cookie

Sizning foydalanuvchi tajribangizni yaxshilash uchun cookie-lardan foydalanamiz. Barchasini qabul qiling», bosing, cookie-lardan foydalanilishiga rozilik bildirishingiz talab qilinadi.

avatar

فکرانگیز اور سنہری تحریریں

اس چینل میں مستند اصلاحی علمی وفکری تحریریں اور بہت سی عمدہ چیزیں نشر کی جاتی ہیں۔

Ko'proq ko'rsatish
Reklama postlari
4 227
Obunachilar
+524 soatlar
+287 kunlar
+11530 kunlar

Ma'lumot yuklanmoqda...

Obunachilar o'sish tezligi

Ma'lumot yuklanmoqda...

’’شیخِ موبائل‘‘ کی صحبت سے نکل کر’’شیخ کامل‘‘ کی صحبت اختیار کریں ✍️ ابو صارم سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی اس طلسماتی دنیا سے نکلیں اور حقیقی دنیا میں، اپنی ذات پر، اپنے اہل خانہ اور خاندان والوں کے ساتھ اصلاحی کام کریں۔ بظاہر نظر آنے والا یہ ۲ ہزار ۵ ہزار یا ۱۰ ہزار کا چینل یا گروپ جہاں ہم دن رات دنیا والوں کی اصلاح کی فکر میں جیتے ہیں، یہاں سے وہاں سے پوسٹ کاپی کر کے یا ٹائپ کر کے لوگوں کے لیے ارسال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دین کا بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔ یہ سب محض دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طلسماتی دنیا ہے جس کے دھوکے میں اچھے اچھے گرفتار ہیں۔ اصلاح کا کام سب سے پہلے اپنی ذات سے ہی شروع ہوتا ہے۔اور اپنی ذاتی اصلاح کا سب سے عمدہ اور آسان طریقہ کسی سچے صاحبِ نسبت کی صحبت میں رہ کر اپنی اصلاح کروائی جائے۔اس بات کو وہ شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے جس نے کسی شیخِ صادق کا دامن تھام کر ان کی صحبت اختیار کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کر رہا ہو۔ لیکن افسوس ہم دھوکے میں گرفتار ہیں، ہم یہ سوچتے ہیں کہ یوٹیوب میں علماء کے بیانات سن کر اور دیکھ کر اچھی اچھی باتیں سیکھ جائیں گے اور دین پر چلنا آسان ہو جائے گا۔ میں اپنا ذاتی تجربہ بتا رہا ہوں اس سے اصلاح ممکن ہی نہیں، ہاں وقتی جذبہ سے سرشار ہو کر کچھ دنوں تک اس کا اثر نظر آئے گا لیکن ’’اصلاح‘‘ نہیں ہوگی۔اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو فائدے اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے میں ہے وہ کوسوں دور بیٹھ کر ’’شیخِ موبائل‘‘ یا ’’شیخِ یوٹیوب‘‘ کی صحبت سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انٹرنیٹ کے ذریعہ علماء کے بیانات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا دیں گے اور لوگ اس سے اثر لیں گے وہ بھی دھوکہ میں ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ آپ نے علماء کی یا اہل اللہ کی بات تو لوگوں تک پہنچا دی لیکن وہ صحبت کا فیض کیسے حاصل ہوگا جو علماء حق اور کسی اللہ والے کے ساتھ بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے؟؟؟ لہٰذا یہی گزارش ہے کہ ’’شیخِ موبائل‘‘ اور ’’شیخِ انٹرنیٹ‘‘ کی صحبت سے نکل کر کسی ’’سچے شیخِ کامل‘‘ کی صحبت میں جا کر بیٹھیں اور یہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی اور دنیا والوں کی اصلاح کی فکر چھوڑ دیں، کیوں کہ اس کا کوئی حاصل نہیں۔ t.me/Islahi_Taalluq
Hammasini ko'rsatish...
👍 3
خلاصہ کلام یہ کہ سوشل میڈیا کا ماحول بہت زیادہ بگڑ چکا ہے...بعض لوگ بظاہر اپنے نیک مقصد کو پورا کرنے کے لیے بھی کسی حربے سے دریغ نہیں کرتے ہیں... جھوٹ، مکر اور فریب کا بازار گرم ہے... اس لیے جو شخص جس قدر سوشل میڈیا سے دور ہوتا جائے گا... اتنا ہی / اتنی ہی خیر و عافیت سے پرسکون زندگی گزارتا چلا جائے گا...! ہمارا تو یہی مشورہ ہے آگے آپ کی اپنی مرضی ہے اگر کوئی مانے تو بھی ان کا اپنا فائدہ نہ مانے گا تو بھی ان کا اپنا نقصان ✍خانہ بدوش tinyurl.com/MobileFitnah
Hammasini ko'rsatish...
👍 2
نہ تیرا ذکر ہو جن میں وہ مجلسیں برباد ہو تیری یاد سے خالی تو خامشی کیا ہے؟ جو علم مجھ کو نہ پہنچائے تیری چوکھٹ تک نہ مجھ کو تیرا پتا دے وہ آگہی کیا ہے ایسے ذرائع جو اللہ سے قریب کرنے کے بجائے اس سے دور کریں وہ برباد ہوں، ایسی مجلسیں جو تعمیر کے بجائے تخریب کی وجہ بنے وہ برباد ہوں۔ آمین یا الٰہی ✍️ ابو صارم t.me/SunehriTehriren
Hammasini ko'rsatish...
5
یہ سوشل میڈٰیا محض ایک دھوکہ ہے جہاں ہم اپنی محنتیں صرف کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ خیر کا کام کر لیں گے۔ آسمان سے برسنے والا پانی تو پاک ہی ہوتا ہے لیکن جب یہ گندی نالیوں سے بہہ کر ہمارے پاس آئے تو نہ اس کا پینا جائز، نہ نہانا جائز، نہ پاکی حاصل کرنا جائز، اسی طرح ہر وہ بات جو پاک ہے جو پاک زبانوں سے ادا ہو رہی ہے لیکن وہ ہم تک ایسے ذریعہ سے پہنچ رہی ہے جو پاکی سے زیادہ ناپاکی پھیلانے کا موجب ہے، اللہ کی نظر میں یہ ذریعہ محبوب ہونے سے زیادہ مغضوب ہے، جس چیز سے اللہ ناراض ہو اس چیز میں اللہ کی مدد بھی شامل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ دینی کام میں وہ الہیٰ برکات شامل نہیں ہیں۔ اے کاش کہ ہم سمجھ جائیں۔ آج میرے نیٹ کا آخری دن ہے اور میں آج یہ عزم کرتا ہوں کہ صرف اور صرف کاروباری ضروریات کے لیے ہی نیٹ سے مربوط ہوں گا۔ ان شاء اللہ اب اپنا وقت اپنے گھر میں مصحفِ قرآن نکال کر اس کی تلاوت و تفسیر، اہل اللہ کی صحبت، اور اپنے اللہ کے سامنے کھڑے ہونے اس سے رجوع کرنے اس کے ساتھ التجا کرنے کے لیے صرف کروں گا، آج ہی سوشل میڈیا کے اپنے تمام اکاؤنٹ کو بند کرتا ہوں۔ ✍️ ابو صارم tinyurl.com/FikreeMazameen
Hammasini ko'rsatish...
👍 7
یوں تو یہ عبارت ٹی وی سے متعلق لکھی گئی ہے، چونکہ اس وقت ٹی وی کا فتنہ عام تھا انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔ اس مضمون میں آپ ٹی بی کی جگہ "انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا" کے تناظر میں بھی دیکھیں، امید ہے کہ بات سمجھ آ جائے، ورنہ فتویٰ تو ظاہر پر دیا جاتا ہے ایک مفتی کا کام جائز یا نا جائز، حرام یا حلال کے مطابق فتویٰ دینا ہے، اس عبارت کو وہ ہی لوگ سمجھ پائیں گے جن کی نظر میں یہ سچ مچ فتنہ ہے۔ مضمون ملاحظہ کریں اللہ کے باغی مسلمان ╮•┅═ـ❁🏕❁ـ═┅•╭ ٹی بی 📺 سے متعلق بھی بعض ”بظاہر سمجھ دار“ قسم کے لوگ بھی یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں: ”اس میں نقصان تو واقعۃً ہے لیکن اگر دیکھنے والا احتیاط سے کام لے، گانے نہ سنے عورتوں کی تصویریں نہ دیکھے، اور بھی کسی قسم کا فحش پروگرام نہ دیکھے اور زیادہ دیر بھی نہ دیکھے، اپنی صحت کا خیال رکھے تو ان شرطوں سے دیکھنے میں کوئی مضایقہ نہیں، بلکہ فائدے ہیں، بہت سی معلومات ملتی ہیں“ ان لوگوں سے متعلق بظاہر ”سمجھ دار‘‘ کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے بباطن یہ بے سمجھ اور کور عقل ہیں، اگر واقعۃً سمجھ دار اور عاقل ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آجاتے، اس کے لیے ایسے چور دروازے نہ کھولتے، ان کی اس لاحاصل تقریر کا خلاصہ یہ کہ ”ٹی بی‘‘ دیکھتے رہو مگر احتیاط سے، حالانکہ یہ سراسر غلط اور مہلک نظریہ ہے، خود مشاہدات اس کی تکذیب کر رہے ہیں، ہزاروں لاکھوں ’’ٹی وی پرستاروں“ میں بھی کوئی اس کی پابندی نہیں کرتا، بلکہ خود یہ لوگ بھی جو احتیاط کا درس دیتے ہیں ایسی احتیاط نہیں کرتے، اور کر بھی نہیں سکتے۔ آخر کریں گے بھی کیوں کر؟ مثلاً انہوں نے درس دے دے کر لوگوں کو قائل کر لیا کہ روزانہ ایک گھنٹہ سے زیادہ ٹی وی دیکھنا سخت نقصان دہ ہے لوگوں نے بھی ان سے اتفاق کرلیا اور احتیاط کا وعدہ کرلیا مگر اس کے بعد ہی ایک ٹی وی ڈرامہ شروع ہو گیا جو مسلسل تین گھنٹے چلتا ہے تو بتایئے: ”ان سے احتیاط کا وعدہ کرنے والوں میں کون سا احمق ہے جو درمیان سے ڈرامہ چھوڑ کر اٹھ جائے‘‘ یہ لوگ خود بھی اٹھنا گوارا نہ کریں گے، سو یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے: ”جس شخص کو بھی اس ٹی بی کی لت پڑگئی وہ جان لے کر ہی چھوڑے گی۔“ تجربہ بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ اس قسم کی حدود وقیود کی کوئی شخص بھی رعایت نہیں رکھتا، آپ نے کسی چیز کی اجازت دی مگر دس شرطوں کے ساتھ، تو عوام صرف اجازت کا لفظ یاد کر لیں گے بلکہ پلے باندھ لیں گے اور شرطیں سب کی سب اڑا دیں گے، کوئی ایک شخص بھی کسی ایک شرط کی بھی رعایت نہ کرے گا، اس لیے اگر اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنا ہے تو اس کی بغاوت سے باز آجائیے توبہ کر لیجیے اس قسم کی واہیات تقریر سے گمراہی ہی پھیلے گی نافرمانیوں میں کوئی کمی نہ آئے گی- ❁ایک مریدنی کا قصہ:❁ عوام کی حالت تو یہ ہے کہ ایک خاتون بیس سال سے مجھ سے بیعت تھیں، مگر جوں ہی کسی مولوی کی یہ بے ہودہ تقریر سنی شوہر کے سر ہوگئی کہ مجھے بھی ٹی وی خرید دو، اس نے بہت سمجھایا اس کے نقصان بتائے مگر نہیں مانیں، اسے یہ تقریر ایسی دل کو لگی کہ ٹی وی لے کر ہی چھوڑا۔ میں نے اس کی بیعت ختم کر دی۔ مگر پروا نہیں پیر ناراض ہو، شوہر روکے بلکہ اللہ بھی روٹھ جائے، سب کو چلتا کردو، شروع میں تو مولوی کی تقریر کا حوالہ کہ ان شرطوں سے ٹی وی دیکھنا جائز ہے مگر جب ٹی وی آگیا تو سب شرطیں رخصت! کوئی مولوی ایسی بات کرے تو اس پر قطعاً کان نہ دھریے، کوئی عالم باعمل مستند مولوی تو ایسی بات کبھی نہ کرے گا کسی مولوی نما بہروپیے سے بھی دھوکا نہ کھایئے، جو لوگ اس قسم کی باتیں کر کے عوام کا دین خراب کرتے ہیں وہ سوچ لیں کتنا بڑا وبال اپنے سر لے رہے ہیں، لوگوں کا جس قدر دین خراب ہوگا، نمازیں برباد ہوں گی، وقت ضائع ہوگا، تصویر، گانا بجانا اور ٹی وی کے دوسرے گناہوں میں ابتلاء ہوگا، جتنے لوگوں کی صحت کا دیوالہ نکلے گا، اندھے ہوں گے، دماغ کی رگیں پھٹیں گی، پھر ان مریضوں سے یہ متعدی مرض جہاں جہاں تک نسل در نسل منتقل ہوگا، یہ گناہوں کے سارے انبار اس شخص کے سر بھی ڈال دیئے جائیں گے، جو ٹی وی سے متعلق اس قسم کی تقریر کر کے لوگوں کو اس گناہ کی دعوت دے رہا ہے۔ آخر میں پھر سن لیجیے کہ عوام اس قسم کی شرطوں کو خاطر میں نہیں لاتے آپ کسی چیز کی مشروط اجازت دیں، تاکید کے ساتھ دس شرطیں بیان کر دیں، دس چھوڑ کر سو شرطیں لگادیں مگر کوئی شخص بھی ان شرطوں کی رعایت نہ کرے گا، بس اتنا یاد رکھیں گے کہ فلاں مولوی صاحب نے اس کام کی اجازت دے دی ہے، اس ’’ٹی بی‘‘ کی بیماری سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، اس معاملہ میں ذرہ بھر لچک یا نرمی روا نہ رکھیں۔ 📚خطبات الرشید ص۲۹۹ تا ۳۰۱📚 ✍فقیہ العصر مفتئ اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ بہ شکریہ ابو صارم t.me/SunehriTehriren
Hammasini ko'rsatish...
👍 2
اکثر اوقات آن لائن رہ کر ظالموں کے معاون نہ بنیں ✍ ابو صارم آپ کو یاد ہو گا کہ ۵ سال پہلے نیٹ کا ڈیٹا مہنگا ہوا کرتا تھا، میں ایک جی بی بچا بچا کر کئی دنوں تک استعمال کیا کرتا تھا، کیوں کہ نیٹ مہنگا تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کی چیزیں تو روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہیں لیکن نیٹ کو سستا کیا گیا، اتنا سستا کہ جیو نے آغاز میں ہی کئی مہینوں تک نیٹ فری رکھا۔ در اصل یہ لت لگوانے کا آغاز تھا، لوگوں کے لیے جب یہ نشہ بن گیا تب نیٹ کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، کیوں کہ اب لوگ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے۔ اب لوگ نیٹ میں اس لیے لگے رہتے ہیں کہ کہیں آج کے ڈیٹا کا کوٹہ دیڑھ جی بی دو جی بی یوں ہی بنا استعمال کیے ختم نہ ہو جائے اس لیے کوشش رہتی ہے کہ پورا دیڑھ یا دو جی بی ختم کر دیں۔ اور ہمارے اس طرح دن بھر آن لائن رہنے کا فائدہ ملتا ہے اشتہاری کمپنیوں کو، کیوں کہ اشتہار تب ہی زیادہ سے زیادہ دیکھی جائے گی جب زیادہ سے زیادہ لوگ، زیادہ سے زیادہ وقتوں تک آن لائن رہیں گے اور اس طرح ان کی دکان چلتی رہے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یوٹیوب چینل میں ویڈیو بنانے اور اپلوڈ کرنے پر یو ٹیوبرس کو کچھ رقم دیتی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ جتنے یوٹیوبرس ہیں اگر ویڈیو بنانے کے لیے یو ٹیوب کو اتنے اسٹاف رکھنے پڑتے تو کتنی خطیر رقم تنخواہ کے طور پر خرچ کرنی پڑتی۔ لیکن یہاں گوگل بریانی کا مزہ لے کر یو ٹیوبرس کو چٹنی چٹا دیتا ہے اور اسی چٹنی کو چاٹنے کی خاطر ہر جگہ "پلیز سبسکرائب بٹن دبائیں اور بیل آئیکن دبانا نہ بھولیں" کی آواز لگ رہی ہے۔ یہ سب باتیں غور اور تدبر کرنے سے ہی سمجھ میں آئیں گی۔ ہماری محنتوں سے یوٹیوب کما رہا ہے اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ یہود و مشرکین کی مدد کے لیے دیتا ہے۔ اور ہم لوگ اس کے اس کام میں بھرپور تعاون کر رہے ہیں، ویڈیو دیکھ کر اور ویڈیو اپلوڈ کر کے۔ لہٰذا اس بات کو سمجھتے ہوئے ایسا پیک ری چارج کریں جس میں ڈیٹا کم سے کم ملتا ہو، اس طرح ہم نیٹ پر بلا ضرورت آن لائن رہنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں کیوں کہ پھر یہ خدشہ رہے گا کہ ڈیٹا کم ہے اگر ختم ہو گیا تو ضروری اور اہم کام میں دقت ہو گی۔ اگر یکبارگی نیٹ کو چھوڑنا مشکل لگ رہا ہے تو اس کا استعمال کم سے کم کرنے کی عادت ڈالیں۔ مہنگا ڈیٹا کا پیک یا ایسا ریچارج جس میں روزانہ ڈیٹا کم سے کم ملتا ہو اس کا ہی ریچارج کرائیں، ان شاء اللہ امید ہے کہ یہ تدبیر بھی کار گر ہو گی۔ t.me/SunehriTehriren
Hammasini ko'rsatish...
6👍 3
*دینی کاموں کے لیے پاک ذرائع کا ہی استعمال کریں* ✍️ ابو صارم پتا نہیں میری یہ بات کس حد تک درست ہے، لیکن ان دنوں میرے ذہن میں جو بات آ رہی ہے وہ میں بتا دینا چاہتا ہوں۔ موبائل، سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے ذریعہ خیر کی طرف بلانا یا نیکی کا کام کرنا بالکل ایسا ہی سمجھ رہا ہوں جیسے گند لگے برتن میں بریانی یا شہد پیش کرنا، یوں تو بریانی یا شہد کو ہر انسان پسند کرتا ہے، لیکن اسے جب گندے برتن میں پیش کیا جائے تو ظاہر ہے گندی کا کچھ حصہ تو اچھائی کے ساتھ پیٹ میں داخل ہو گا۔ اللہ پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے۔ (مفہوم حدیث) اس کی گہرائی میں جائیں تو یہ معلوم ہو گا کہ خیر کے کاموں میں بھی ان ذرائع کا ہی صرف استعمال کیا جائے جو ظاہری اور باطنی طور پر پاک ہو۔ ذرا تصور کریں کہ ایک صدی پہلے جب لوگ ہاتھوں سے کتابوں کی کتابت کرتے تھے۔ ان کی طباعت بھی اکثر و بیشتر مسلمان پریس میں ہوا کرتی تھی، اس وقت کتابوں کی اشاعت اتنی نہیں ہوتی تھی اور نہ آج کے دور کی طرح اس کی پی ڈی ایف بنا کر ہر جگہ پہنچانا اور عام کرنا آسان تھا، لیکن اس دور میں لوگ ایمان میں پختہ تھے، ان کے ایمان بننے کا ذریعہ خانقاہیں اور علماء کی صحبت ہوا کرتی تھی، اس دور کے لوگ فتنوں سے محفوظ بھی تھے۔ سوچتا ہوں کہ اس وقت دین کی باتوں کو عام کرنا اتنا آسان نہیں تھا، لوگ دور دور کا سفر کر کے علماء کے بیانات سننے ان کی مجلسوں میں یا پھر لا الہٰ الاللہ کا ضرب لگانے خانقاہوں میں پہنچا کرتے تھے۔ تبھی ان زمانوں میں باطل سے لوہا لینے کے لیے کئی تحریکیں اٹھیں، اس دور میں آنے والی فتنوں سے لڑ گئے، لیکن آج جتنا ہی زیادہ بیانات و کتابت و طباعت عام ہوئی اتنا ہی زیادہ ایمان میں ہم اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں، آزادی کے بعد سے آج تک ہمارے درمیان کوئی ایسی تحریک نہیں اٹھی جس کے نام سے باطل کے ایوانوں میں لرزہ تاری ہو۔ عام طور پر ہم تو پہلے یہ سوچ کر موبائل فون خریدتے ہیں کہ اس کے ذریعہ دینی کتابوں کو پڑھنا آسان ہو جائے گا۔ اور دینی بیانات کو سننا اور لوگوں میں عام کرنا ممکن ہوگا۔ شیطان اسی راستے سے داخل ہوتا ہے، پھر اچھی باتوں اور اچھی جیزوں کے ساتھ ہی ساتھ ہم لغویات میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں، طرح طرح کے دیگر گروپس، چینلس، ایپس، ویب سائٹس، بلاگس، فورم وغیرہ میں ہمارا وقت لگنے لگتا ہے۔ ان میں اکثر وقت لغویات میں ہی صرف ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے اکابرین بغیر سوشل میڈیا کے لوگوں کے دلوں کو چند صحبتوں میں چمکا دیتے تھے آخر کیا وجہ ہے کہ آج وہ نتیجہ اتنے دینی کاموں کو سوشل میڈٰیا کے ذریعہ عام کر کے، کتابوں کی اشاعت و طباعت کر کے حاصل نہیں کر پا رہے ہیں؟ جن ذرائع کا استعمال کر کے ہمارے اکابرین لوگوں کی اصلاح کیا کرتے تھے کیا ان ذرائع کا استعمال کر کے آج لوگوں کی اصلاح کرنا ممکن نہیں؟ آج دینی مجلسوں کی ویڈٰیو گرافی کر کے عام کیا جا رہا ہے اور اسے ایسے پلیٹ فارم پر نشر کیا جا رہا ہے جہاں گندگیاں بھری ہوئی ہیں۔ گویا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ کسی قحبہ خانے میں دین کی مجلس کا اہتمام کیا جائے جہاں آس پاس طوائفیں کھڑی ہوں۔ جہاں ایمان جانے کا خطرہ ایمان بننے سے زیادہ ہے۔ کیا کوئی کبھی اس طرح دینی پروگرام کا اہتمام کر سکتا ہے؟ لیکن سوشل میڈٰیا کے ذریعہ یہی ہو رہا ہے۔ میری عقل میں تو یہی بات سمجھ میں آ رہی ہے۔ دوسرے دانش مند حضرات کی سوچ ممکن ہے کہ مجھ سے مختلف ہو۔ =========== پتہ نہیں میری یہ بات دیگر اچھے اور اصلاحی پوسٹ کی طرح سوشل میڈیا میں وائرل ہو کر صدائے بازگشت کی طرح ختم ہو جائے۔ یا پھر علماء کرام اور اہل اللہ کے لیے سوچ کا ایک ذریعہ بنے۔ ابھی وقت ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ موبائل فون کی عادتوں اور سوشل میڈیا سے دور رہنے کی ترغیب دیں اور یہ کام تب ہی ممکن ہے جب کہنے والا بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ ✍️ ابو صارم t.me/SunehriTehriren
Hammasini ko'rsatish...
👍 3
یوں تو میں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا میں محفوظ رہنے کے تعلق سے بہت کچھ بتاتا رہتا ہوں، لیکن ان میں سب سے بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اس کا استعمال صرف، کاروباری اور تعلیمی ضرورت کی حد تک کریں، اس طرح ہم اپنا جان، مال، وقت اور ایمان سب کو محفوظ کر سکتے ہیں، کوشش کر کے اور آزما کر تو دیکھ لیں۔ کیا آپ بھی میرے ساتھ یہ عزم کرتے ہیں؟ ✍️ ابو صارم t.me/SunehriTehriren
Hammasini ko'rsatish...
👍 2
Boshqa reja tanlang

Joriy rejangiz faqat 5 ta kanal uchun analitika imkoniyatini beradi. Ko'proq olish uchun, iltimos, boshqa reja tanlang.