساسات کی بنیاد پر اپنا جینڈر طے کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بڑے ہوکر لڑکے کو لڑکی ہونے کا احساس ہو، یا لڑکی کو لڑکے ہونے کا۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ آیا یہ نقطہ نظر سائنسی اعتبار سے درست ہے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ہم جنس پرستوں کی شادی کے خلاف موقف اختیار کیے ہوئے ہے، تو دوسری طرف ملک میں یونیورسٹیوں کا نصاب تعلیم ہی ایسا ہے کہ جس سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملتا ہے۔ رہی بات مسلمانوں کی، تو اس موضوع پر مولانا محمود مدنی کی جمعیت علمائے ہند کے علاوہ کسی تنظیم کا موقف کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ مسلم تنظیموں اور دانشوروں کو اس تعلق سے روڈ میپ بنانا ہوگا۔ اس لیے کہ بہت سے مغربی ممالک میں اس وقت یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے کہ مسجد کے امام صاحب کے پاس اگر مسلم ٹرانسجینڈر جوڑا نکاح کے لیے آتا ہے اور امام صاحب نکاح پڑھانے سے انکار کردیں، تو وہ قانونی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم ایسی تعلیم یافتہ نسل اپنے اداروں سے تیار کررہے ہیں، جس کا ایمان مغربی فکر وفلسفے پر ہے تو مستقبل میں یہی نام نہاد مسلم نوجوان ہم جنس پرستی کی تحریک کا ہراول دستے ہوں گے۔
Show all...
غامدی صاحب پکے حنفی ہیں؟ یاسر ندیم الواجدی یہ بات باعث حیرت ہے کہ مدارس میں کچھ معلوم کمزوریوں کی بنا پر ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو لبرل اقدار اور تجدد پسندی کا اس حد تک شکار ہے کہ غامدی صاحب کو ہی اپنا مقتدا بنا بیٹھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک غیر فطری تقلید ہے، اس لیے یہ حضرات غامدی صاحب کی امامت کو ثابت کرنے کے لیے اہل روایت کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور زمین و آسمان کے ایسے ایسے دعوے کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ غامدی جماعت کے تعلق سے ہم نے اس سے پہلے بھی لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھیں گے۔ ہمارا بنیادی میدان اگرچہ رد الحاد ہے، لیکن لبرل اقدار الحاد کا زینہ ہیں، اس لیے غامدیت پر نکیر ہمارے میدان کار میں شامل ہے۔ ایک صاحب نے ہماری گزشتہ پوسٹ پر یہ دعوی کیا کہ فقہ حنفی کی کتاب اصول الشاشی کا مطالعہ کرنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ کتاب غامدی کے اصولوں سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔ ہم نے جوابا عرض کیا کہ کچھ مثالیں پیش کر دی جائیں، تاکہ اس دعوے میں کچھ جان آئے۔ وہ صاحب فرماتے ہیں کہ سب سے پہلی مثال غامدی صاحب کا کتاب اللہ کے معاملے میں حدیث کو ترک کرنا ہے اور سنت متواترہ پر عمل کرنا ہے۔ پھر خود لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک خبر واحد یا خبر مشہور دون المتواتر کو ترک کیا جائے گا۔ اب اس فرقے کا طریقہ واردات ملاحظہ فرمائیے۔ غوامد نے یہ اصول کہ قرآن کے مقابلے میں حدیث مشہور کو بھی ترک کردیا جائے گا فقہ حنفی کی طرف منسوب کردیا، جب کہ فقہ حنفی کے مطابق سنت مشہورہ قرآن کی آیت کے لیے ناسخ ہو سکتی ہے، ایسی صورت میں سنت مشہورہ کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ حنفیہ قرآن کے مقابلے میں خبر واحد کو اس لیے رد کرتے ہیں کہ ناسخ کے لیے منسوخ کے برابر ہونا یا اس سے مضبوط تر ہونا ضروری ہے اور یہ اصول کامن سینس کے مطابق ہے۔ یہ رد کرنا بھی اس وقت ہوتا ہے جب کہ تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، ترجیح ونسخ تو پہلے ہی ممکن نہ تھے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے اصول واقعی حنفی اصول فقہ کے مطابق ہیں، تو سنت کی تعریف بھی وہی کریں جو حنفی اصولیین نے کی ہے، لیکن غامدی صاحب اپنی کتاب المیزان میں مبادئ تدبر سنت کے تحت ساتویں اصول میں یہ لکھتے ہیں کہ سنّت وہی ہے جو عملی تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچی ہو۔ سنت کو تواتر میں منحصر کرنے کی کوئی دلیل انھوں نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کی ہے۔ اس لیے ان کے اس خودساختہ اصول کو حنفی فقہ کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ وہی صاحب آگے چل کر یہ بھی فرماتے ہیں کہ فقہ حنفی کی کتاب نور الانوار میں ایسے بہت سے اصول پائے جاتے ہیں جہاں حدیث کو ترک کرکے سنت متواتره یا قیاس پر عمل کیا جاتا ہے اور یہی غامدی صاحب کا طریقہ استدلال و استنباط ہے۔ اس کی مثال کے طور پر وہ حدیث تصریہ پیش کرتے ہیں کہ حدیث کے صحیح ہونے کے باوجود حنفیہ نے قیاس کے مخالف ہونے کی بنا پر اس حدیث کو ترک کر دیا۔ جب کہ اس حدیث کا قیاس مخالف ہونا اس حدیث کے ترک کرنے کی من جملہ وجوہات میں سے ایک وجہ ہے، حنفیہ نے اس حدیث پر اس لیے عمل نہیں کیا کہ اس میں اور قرآن کی بہت سی آیتوں میں تطبیق ممکن نہیں ہے، نیز یہ حدیث ایک دوسری حدیث الخراج بالضمان کے بھی خلاف ہے، پھر تائیدا نے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ حدیث قیاس کے بھی خلاف ہے۔ اگر غامدی صاحب کی طرح حنفیہ قیاس کی بنا پر حدیث کو ترک کرتے تو نماز میں قہقہہ حنفیہ کے نزدیک ناقض وضو نہ ہوتا۔ اس مسئلے میں انہوں نے قیاس کے مقابلے میں حدیث پر عمل کیا ہے۔ لہذا غامدی صاحب کے دفاع میں یہ کہنا کہ ان کے خود ساختہ غیر مدلل اصول، حنفی اصول فقہ سے مطابقت رکھتے ہیں، ایک مضحکہ خیز کہانی تو ہو سکتی ہے، لیکن اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم غوامد کو فرقہ اسی لیے سمجھتے ہیں کہ ان کے اپنے اصول وفروع ہیں اور یہی کسی بھی جماعت کے فرقہ ہونے کی علامت ہے۔
Show all...
عمار ناصر فرقہ غامدیہ کے اہم افراد میں سے ہیں۔ غوامد کا طریقہ واردات دیکھیں: وہ لکھتے ہیں کہ موسیقی کے تعلق سے مالکیہ کا موقف توسع اور اعتدال والا ہے۔ توسع تو قابل فہم ہے، لیکن اس موقف پر اعتدال کا ٹیگ کس حیثیت سے چسپاں کیا گیا؟ ہر وہ مسئلہ جس میں غامدی فرقہ حلت کا قائل ہو اور جمہور مسلمین حرمت کے، کیا حلت والا موقف خود بخود اعتدال والا موقف بن جاتا ہے؟ کوئی اگر یہ کہے کہ کیکڑا کھانے کے سلسلے میں شافعیہ کا موقف اعتدال والا ہے، یا تراویح کے تعلق سے آٹھ رکعت ہی اعتدال والا موقف ہے، یا سعی میں صفا سے مروہ تک چلنے کو حنفیہ کے نزدیک ایک چکر ماننا (شافعیہ کے یہاں صفا سے واپس صفا تک ایک چکر ہے) اعتدال والا موقف ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ بیانیے درست ہوں گے؟ پھر وہ فرقہ جس کی بنیاد روایت سے بغاوت پر ہو، وہ اپنے موقف کو پیش کرنے کے لیے اہل روایت کا سہارا لے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک کوئی اصول اور ضابطہ مسلّم نہیں ہے۔ اگر حرام کو حلال کرنے کے عمل میں، انکار روایت سے مدد ملتی ہو، تو روایت کا انکار کیا جائے گا اور اگر تسلیم روایت سے مدد ملتی ہو، تو روایت کو تسلیم کیا جائے گا، اصل مقصد جمہور کے نزدیک حرام شدہ کو حلال کرنا ہے۔
Show all...