cookie

Sizning foydalanuvchi tajribangizni yaxshilash uchun cookie-lardan foydalanamiz. Barchasini qabul qiling», bosing, cookie-lardan foydalanilishiga rozilik bildirishingiz talab qilinadi.

avatar

Mufti Abul Qasim Nomani

Vice-Chancellor (Mohtamim & Shaik-Ul-Hadees) Darul Uloom Deoband

Ko'proq ko'rsatish
Mamlakat belgilanmaganUrdu246Din & Maʼnaviyat67 502
Reklama postlari
1 078
Obunachilar
Ma'lumot yo'q24 soatlar
Ma'lumot yo'q7 kunlar
Ma'lumot yo'q30 kunlar

Ma'lumot yuklanmoqda...

Obunachilar o'sish tezligi

Ma'lumot yuklanmoqda...

*مسجد اقصی کی حفاظت اور ہماری ذمہ داری* از افادات: امیر ملت نمونۂ اسلاف حضرت اقدس *مفتی ابو القاسم نعمانی* دامت برکاتہم مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند جمع و ترتیب: عبدالرشید طلحہ نعمانی بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمداللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین سیدنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین. اما بعد۔ بزرگو اور بھائیو ! فلسطین، مسجد اقصی اور سر زمین قدس کے ساتھ مسلمانوں کا جو ایمانی وجذباتی تعلق ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو فراموش کردیا جائے۔ مسجد اقصی کے سلسلہ میں قرآن پاک میں اللہ تعالی نے مستقل آیتیں نازل فرمائی ہیں : اعوذباللہ من الشیطان الرجیم،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الذی بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْر(الاسراء:1) ترجمہ:پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے،تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔ اس آیت میں مسجد اقصی کا ذکرہے نیزمسجد اقصی کے ماحول اور اردگرد کی زمین کےمبارک ہونے کا تذکرہ ہے ۔ آیت کا اصل مقصد تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سفر اسراء اور سفر معراج کو بیان فرمانا ہے؛ لیکن اسی کے ضمن میں اگلی آیات کے اندر یہودیوں اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی داستانیں بھی بیان کی گئیں ہیں۔ فلسطین ایک تاریخی مطالعہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسجد اقصی کے ساتھ کئی اہم واقعات مربوط ہیں۔ یہ نبی کریم ﷺ کے سفر معراج کی پہلی منزل ہے،معراج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے آپ مسجد اقصی تشریف لے گئے پھر وہاں سے آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، واپسی میں بھی آپ مسجد اقصی تشریف لائے پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس ہوئے۔ مکہ سے مسجد اقصی تک کے سفر کو اسراء اور مسجد اقصی سے آسمانوں تک کے سفر کو معراج کہا جاتاہے ۔اسی سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا ،اسی سفر سے واپسی پر نبی کریمﷺ نے مسجد اقصی کے پاس تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی امامت فرمائی۔مسجد اقصی سے تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا، ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک رسول اللہﷺ نے مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی،پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد خانۂ کعبہ کی طرف آپ نے رخ فرمایا جس کا تذکرہ دوسرے پارے کی ابتدائی آیات میں موجود ہے:سَيَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُـمْ عَنْ قِبْلَتِهِـمُ الَّتِىْ كَانُـوْا عَلَيْـهَا ۚ قُلْ لِّلّـٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (البقرۃ:142) ترجمہ:بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے، کہہ دو مشرق اور مغرب اللہ ہی کا ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ اس میں” القبلۃ التی کانو علیہا "سے مراد مسجد اقصی ہے۔ مسجد اقصی اور سر زمین فلسطین متعدد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی قیام گاہ اور ان کا مدفن رہ چکی ہے، وہاں کی مسجد حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہما السلام کے ذریعہ تعمیر کی گئی ہے، پہلی تعمیرتو فرشتوں کے ذریعہ ہوئی،جب کہ دوسری تعمیر حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہما السلام کے ذریعہ ہوئی ہے اس لئے مسلمانوں کا جو تعلق سرزمین فلسطین سے،وہاں کے باشندوں سے اور مسجد اقصی سے ہے وہ انتہائی جذباتی قسم کا ،گہرا قلبی تعلق ہے آج یورپ کی سازش کی بناء پر عین قلب عرب کے اندر جو اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپا گیا ہے اس کی ٹیس اس وقت سےلےکر آج تک پورا عالم اسلام محسوس کررہاہے ۔چونکہ یہ ایک سازشی عمل تھا اس لیے مسلسل ہر مغربی ملک کی جانب سے اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے،اور نام نہاد ملک اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اپنے قدم آگے بڑھا رہاہے؛ بلکہ فلسطین کے جو اصل باشندے ہیں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑرہاہے۔ اہل فلسطین کی جرئت و عزیمت کو سلام ابھی رمضان المبارک کے اندر جو تازہ حادثات پیش آئے ہیں کہ عین نماز کے وقت مسجد اقصی کے مصلیوں پر ظلم ڈھایا گیا، انہیں مارا پیٹا گیا اور اس کے بعد ان کی طرف سے جو معمولی سی مزاحمت ہوئی اس کو بہانہ بنا کر غزہ کے علاقے میں بمباری کی گئی جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، بچے اور عورتیں تک ماری گئیں؛ لیکن شاباشی کے قابل ہیں وہ نہتے مجاہدین جنھوں نے اپنی بے سرو سامانی کے باوجود مزاحمت کی یہاں تک کہ اسرائیل جیسے نومولود،متکبر اور سرکش ملک کو گھٹنے ٹیکنا پڑا اور وہ جنگ بندی کے لیے مجبور ہوا۔
Hammasini ko'rsatish...
ہم کیا کریں؟ بہر حال اس وقت ہمارے کرنے کے کئی کام ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کریں؛ تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلہ میں ہم اکیلے نہیں ہے ؛بل کہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔ آج کی دنیا رائے عامہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی عادی ہے؛ اس لیے تمام دنیا کے مسلمان اور خاص طور سے بر صغیر اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان فلسطین اور اہل فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز کو بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں۔ وہ مغربی ممالک وہ UNO وہ سلامتی کونسل جو اپنے من مانے مقاصد کے لیے خود ساختہ مسائل کے لیے امن وآشتی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، وہاں کے لوگوں پر اپنے فیصلے مسلط کردیتے ہیں،ان کی نگاہوں کے سامنے فلسطینی مسلمانوں اور وہاں کے باشندوں پرظلم ہورہا ہے؛ لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ؛اس لیے ضروری ہے کہ فلسطین اور باشندگان فلسطین کے حق میں اس زور و شور کے ساتھ آواز بلند کی جائےکہ سلامتی کونسل فلسطین کے مسئلے میں حق و انصاف کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو، فلسطینیوں کو ان کا حق دلایا جائے، ان کی جو زمینیں چھین لی گئی ہیں، وہ انہیں واپس کی جائیں نیز اسرائیل اور اس کے آقاؤں کی طرف سے جو اقدامات ہورہے ہیں ان پر بندش قائم کی جائے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہم سب کے سب مل کر بارگاہ الہی میں دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی قدس کے باشندوں کی حفاظت فرمائے، انہیں ان کا چھینا ہوا وقار واپس دلائے، مسجد اقصی کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے۔آمین قابل توجہ پہلو اس موقع پر ایک بات خاص طور سے توجہ کے قابل ہے کہ بیت المقدس کے علاقے میں ایک تو قبۂ صخرہ ہے اور ایک مسجد اقصی ہے۔ عام طور سے مسجد اقصی کے نام پر جو تصویر دکھلائی جاتی ہے جس کا سنہرا گنبد ہے، وہ حقیقت میں مسجد اقصی نہیں ہے؛ بلکہ وہ قبۂ صخرہ ہے مسجد اقصی اس سے الگ عمارت ہے اور اسرائیل اور صیہونی خاص طور سے مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ مسجد اقصی کے ارد گرد کھدائی کرکے،اس عمارت کو کمزور کردیں تاکہ وہ عمارت منہدم ہو جاے یہ ایک سازش ہے کہ دنیا کے سامنے مسجد اقصی کا اصلی نقشہ پیش کرنے کے بجاے قبۂ صخرہ کو مسجد اقصی کے نام پر دکھلایاجاتاہے تاکہ خدانخواستہ خدانخواستہ اگر کسی وقت یہ اسرائیلی اور صیہونی اپنی ناپاک مقصد کے اندر کامیاب ہوجائیں اور مسجد اقصی کو نقصان پہونچا بیٹھیں تو اس وقت دنیا کے واویلا کرنے پر یہ قبۂ صخرہ کو سامنے لاکر دکھلا دیں کہ نہیں مسجد اقصی محفوظ ہے؛ اس لیے ان دونوں کے فرق کو جاننا چاہیے اور مسجد اقصی کی تاریخ سے لوگوں کو واقفیت کرانی چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے بھی واقف نہیں ہیں؛اس لئے یہ بھی ایک ضرورت ہے کہ عالم اسلام کی عمومی تاریخ سے اور خاص طور سے وہ مقامات وہ علاقے کہ جن سے اہم واقعات متعلق ہیں پوری ملت کو اور خاص طور سے آنے والی نئی نسلوں کو واقف کرایا جائے۔ ائے اللہ اپنے فضل و کرم سے اس پروگرام کو قبول فرما، فلسطین کے مسلمانوں کی حفاظت فرما، مسجد اقصی کی حفاظت فرما، ظالموں کو ان کے ظلم سے روک دے،انہیں کیفر کردار تک پہنچا ،مظلوموں کی حمایت فرما، پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے ضمیروں کو بیدار فرمااور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی انہیں توفیق عطا فرما ۔آمین وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ وآلہ وصحبہ اجمعین۔ آمین برحمتک یاارحم الراحمین۔
Hammasini ko'rsatish...
*منظم مکاتب کا قیام وقت کی اہم ضرورت* افادات: حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم العالیہ مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند بمقام: جے پور حج ہاؤس کی بتاریخ: 21 ستمبر 2023ء https://linktr.ee/muftiabulqasimnomani
Hammasini ko'rsatish...
منظم_مکاتب_کا_قیام_وقت_کی_اہم_ضرورت.mp317.32 MB
*ایمان کی فکر کیجیے* افادات: حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم العالیہ مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند آنلائن مجلس بعد نمازِ مغرب بمقام: دارالعلوم دیوبند بتاریخ: 14 ستمبر 2023ء https://linktr.ee/muftiabulqasimnomani
Hammasini ko'rsatish...
ایمان کی فکر کیجیے. .mp38.03 MB
*دارالعلوم دیوبند میں منعقد مناظرے کے مشقی پروگرام کے تعلق سے حضرت اقدس مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا اہم خطاب..* *جس میں انعقادِ مناظرہ کے پسِ منظر، طلبہ کے متعلق ادارے کے منصوبہ بند طرزِ عمل، مولانا مودودی کے متنازع افکار کی حیثیت اور موجودہ اربابِ جماعتِ اسلامی کے ساتھ علماءِ دیوبند کے دوستانہ تعلقات پر دو ٹوک اور عمدہ گفتگو ہے۔* https://linktr.ee/muftiabulqasimnomani ۔___________۔ الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء و المرسلین، سیدنا و نبینا و مولانا محمد و علی آله وأصحابه اجمعین. أما بعد... محترم حضراتِ اساتذہ کرام و عزیز طلبہ! انجمن تقویت الاسلام (شعبہ مناظرہ) طلبہ دارالعلوم دیوبند کا آج کا یہ پروگرام اپنے معمول کے اجلاس کا ایک حصہ ہے۔ ابتداء سال ، درمیان سال ، اور اختتام سال پر اس کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں جس طرح اور انجمنوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ خاص طور سے بڑی انجمنوں کے النادی الأدبی ہے ، مدنی دارالمطالعہ ہے ، سجاد لائبریری وغیرہ۔ اس اعتبار سے آج کا یہ اجلاس کسی الگ نوعیت کا نہیں ہے ؛ لیکن اتفاق سے اشتہار کو کسی نے سوشل میڈیا کے اوپر وائرل کردیا جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو اس کے سلسلے میں تشویش پیدا ہوئی ، اور کئی جگہ سے مطالبے آئے کہ آج کل کے ماحول میں مناظرہ نہیں ہونا چاہیے! اگر یہاں میڈیا کے کچھ افراد موجود ہوں یا خبروں سے دلچسپی رکھنے والے تو ان کے سامنے میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی مناظرہ نہیں ہے اس مجمع کے اندر دونوں طرف دارالعلوم دیوبند کے طلبہ ہیں جو مسلک علمائے دیوبند کے حامل ہیں۔ دونوں ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ان کے مشق و تمرین کا ایک حصہ ہے ، جس طرح انجمن میں تقریر کی مشق کرتے ہیں ، دیواری پرچوں میں اردو عربی اور دیگر زبانوں میں مضامین لکھ کر مضمون نویسی کی مشق کرتے ہیں ، اسی طرح مسائل کی تنقیح و تحقیق کے سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کرنے اور اس کو مدلل کرنے کے سلسلے میں مشق و تمرین کیلئے انجمن تقویت الاسلام کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس میں جہاں اسلام سے خارج فرقوں مثلا : قادیانیوں اور عیسائیوں وغیرہ کے سلسلے میں مناظرے ہوتے ہیں ، وہیں مسلمانوں کے اندر جو فکری انحراف رکھنے والی جماعتیں ہیں اور ان سے ہمارے اکابر کے اختلافات ہیں ان سے گفتگو کے آداب اور اس کا سلیقہ سکھانے کے لیے بھی مناظرے کی مشق کی جاتی ہے۔ جہاں تک تعلق ہے مودودی جماعت کا تو ایک تو ہے ملکی مسائل میں ہر ایک کے ساتھ ہمارا تعاون و اشتراک ۔۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جمعیت علمائے ہند ہمارے اکابر کی جماعت ہے۔ اس کا اپنا ایک منشور ہے اور ایک انداز فکر ہے ، انداز عمل ہے۔ لیکن مسلمانوں کے مشترکہ مسائل جب زیر بحث آتے ہیں تو تمام مسلم جماعتوں سے ، مسالک والوں سے اشتراک ہوتا ہے ، چاہے وہ جماعت اسلامی ہو ، چاہے جمیعت اہل حدیث ہو ، چاہے کچھوچھا سے تعلق رکھنے والے حضرات ہوں ، اور اگر بریلوی مسلک کے بھی معتدل مزاج کچھ لوگ ان میں شرکت کرنا چاہیں تو ان کو بھی شریک کیا جاتا ہے۔ وہ ملکی مسائل ہیں۔ مسلمانوں کے ملی مسائل ہیں ، ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا ، سب شانہ بشانہ کام کرتے ہیں ؛ لیکن جہاں تک مسلک اور نظریے کی بات ہے تو ہر ایک اپنے مسلک کے سلسلے میں پختہ ہے اور آزاد ہے۔ مودودی صاحب سے ہمارا فکری اختلاف ہے۔ وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں ، اور ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے اکابر نے ان سے علیحدگی کیوں رکھی ہے؟ دوری کیوں بنائے رکھی ہے؟ ہمارے اور ان کے خیال میں کیا فرق ہے؟ حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ، شیخ الہند رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ، مجاہد ازادی ، ان کو کیا پڑی تھی کہ وہ مودودی صاحب کے دستور اور اصول کو سامنے رکھ کر انہوں نے ان کے بارے میں سوالات قائم کیے اور گفتگو قائم کی؟! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مودودی صاحب کی سب سے پہلے گرفت کرنے والے مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں۔ جب جماعت اسلامی کا دستور شائع ہوا ، اس کے دفعہ 6 کے اندر یہ دفعہ موجود تھی کہ "کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو ، ہر ایک کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دیئے ہوئے معیار پر پرکھے"۔ حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو بھی ہم اسی طرح پرکھیں گے؟ ان کے بارے میں بھی جانچ پڑتال کریں گے؟ ان کی بھی تنقیح کریں گے؟ یا وہ ہماری تنقید سے بالاتر ہیں ؟ تو اس کا یہ جواب ملا کہ نہیں وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہیں۔ ان کے اوپر بھی اسی طرح تنقید کی جائے گی۔ چنانچہ آگے کا پورا عمل اسی کے مطابق رہا کسی کو چھوڑا نہیں گیا۔
Hammasini ko'rsatish...
یہ بنیادی اختلاف شروع ہوا ہے یہاں سے۔ اور پھر تفصیلات کے اندر جائیں تو دین کی پوری تعبیر کو مودودی صاحب نے اپنے انداز سے بدل ڈالا۔ رب کا کیا معنی ہے؟ الہ کا کیا معنی ہے؟ دین کا کیا معنی ہے؟ عبادات کے اثرات و مقاصد کیا ہیں؟ نماز کس لیے پڑھی جاتی ہے؟ روزہ کس لیے رکھا جاتا ہے؟ زكاة اور حج کس لیے کیا جاتا ہے؟ ایک تو مفہوم اور اغراض و مقاصد ۔۔ وہ تو جو امت کے اندر متوارث چلے آرہے تھے ایک وہ ہے جو مودودی صاحب نے بیان کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جیسا یکسو عالم کہ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں تھا ، ہر ایک کے ساتھ وہ جڑ کر رہتے تھے اور ایک متفق علیہ شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے ؛ لیکن ان کو بھی ان اصطلاحات کے سلسلے میں مودودی صاحب کے خلاف قلم اٹھانا پڑا۔ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمت اللہ علیہ خانقاہ نشین ، محدث جلیل ، خالص درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے ، یعنی اس زمانے میں جب ہندوستان کے اندر لیگ اور کانگرس کا شدید اختلاف چل رہا تھا۔ ایک طرف حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمت اللہ علیہ ، اور ان کے تلامذہ اور ان کے متوسلین جو دیانتا یہ سمجھتے تھے کہ لیگ کے ساتھ وابستگی مسلمانوں کے حق میں مفید ہے۔ ایک طرف حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے دیگر تلامذہ ، جو یہ سمجھتے تھے کہ غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ اشتراک کر کے ہمیں آزادی کی لڑائی لڑنی چاہیے وہ دیانتا مسلمانوں کے حق میں اس کو بہتر سمجھتے تھے۔ دونوں اپنے اپنے نظریے کے اوپر جمے ہوئے تھے ، اور بہت شدید اختلاف پیدا ہوگیا تھا ، اس زمانے میں بھی مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو طرزِ عمل تھا ، دونوں کے ساتھ یکساں تعلقات تھے ، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں یا ان کے ساتھ۔ کسی کے سلسلے میں انہوں نے کبھی کوئی چیز نہیں لکھی ؛ لیکن مودودی صاحب کے سلسلے میں ان کو قلم اٹھانا پڑا۔ مولانا محمد یوسف بنوری رحمت اللہ علیہ علامہ کشمیری رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ، خالص درسگاہی آدمی ، ان کو ان کے خلاف قلم اٹھانا پڑا۔ اور جب مودودی صاحب کی تحریک شروع ہوئی ہے ، اور ان کے قلم کا جادو اتنا سر چڑھ کر بولا کہ بڑے بڑے چوٹی کے علما ان کے ہمنوا ہو گئے ، جن میں مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی ہیں ، مولانا منظور نعمانی ہیں ، مولانا عبدالرحیم اشرف ہیں۔ اور اسی طریقے سے بڑے بڑے علماء تھے ؛ لیکن جب قریب گئے ہیں ، اور جماعت کے نظریات کو اور مودودی صاحب کے نظریات کو اور ان کے عمل کو دیکھا ، تو ایک ایک کرکے چھٹتے ہوئے سب کے سب الگ ہو گئے۔ مولانا منظور نعمانی رحمت اللہ تعالٰی علیہ اتنے اخلاص کے ساتھ انکے ساتھ گئے تھے کہ جب انہوں نے اپنا مستقر بریلی چھوڑا ہے ، اور وہ سیالکوٹ سفر کرکے گئے ہیں مودودی صاحب کی حمایت میں ، اس کا نام ہجرت رکھا تھا کہ میں گویا ہجرت کر کے آیا ہوں ، تن من دھن سے ان کے ساتھ ہو گئے تھے ؛ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد ان کو لکھنا پڑا "مولانا مودودی صاحب کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف"۔ یہ پوری کتاب انہوں نے لکھی ہے۔ یہ چیزیں ہمارے طلبہ کے سامنے آنی چاہیے ، ان کے علم میں رہنی چاہیے ، اور اس وجہ سے خاص طور سے رہنی چاہیے کہ خاموشی اختیار کرنے کا اثر یہ ہوا ہے کہ آج دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں مودودیت سے متاثر ہمارے طلبہ کی بڑی تعداد پیدا ہوگئی ہے ، اور تنبیہ اور ہدایت کے باوجود وہ اپنی سرگرمیوں کے اندر ملوث ہیں ، اور ان کے اندر سرگرم ہیں ، یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اس لیے حقیقت ہر ایک کے سامنے واضح ہونی چاہیے۔ آج کے اس مناظرے کا مقصد طلبہ کے درمیان مودودی صاحب کے فکر کا تعارف کرانا ہے اور جب یہ میدان عمل میں جائیں تو اپنے اکابر کے معتدل مسلک کے حامل بن کر جائیں۔ ہمارا اختلاف بہت سی چیزوں میں جماعت اہل حدیث کے ساتھ بھی ہے۔ بریلوی حضرات* کے ساتھ بھی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی ہے۔ یہ اختلاف صرف ہمیں ہی نہیں ہے ، ان کو بھی ہم سے اختلاف ہے ، مودودی صاحب کو بھی ہم سے اختلاف ہے ، جماعت اسلامی اور جمعیت اہل حدیث کو بھی ہم سے اختلاف ہے ، بریلویوں کو بھی ہم سے اختلاف ہے۔ اٍدھر سے بھی اختلاف ہے ، اُدھر سے بھی اختلاف ہے۔ لیکن وہ نظریات کا ہے ، مسلک کا ہے ، دین کے احکام کا ہے۔ اور جہاں تک ہندوستان کے اندر مسلمان کی حیثیت سے جینے اور زندگی گزارنے کا معاملہ ہے ، مسلمانوں کے حقوق کا مسئلہ ہے ، ان کے ملی مسائل کا مسئلہ ہے ، ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔
Hammasini ko'rsatish...
اور یہ مناظرہ کسی اسٹیج پر نہیں ہورہا ہے ، کسی میدان میں نہیں ہورہا ہے ، کوئی چیلنج نہیں کیا جارہا ہے ، یہاں دونوں طرف دارالعلوم دیوبند کے طلبہ ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ حقیقت سے واقف ہو جائیں۔ اس لیے جن طلبہ کے ذہن میں یہ بات ہے کہ اس کو موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اس سے واقف نہیں رہیں گے ، تو یا تو آپ ان کی فکروں کے شکار ہو جائیں گے یا اگر کبھی آپ کو گفتگو کی ضرورت پڑی ، تو آپ کو لاجواب ہوکر خاموش بیٹھنا پڑے گا۔ اس لیے جیسے اور دیگر موضوعات کے اوپر تیاری کرکے آپ کے ساتھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایک فریق اٍدھر کا بن جاتا ہے ، دوسرا فریق اُدھر کا بن جاتا ہے ، جب کہ دونوں ایک ہی فکر کے حامل ہیں۔ اسی طریقے سے یہاں بھی دو جماعتِ بناکر افکار کا تقابل کیا جائے گا ؛ تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ مودودی صاحب کے اور جماعت اسلامی کے نظریات کیا ہیں ؟ اور ہمارے اکابر کے نظریات کیا ہیں؟ کیوں حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ ، حضرت مولانا یوسف بنوری رحمت اللہ علیہ ، حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور مولانا نجم الدین اصلاحی رحمت اللہ علیہ ، ان جیسے اکابر نے آخر کیوں مودودی صاحب کے نظریات کی تردید کو ضروری سمجھا ؟!. اس لیے آج اس مناظرے کو آپ غور سے سنیں ، اس کے مضامن کو ذہن میں رکھیں! ہاں! مجادلہ ، مخاصمہ نہیں ہونی چاہیے ، دلائل کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے ؛ تاکہ آپ کے ذہن کے اندر دونوں طرف کے دلائل آجائیں۔ پھر آپ یہاں سے فارغ ہوکر جائیں گے ، اپنی درسگاہوں میں جاکر اپنے عمل میں مشغول ہو جائیں گے ، کوئی آپس کے اندر کا مباحثہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک مشق ہے جیسے تقریر کی مشق ہوتی ہے۔ تحریر کی مشق ہوتی ہے۔ اسی طریقے سے گفتگو کرنے کی بھی مشق ہے۔ اور آپ جانتے ہیں اگر آپ نے الفوز الکبیر پڑھی ہے ۔۔ قرانی علوم کو جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ نے پانچ قسموں پر منقسم کیا ہے۔ اس میں ایک علم مجادلہ بھی ہے کہ دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنے کا انداز بھی قران نے ہمیں سکھایا ہے : وجادلهم بالتي هي أحسن۔ اسی مجادلہ بالتی هي احسن کو سکھانے کے لیے انجمن تقویة الاسلام (شعبہ مناظرہ) کے ذریعے اس طرح کے پروگرام ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد نہ حقیقی مناظرہ ہے ، نہ کسی کو یہاں چیلنج کیا گیا ہے ؛ بلکہ طلبہ ہی کے دو جماعتوں کے درمیان مباحثے کی شکل پیدا کی جا رہی ہے ؛ تاکہ دونوں طرف کے دلائل ہمارے سامنے آجائیں ، اور ہم اپنے اکابر کے معتدل مسلک کے اوپر گامزن رہتے ہوئے آگے قدم بڑھائیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے! وٱخر دعوانا أن الحمدللہ رب العالمین!
Hammasini ko'rsatish...
دارالعلوم دیوبند میں منعقد مناظرے کے مشقی پروگرام کے تعلق سے حضرت اقدس مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا اہم خطاب.. جس میں انعقادِ مناظرہ کے پسِ منظر، طلبہ کے متعلق ادارے کے منصوبہ بند طرزِ عمل، مولانا مودودی کے متنازع افکار کی حیثیت اور موجودہ اربابِ جماعتِ اسلامی کے ساتھ علماءِ دیوبند کے دوستانہ تعلقات پر دو ٹوک اور عمدہ گفتگو ہے۔ بمقام: دارالعلوم دیوبند بتاریخ: 7 ستمبر 2023ء https://linktr.ee/muftiabulqasimnomani
Hammasini ko'rsatish...
Boshqa reja tanlang

Joriy rejangiz faqat 5 ta kanal uchun analitika imkoniyatini beradi. Ko'proq olish uchun, iltimos, boshqa reja tanlang.