cookie

We use cookies to improve your browsing experience. By clicking «Accept all», you agree to the use of cookies.

avatar

🌴 فلاح دارین🌴

💦خوش خبری💦 ایک بہت ہی بہترین چینل جس میں آپکو قرآن مجید کی صفات،آو جنت پکارتی ہے ،ختم نبوت پر مضامین ،سیرت النبی،جنت وجھنم کا بیان،سیرت خلفاء اربعہ،حیات صحابہ،اور بہت کچھ ملینگے انشاءاللہ تو ابھی ہمارے اس چینل کو ضرور جوائن کریں

Show more
The country is not specifiedUrduReligion & Spirituality
Advertising posts
368
Subscribers
No data24 hours
No data7 days
No data30 days

Data loading in progress...

Subscriber growth rate

Data loading in progress...

بسم الله الرحمن الرحيم عنوان:زكوة دیون، (debts) یعنی کسی کے ذمہ واجب الادا قرض (loan payable) کی زکوۃ: جو سامان یا رقم دوسروں کے ہاں بطور دین (loan amount) یا قرض (loan) باقی ہو ، اس میں زکوۃ کے وجوب اور عدم وجوب کے متعلق درج ذیل اصول کی رعایت رکھنی ضروری ہے۔ (۱) اگر مدیون (debtor) دین (loan amount) کا انکار کرتا ہو اور ثبوت فراہم نہ ہو تو اس کو مال ضمار کہتے ہیں، لہذا اس میں زکوۃ واجب نہیں، البتہ اگر ایسا مال اتفاقا مل جائے یا گواہ فراہم ہو جائے تو ایسی صورت میں گزشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہ ہوگی، بلکہ وصول ہونے کے بعد ایک سال گزرنے پر زکوۃ واجب ہوگی۔ (۲) مدیون دین کا انکار کر رہا ہو لیکن اس کے خلاف ثبوت فراہم ہو یا قاضی کو اس دین کا علم ہو تو اس صورت میں مشہور قول کے مطابق اس دین کی زکوۃ واجب ہوگی لیکن عدالت کی پیروی ، گواہوں کو گواہی کے لیے تیار کرنے کی سعی اور عدالت سے انصاف کی توقع چونکہ موجودہ دور میں ایک مشکل کام ہے، اس لیے فقہاے متأخرین نے اس صورت کو بھی زکوۃ سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ (۳) اگر مدیون کبھی تو اقرار کر رہا ہواور کبھی انکار، تو جب تک قاضی کی عدالت میں گواہی یا اس کے ذاتی اقرار سے دین کی ادائیگی کا فیصلہ نہ ہو، اس وقت تک اس دین میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔ فیصلے اور حکم نامے سے قبل محض عدالت میں حاضری اور پیروی سے زکوۃ کا حکم نہیں لگے گا۔ (۴) اگر دین کسی ایسے شخص پر ہو جو اس کا اقرار کر رہا ہوتو چاہے وہ تنگ دست ہو یا خوش حال ، بہر صورت اس دین کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (۵) ایسا مقروض جو اقرار تو کر رہا ہو لیکن دیوالیہ ہوگیا ہو تو جب تک عدالت اس کی تفلیس، یعنی دیوالیہ ہونے کا فیصلہ نہ کرے ، اس دین میں زکوۃ واجب ہوگی ، تاہم حسن بن زیاد رحمہ اللہ کے ہاں اس مال میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی ، اس لیے کہ صاحب دین اس مال سے نفع نہیں اٹھا سکتا اور اگر عدالت نے اسے مفلس قرار دے دیا تب امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں واجب ہوگی ۔ والدليل على ذلك: بدائع الصنائع كتاب الزكاة فصل في الشرائط التي ترجع إلى المال، جلد 2 صفحہ 389 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ.فقط والله أعلم وعلمه أتم وأحكم بالصواب کتبہ: محمد طلحہ فصیح القاسمی دار الافتاء جامعہ فلاح دارین شیرشاہ کراچی (نوٹ) گروپ میں شامل ہونے کے لیے لنک پر کلک کریں 👇👇👇👇👇👇 https://chat.whatsapp.com/J7XoPzlHtu91REKnLPWbQ2
Show all...
✍🏻آپ کےشرعی و دینی مسائل

WhatsApp Group Invite

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته سوال ایک شخص نے اپنی بیٹی کی تعلیم وتربیت پر اور شادی کے موقع پر جہیز دے کر کافی مال خرچ کیا ،اب شادی کے بعد وہ بیٹی باپ سے اس کی زندگی ہی میں جائیداد کا مطالبہ کرتی ہے کہ میرا بھی آپ کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے ازروئے شرع بیٹی کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں؟ الجواب حمدا ومصليا شریعت مطہرہ میں ہر شخص کو اپنے مال وجائیداد پر ملکیت اور جائز تصرف کا حق حاصل ہے،اس ذاتی اور شخصی ملکیت میں کوئی بھی شخص بغیر استحقاق کے حصہ داری کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ صورت مسؤلہ میں جب باپ نے نکاح سے پہلے اپنی بیٹی کے نان ونفقہ کا خیال رکھا ہے تو اس نے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کی ہے بیٹی باپ کی زندگی میں اس کے مال وجائیداد میں کسی قسم کا استحقاق نہیں رکھتی ،اور نہ باپ پر زندگی میں اولاد کو مال وجائیداد میں حصہ دار بنانا لازم ہے البتہ اگر باپ اپنی مرضی سے زندگی میں دیگر اولاد کے درمیان جائیداد وغیرہ تقسیم کرتا ہو تو چاہیے کہ سب لڑکے اور لڑکیوں کو حصہ دے ،کسی معقول وجہ کے بغیر کسی کو محروم نہ کرے یا بلا وجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دےاس سے وہ شرعا گنہگار ہوگا کیونکہ اولاد ہونے میں سب برابر ہیں ۔تاہم اگر باپ کسی بیٹے یا بیٹی کے ضرورت مند ہونے یا کمانے سے عاجز ہونے یا زیادہ دیندار ہونے کی وجہ اس کو زیادہ دے تو یہ ممنوع نہیں ۔ كل يتصرف فى ملكه كيف شاء ۔۔۔۔۔لا يمنع احد من التصرف فى ملکه ابدا الا اذا اضر به ضررا فاحشا۔ (شرح المجلة لسليم رستم باز ،المادة:1192،1197 ) ونفقة الاناث واجبة مطلقا على الآباء مالم يتزوجن اذا لم يكن لهن مال۔ (الفتاوى الهندية ،كتاب الطلاق ،الفصل الرابع فى نفقة الاولاد1/609) يكره تفضيل بعض الاولاد على البعض فى الهبة حالة الصحة الا لزيادة فضل له فى الدين ،وان وهب ماله كله لواحد جاز قضاء وهو آثم ۔ (البحرالرائق ،كتاب الهبة7/288) فقط والله أعلم بالصواب https://chat.whatsapp.com/J7XoPzlHtu91REKnLPWbQ2
Show all...
✍🏻آپ کےشرعی و دینی مسائل

WhatsApp Group Invite

📲 سوشل میڈیا—صحیح اور غلط استعمال؟ 📝 تحریر : حضرت مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب 📜 قسط نمبر ۔۔۔۔۔ 6 ♻️ ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے ؛ کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں ، اور اس ذریعہ کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اس کو مفید طریقہ پر استعمال کیا جائے اور نقصاندہ پہلوؤں سے بچا جائے ، جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقہ پر ذبح کیا جاسکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے ، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینہ میں پیوست بھی کیا جاسکتا ہے ، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔ ⚠️ اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے ، ان میں چند اہم نکات یہ ہیں : 🔖(۱-) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے ؛ تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے ، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہوجائے ۔ 🔖(۲-) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے ؛ کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصاندہ ہے ۔ 🔖(۳-) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے ، وہ ان ذرائع کے ذریعہ بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی ، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنا ، مذاق اُڑانا ، سب و شتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا ، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے ۔ 🔖(۴-) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے ، جائز نہیں ہے ، اگرچہ کہ وہ سچائی پر مبنی ہوں ؛ اس لئے کہ جو سچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور انسان اور انسان کے درمیان نفرت کی بیج بوتا ہو ، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔ [[…بقیہ آئندہ ان شاء اللہ…]]
Show all...
📲 سوشل میڈیا—صحیح اور غلط استعمال؟ 📝 تحریر : حضرت مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب 📜 قسط نمبر ۔۔۔۔۔ 3 ♻️ کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری ہے ، ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلو میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شب جب کائنات کی فضاء پر چھاتی ہے تو وہ کسی نئی حقیقت سے پردہ اُٹھانے کا مژدہ سناتی ہے ، ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے ، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہے ؛ بلکہ اس میدان میں ٹکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلہ زیادہ تیز ہے ، ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ اس وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ ہی بہت بڑی چیز تھی اور فون وٹیلی گرام کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ؛ لیکن آج اگر کوئی شخص ان ایجادات کو حیرت و رشک کی نظر سے دیکھے تو بچے بھی اس پر ہنسیں گے ؛ چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ، افسوس کہ مسلمان ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار رہے ، ہم ترقی کے قافلہ کا سالار بننے کی بجائے اس قافلہ میں شامل آخری فرد بھی نہ بن سکے اور گرد کارواں بننے ہی کو اپنے لئے بڑی نعمت سمجھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عالمی اعتبار سے یہودی حاوی ہوگئے وطن عزیز ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا بول بالا ہوگیا ، اور میڈیا کے ہتھیار سے ہمارے ملی مفادات ، تہذیبی اقدار ، قومی وقار اور دینی افکار کا اس طرح قتل کیا گیا کہ شاید توپ اور ٹینک کے گولوں اور فائیٹر جہازوں کی طرف سے ہونے والی آگ کی برسات بھی ہمیں اس درجہ نقصان نہیں پہنچا پاتی : ’’ فیا اسفاہ ویا عجباہ‘‘ ! ادھر بیس سے پچیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے ، جن کو ’ سوشل میڈیا ‘ کہا جاتا ہے ، اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس پر اب تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے ، خدا کرے یہ صورت حال باقی رہے ، اس میں خاصا تنوع بھی ہے ، جس میں واٹس اپ ، فیس بک ، یوٹیوب ، ٹیوٹر ، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں ؛ لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے ، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی ، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی ، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ، دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجہ کا ہے کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ؛ اس لئے اگرچہ بہت سے لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبہ کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کی ؛ لیکن بالآخر انھیں اس کی سرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑا ؛ اس لئے اب ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصاندہ پہلو کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں اور خاص کر ملت کی نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہئے ۔ [[…بقیہ آئندہ ان شاء اللہ…]]
Show all...
📲 سوشل میڈیا—صحیح اور غلط استعمال؟ 📝 تحریر : حضرت مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب 📜 قسط نمبر ۔۔۔۔۔ 2 ♻️ پورے جزیرۃ العرب تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں منعقد ہونے والے حج اور تجارتی اجتماعات تھے ، حج میں تو پورے عرب سے لوگ کھنچ کھنچ کے آتے ہی تھے ، اس کے علاوہ عکاظ اور ذوالمجاز وغیرہ کے میلے بھی لگتے تھے ، ان اجتماعات میں جو بات کہی جاتی ، جو تقریریں کی جاتیں اور جو اشعار پیش کئے جاتے ، پورے عرب میں اس کی گونج سنی جاتی اور لوگوں میں اس کا خوب چرچا ہوتا ، پوری سرزمین عرب تک اپنی بات پہنچانے کا اس سے مؤثر کوئی اور ذریعہ نہیں تھا ؛ حالاںکہ ان میلوں میں یہاں تک کہ حج میں بھی بہت سی منکرات شامل ہوا کرتی تھیں ؛ لیکن آپ انے مفاسد سے بچتے ہوئے دعوت اسلام کو عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے اس موقع کا بھرپور استعمال فرمایا ، یہی چیز حضرت ابوذر غفاریؓ وغیرہ کے دامن اسلام میں آنے کا ذریعہ بنا ، اور یہیں سے اسلام کی کرن مدینہ کی سرزمین تک پہنچی اور ایک آفتاب عالم تاب بن کر پورے عالم پر درخشاں ہوئی ۔ لیکن ابھی عرب سے باہر اسلام کو پہنچانے کا مرحلہ باقی تھا اور اس کے لئے خط و کتابت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا ؛ چنانچہ ہجرت کے چھٹے سال جب اہل مکہ سے صلح ہوگئی ، جو ’ صلح حدیبیہ ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اہل مکہ کی یلغارِ مسلسل سے مسلمانوں کو کچھ اطمینان ہوا تو آپ انے پہلا کام یہی کیا کہ عرب کے گرد و پیش موجود بڑی طاقتوں اور اس وقت کی معلوم دنیا کے حکمرانوں تک دعوتی خطوط بھیجے ، حدیث کی متداول کتابوں میں تو چھ فرماں رواؤں کے نام خطوط کا ذکر ملتا ہے ؛ لیکن دنیائے تحقیق کے تاجدار ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحبؒ کے بقول ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ، یہاں تک کہ چین تک یہ دعوت پہنچائی گئی ، گویا آپ انے دور دراز علاقوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے پوری وسعت کے ساتھ اس ذریعۂ ابلاغ کا استعمال فرمایا ۔ [[…بقیہ آئندہ ان شاء اللہ…]]
Show all...
📲 سوشل میڈیا—صحیح اور غلط استعمال؟ 📝 تحریر : حضرت مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب 📜 قسط نمبر ۔۔۔۔۔ 1 ♻️ انسان اپنی تمام ضروریات اپنے آپ پوری نہیں کرسکتا ، اسے اپنی خواہش ، اپنی ضرورت اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچانا پڑتا ہے ، پہنچانے کے عمل کو ’ ابلاغ ‘ کہتے ہیں ، ابلاغ کے لئے انسان کو دو قدرتی ذرائع مہیا کئے گئے ہیں ، ایک : زبان ، جس کے ذریعہ آپ قریب کے لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں ، دوسرے : قلم ، جس کے ذریعہ آپ کوئی بات لکھ سکتے ہیں اور اسے کسی ذریعہ سے دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں ، ابلاغ کے یہ دو ذرائع شروع سے استعمال ہوتے رہے ہیں ، قرآن مجید میں انبیاء کی دعوت کا ذکر آیا ہے ، وہ قوم کو اپنی بات سمجھانے کے لئے زبانی تخاطب کا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے ، تحریر کے ذریعہ دور تک اپنی بات پہنچانے کی مثال بھی قرآن مجید میں موجود ہے ؛ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا بلقیس کو خط ہی کے ذریعہ اپنا پیغام پہنچایا تھا اور ایک پرندہ نے نامہ بر کا فریضہ انجام دیا تھا ۔ ( النحل : ۲۹) جب کوئی عمومی دعوت و مشن ہو تو اس کے لئے ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، مکہ میں پہلے سے یہ طریقہ آرہا تھا کہ جب بیک وقت تمام اہل مکہ کو کوئی اہم خبر پہنچانی ہوتی تو صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کیا جاتا ، تمام لوگ پہاڑی کے دامن میں جمع ہوجاتے اور کہنے والا اپنی بات کہتا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نبوت سے سرفراز کئے گئے ، تو آپ نے اہل مکہ تک دعوت توحید پہنچانے کے لئے اسی قدیم ذریعہ ابلاغ کو اختیار کیا ؛ البتہ اس میں جو بعض غیر اخلاقی طریقے شامل کرلئے جاتے تھے ، جیسے : شدت مصیبت کے اظہار کے لئے سروں پر خاک اڑانا ، یا بے لباس ہوجانا ، آپ انے اس سے اجتناب فرمایا ۔ [[…بقیہ آئندہ ان شاء اللہ…]]
Show all...
Watch "سورة التحريم بصوت القاري الشيخ محمد طلحہ فصیح القاسمی" on YouTube https://youtu.be/Oj0xJbfE1xU
Show all...
سورة التحريم بصوت القاري الشيخ محمد طلحہ فصیح القاسمی

Watch "مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں #از مفتی محمد طلحہ فصیح القاسمی/جامع مسجد حنفیہ شیر شاہ کراچی پاکستان" on YouTube https://youtu.be/CNnzB7l2SPo
Show all...

Show all...
الله والوں کی صحبت بہت ضروری ہے #از مفتی محمد طلحہ فصیح القاسمی/جامع مسجد حنفیہ شیر شاہ کراچی

Watch "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایفائے عہد# از مفتی محمد طلحہ فصیح القاسمی" on YouTube https://youtu.be/957rP4ViHBg
Show all...

Choose a Different Plan

Your current plan allows analytics for only 5 channels. To get more, please choose a different plan.