cookie

Ми використовуємо файли cookie для покращення вашого досвіду перегляду. Натиснувши «Прийняти все», ви погоджуєтеся на використання файлів cookie.

avatar

•◐◈دارالعلوم ہند🌴Darul Uloom Hind◈◐•

مقصد اس چینل میں جامعہ اسلامیہ دارالعلوم ہند آسام کے بارے میں جان کریاں دیا جاتا ہے

Більше
Країна не вказанаУрду408Релігія і духовність83 951
Рекламні дописи
296
Підписники
Немає даних24 години
Немає даних7 днів
-230 днів

Триває завантаження даних...

Приріст підписників

Триває завантаження даних...

مبارک نسبی اور خاندانی تعارف.pdf8.38 KB
حضور پاکﷺکی تشریف آوری.pdf2.90 KB
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----01 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— بسم اللہ الرحمٰن الرحیم *ابتدائیہ* نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ أَمَّا بَعْدُ! شریعت کے پانچ اجزاء ہیں: اعتقادات، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت ان میں سب سے اہم اور بنیادی جزء ”اعتقادات“ ہیں۔ انہی پر باقی اجزاء کاقبول ہونا موقوف ہے۔ اگر اعتقادات صحیح ہوں تو باقی اعمال اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں، اگر یہی فاسد ہو جائیں تو باقی اعمال کی قبولیت ناممکن ہے۔ اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد پر کئی کتب موجود ہیں البتہ امام ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ الطحاوی کی تالیف ”العقیدۃ الطحاویۃ“ اپنے اختصار اور جامعیت کے پیش نظر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب و عجم کے جامعات اور مدارس میں عقائد کے باب میں داخل نصاب ہے اور اھل السنۃ والجماعۃ کے تمام مذاہب کے نزدیک یہ متفقہ اور مسلمہ دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ عقائد کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے مختلف متون پر کام کا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے جس کا آغاز شرح عقیدہ طحاویہ سے کر رہے ہیں۔ اس شرح پر ہم نے درج ذیل جہات سے کام کیا ہے: 1: شروع میں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کو ذکر کیاہے۔ 2: کتاب میں ذکر کردہ عقائد پر نمبر لگائے ہیں ۔ 3: ان عقائد کا سلیس اردو ترجمہ کیا ہے۔ 4: ہر عقیدہ کی مختصر سی تشریح کی ہے۔ 5: اکثر مقامات پر دلائل بھی ذکر کیے ہیں۔ 6: بعض مقامات پر اہم اشکالات کا جواب بھی دیا ہے ۔ 7: بعض تعارضات کو بھی حل کیا ہے۔ ان شاء اللہ اس سلسلہ کو آگے بڑھایا جائے گا اور عقائد کی مختلف کتب کو سلیس کر کے عام فہم تشریحات کے ساتھ پیش کیا جائے گا تاکہ عقائد کے حوالے سے عوام وخواص کے پاس ایک وسیع ذخیرہ موجود ہو۔ بندہ نے ملک و بیرون ملک مختلف مقامات پر عقیدہ طحاویہ کا درس دیاہے۔ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا میں منعقد ہونے والے 2018ء کے دورہ تحقیق المسائل میں بھی اسے سبقاً سبقاً تفصیل کے ساتھ پڑھایا ہے جس کی ویڈیوز Ahnaf Media Services کے یو ٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز پر اپ لوڈ کر دی گئی ہیں۔زیرِ نظر شرح عقیدہ طحاویہ کو ان ویڈیو اسباق کے ساتھ ملاحظہ کیا جائے تو انتہائی مفید ہو گا۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اگر کوئی غلطی دیکھیں تو مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جا سکے۔ محتاج دعا محمدالیاس گھمن مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
Показати все...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----03 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات(حصہ دوم)* *فقہی مسلک:* امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے چونکہ سب سے پہلے اور زیادہ استفادہ اپنے ماموں امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اس لیے طبعی طور پر فقہ شافعی کی طرف مائل تھے لیکن بعد میں آپ نے شافعی مسلک چھوڑ دیا اور فقہ حنفی سے منسلک ہو گئے۔ اس تبدیلی کی کیا وجہ بنی؟ اس بارے میں علامہ زاہد الکوثری نے دو روایتیں پیش کی ہیں: *(1):ابو سلیمان بن زبر خود امام طحاوی کا قول نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں:* قَالَ لِيْ أَبُوْ جَعْفَرِ نِ الطَّحَاوِيُّ: أَوَّلُ مَنْ كَتَبْتُ عَنْهُ الْحَدِيْثَ الْمُزَنِيُّ وَ أَخَذْتُ بِقَوْلِ الشَّافِعِيِّ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ سِنِيْنَ قَدِمَ أَحْمَدُ بْنُ أَبِيْ عِمْرَانَ قَاضِيًا عَلٰى مِصْرَ فَصَحِبْتُهٗ وَ أَخَذْتُ بِقَوْلِهٖ وَ كَانَ يَتَفَقَّهُ لِلْكُوْفِيِّيْنَ. (الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص15، 16) *ترجمہ:* مجھے امام طحاوی نے فرمایا کہ میں نے سب سے پہلے حدیث اپنے ماموں امام مزنی سے حاصل کی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر تھا۔ چند سال بعد جب احمد بن ابی عمران مصر میں قاضی بن تشریف لائے تو میں ان کی مجلس میں جانے لگا۔ چونکہ وہ فقہ حنفی کے فقیہ تھے اس لیے (ان کی صحبت اور دلائل کی قوت کی بناء پر) میں نے بھی فقہ حنفی کو اپنا لیا۔ *(2):محمد بن احمد شروطی کہتے ہیں کہ میں نے امام طحاوی سے پوچھا:* لِمَ خَالَفْتَ مَذْهَبَ خَالِكَ؟ وَاخْتَرْتَ مَذْهَبَ أَبِيْ حَنِيْفَةَ فَقَالَ: لِأَنِّيْ كُنْتُ أَرَىٰ خَالِيْ يُدِيْمُ النَّظْرَ فِيْ كُتُبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ فَلِذٰلِكَ انْتَقَلْتُ إِلَيْهِ․ (الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص16) *ترجمہ:* آپ نے اپنے ماموں کا مذہب چھوڑ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب کیوں اپنایا؟ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میں اپنے ماموں امام مزنی کو دیکھتا تھا کہ وہ ہر وقت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے (تو میں نے بھی ان کتب کا مطالعہ کیا) اس لیے حنفیہ کی طرف مائل ہوا۔ *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر علماء:* امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اس دور کے عالم ہیں جس میں مشہور ومعروف اساطین علم کثرت سے موجود تھے۔ چند ایک حضرات کی تاریخ ولادت اور وفات ملاحظہ فرمائیں۔ نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کی وفات کے وقت امام طحاوی رحمہ اللہ کی عمر کتنی تھی؟! *اسماء ائمہ مع سن ولادت و وفات* ▪️محمد بن اسماعیل البخاری (و194ھ، ت 256ھ)==عمر امام طحاوی 17 سال ▪️مسلم بن حجاج القشیری (و 204ھ،ت 261ھ)==عمر امام طحاوی 22 سال ▪️ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجۃ (و 209ھ، ت 273ھ)==عمر امام طحاوی 34 سال ▪️ابو داؤد سلیمان بن الاشعث (و 202ھ، ت 275ھ)==عمر امام طحاوی 36 سال ▪️ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی (و 209ھ،ت 279ھ)==عمر امام طحاوی 40 سال ▪️ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب النسائی (و215ھ، ت303ھ)==عمر امام طحاوی60سال امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ؛ امام مسلم، امام ابو داؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ وغیرہ کے ساتھ بعض اساتذہ میں بھی شریک ہیں۔ چنانچہ آپ کے شیخ امام ہارون بن سعید الایلی سے امام مسلم، امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت لی ہے۔ اسی طرح آپ کے شیخ امام ربیع بن سلیمان الجیزی سے امام ابو داؤد اور امام نسائی نے روایت لی ہے۔ (الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص5، 6)
Показати все...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----04 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات(حصہ سوم)* *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام:* علامہ محمد امین بن عمر ابن عابدین شامی حنفی (ت1252ھ)نے لکھا ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد فی المسائل تھے جیسے امام ابو بکر احمد بن عمرو بن مہران خصاف (ت261ھ)، ابو الحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی (ت340ھ)، شمس الائمہ عبد العزیز بن احمد بن نصر بن صالح البخاری الحلوانی(ت456ھ)، فخر الاسلام علی بن محمد بن الحسین بن عبد الکریم البزدوی (ت482ھ)، شمس الائمہ امام محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی (ت483 ھ)، امام فخر الدین حسن بن منصور الاوزجندی المعروف قاضی خان (ت592ھ) ہیں، یعنی یہ حضرات اصول وفروع میں اپنے امام کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے اصول وقواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام کا استنباط کرتے ہیں جن کے بارے میں صاحبِ مذہب سے روایت نہ ہو۔ (رد المحتار لابن عابدین: ج 1 ص 181 مطلب فی طبقات الفقہاء) *آپ کے بارے میں اہلِ علم کی آراء:* *1:علامہ ابو سعید عبد الرحمٰن بن احمد بن يونس المصری (ت 347ھ) فرماتے ہیں:* وَكَانَ ثِقَةً ثَبْتًا فَقِيْهًا عَاقِلًا لَمْ يُخَلِّفْ مِثْلَهٗ․ (تاریخ ابن یونس المصری: ص22) *ترجمہ:* آپ ثقہ،قابل اعتماد اور صاحب عقل و دانش فقیہ تھے۔آپ کے بعد آپ کی مثل کوئی نہیں ہوا۔ *2:علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق النديم (ت438ھ)لکھتے ہیں:* وَكَانَ أَوْحَدَ زَمَانِهٖ عِلْمًا وَزُهْدًا. (الفہرست لابن ندیم: ص 260) *ترجمہ:* آپ اپنے زمانے میں علم اور عبادت میں یکتا تھے۔ *3:امام ابو عمر یوسف بن عبد الله ابن عبد البر القرطبی المالكی(ت463ھ) فرماتے ہیں:* كَانَ الطَّحَاوِيُّ كُوْفِيَّ الْمَذْهَبِ وَكَانَ عَالِمًا بِجَمِيْعِ مَذَاهِبِ الْفُقَهَاءِ (الجواہر المضیۃ لعبد القادر القرشی: ص72) *ترجمہ:* امام طحاوی مذہب کوفہ (فقہ حنفی) پر عمل پیرا تھےاور تمام فقہاءکے مذاہب کوجاننے والے ہیں۔ *4:علامہ شمس الدین ابو عبد لله محمد بن احمد بن عثمان ذہبی (ت748ھ) فرماتے ہیں:* اَلْحَافِظُ الْكَبِيْرُ مُحَدِّثُ الدِّيَارِ الْمِصْرِيَّةِ وَفَقِيْهُهَا... مَنْ نَظَرَ فِيْ تَوَالِيْفِ هٰذَا الْإِمَامِ عَلِمَ مَحِلَّهٗ مِنَ الْعِلْمِ وَسَعَةَ مَعَارِفِهٖ. (سیر اعلام النبلاء للذھبی: ج15 ص27) *ترجمہ:* آپ بڑے حافظ اور مصر کے شہروں کے محدث اور فقیہ تھے ۔جو شخص آپ کی کتابوں کو پڑھے دیکھے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ آپ کا علمی مقام بہت بلند اور معلومات کی وسعت بہت زیادہ تھی۔ *5:حافظ ابو الفداء اسماعیل بن خطیب ابن کثیر دمشقی شافعی (ت774ھ)فرماتے ہیں:* اَلْفَقِيْهُ الْحَنَفِيُّ صَاحِبُ الْمُصَنَّفَاتِ الْمُفِيْدَةِ وَالْفَوَائِدِ الْغَزِيْرَةِ وَهُوَ أَحَدُ الثِّقَاتِ الْأَثْبَاتِ وَالْحُفَاظِ الْجَهَابِذَةِ. (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ج11 ص186) *ترجمہ:* آپ حنفی فقیہ تھے، کئی ایک مفید اور نافع کتب تصنیف فرمائیں۔ ثقہ اور قابل اعتماد آدمی تھے اور ماہر ین حفاظ میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔
Показати все...
خمیر مبارک.pdf5.19 KB
دوم: عرش، آسمان، زمین اور سارے جواہر (قائم بالذات اشیاء) کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ توحید کے یہ دو مرتبے کتب الہیہ میں بیان نہیں ہوئے کیونکہ ان دونوں مرتبوں میں مشرکین عرب نے مخالفت کی ہے نہ یہود نے اور نہ نصاریٰ نے بلکہ قرآن مجید نے تو اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ دو مرتبے ان لوگوں کے ہاں مسلّم تھے۔ سوم: آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کا نظام چلانے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ چہارم: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ *(5):شیخ عبد الغنی بن طالب الغنیمی المِیدانی الحنفی (ت1298ھ)* لکھتے ہیں: وَالْوَحْدَانِیَّۃُ صِفَۃٌ سَلْبِیَّۃٌ تُقَالُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَنْوَاعٍ: اَلْأَوَّلُ: الْوَحْدَۃُ فِی الذَّاتِ وَالْمُرَادُ بِھَا انْتِفَاءُ الْکَثْرَۃِ عَنْ ذَاتِہٖ تَعَالٰی بِمَعْنٰی عَدْمِ قُبُوْلِھَا الِانْقِسَامِ․ وَالثَّانِی: الْوَحْدَۃُ فِی الصِّفَاتِ ، وَالْمُرَادُ بِھَا انْتِفَاءُ النَّظِیْرِ لَہٗ تَعَالیٰ فِیْ کُلِّ صِفَۃٍ مِنْ صِفَاتِہٖ فَیَمْتَنِعُ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ تَعَالٰی عُلُوْمٌ وَقُدْرَاتٌ مُتَکَثِّرَۃٌ بِحَسْبِ الْمَعْلُوْمَاتِ وَالْمَقْدُوْرَاتِ بَلْ عِلْمُہٗ تَعَالٰی وَاحِدٌ وَمَعْلُوْمَاتُہٗ کَثِیْرَۃٌ وَقُدْرَتُہٗ وَاحِدَۃٌ وَمَقْدُوْرَاتُہٗ کَثِیْرَۃٌ وَعَلٰی ھٰذَا جَمِیْعُ صِفَاتِہٖ․ وَالثَّالِثُ: الْوَحْدَۃُ فِی الْأَفْعَالِ ، وَالْمُرَادُ بِھَا انْفِرَادُہٗ تَعَالٰی بِاخْتِرَاعِ جَمِیْعِ الْکَائِنَاتِ عُمُوْمًا وَامْتِنَاعِ إِسْنَادِ التَّاثِیْرِ لِغَیْرِہٖ تَعَالٰی فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْمُمْکِنَاتِ أَصْلًا․ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: 47) *ترجمہ:* ”وحدت“ سلبی صفت ہے اور اس کا اطلاق تین قسموں پر ہوتا ہے: پہلی: وحدت فی الذات، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے، اس کی ذات تقسیم نہیں ہو سکتی (یعنی ایسا نہیں کہ دو یا زائد چیزیں مل کر ذات باری تعالیٰ بنے) دوسری: وحدت فی الصفات، یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی مثال نہیں ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی صفت علم اور صفت قدرت کئی ہوں ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی ایک صفت ہے اور معلومات کئی ہیں، قدرت ایک صفت ہے اور مقدورات کئی ہیں، اسی طرح باقی صفات کا حال ہے۔ تیسری: وحدت فی الافعال، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات تنِ تنہا پیدا فرمائی ہے اور کسی بھی ممکن شے میں حقیقی تاثیر کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا جائز نہیں ہے۔ *(6):رئیس المناظرین حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی (ت1421ھ)* فرماتے ہیں کہ صوفیاء کے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں: ۱:توحید ایمانی: لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ(اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں) اس کو مانے بغیر کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ ۲: توحید خواص: لَا مَقْصُوْدَ إِلَّا اللہُ (اللہ کے سوا کوئی چیز مقصود نہیں) کیونکہ ریاء کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے۔”توحید خواص“ کو ”توحید اخلاص“ بھی کہتے ہیں۔ ۳: توحید شہودی: لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ (اللہ کے سوا کوئی چیز موجود نہیں) جب کسی ولی کامل کو تجلیات باری کا مشاہدہ ہوتا ہے تو ان کو کوئی چیز نظر نہیں آتی، اس لیے وہ لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ پکارتے ہیں۔ توحید ایمانی (لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ) کا منکر کافر ہو گا۔ توحید خواص (لَا مَقْصُوْدَ إِلَّا اللہُ) کا منکر کافر نہیں کہلائے گا، ہاں غیر مخلص ہو گا۔ توحید شہودی(لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ ) کا منکر نہ کافر ہو گا اور نہ اخلاص سے خالی، صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص مقام مشاہدہ سے محروم ہے۔ (تریاق اکبر بزبان صفدر, ص420) توحید کی تقسیم کے متعلق اکابر ائمہ کی مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اکابرین نے توحید کی تین اور بعض نے چار قسمیں بیان کی ہیں۔نیز جنہوں نے تین قسمیں بیان کی ہیں ان کی ذکر کردہ اقسام بھی باہم مختلف ہیں۔ دراصل توحید کی تقسیم اور ان کی ذیلی اقسام میں اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں بلکہ محض تعبیرات کا اختلاف ہے۔تعبیرات کے اختلاف کو نفس توحید کا اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اقسامِ توحید کی تعبیرات منصوص نہیں بلکہ غیر منصوص ہیں۔اہلِ علم نے اپنے اپنے دور میں عوام الناس کو عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے اختیار کی ہیں اور عوام کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے مختلف اقسام میں منقسم کیا ہے۔پھر بعد کے دور کے علماء نے اپنے ذوق اور عوامی ضرورت کے پیش نظراقسام کی نئی تعبیرات اختیار کیں۔ یوں تعبیرات باہم مختلف ہوتی چلی گئیں۔ مقصود ان سب حضرات کا یہی تھاکہ توحید باری تعالیٰ مختلف جہات سے کھل کر واضح ہو اور شرک کسی گوشے سے عقیدہ توحید میں حائل نہ ہو سکے۔ *ہمارے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں:* 1: توحید فی الذات 2: توحید فی الصفات 3: توحید فی الاسماء
Показати все...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----02 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات(حصہ اول)* *نام ونسب:* ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ الاَزْدِی الحَجْری المصری الطحاوی ”اَزْد“ یمن کے ایک مشہور قبیلہ کا نام ہے، اس کی ایک شاخ ”اَزْد شَنُوءَہ“ اور دوسری ”اَزْد حَجْر“ ہے۔ آپ کا نسبی تعلق دوسری شاخ ”اَزْد حَجْر“ سے تھا اس لیے ”الاَزْدِی الحَجْری“ کہلائے۔ ”مصری“ ملک مصر کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے اور ”طحاوی“ صحرائے مصر کے ایک گاؤں ”طحا“ کی طرف نسبت کی وجہ سے ہے جہاں آپ کی ولادت ہوئی۔ *ولادت وتحصیل علم:* آپ سن 239 ہجری میں پیداہوئے ۔ آپ کے والد ماجد عالم فاضل اور پرہیزگار انسان تھے۔ ادب اور شعر و سخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ والدہ ماجدہ نیک سیرت اور خدا ترس خاتون تھیں اور فقہ شافعی کی بڑی فقیہہ اورعالمہ تھیں۔ علامہ جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی الشافعی (ت911 ھ) نے ان کا ذکر مصر کے شافعی فقہاء میں کیاہے۔ آپ کے ماموں امام ابو ابراہیم اسماعیل بن یحییٰ المزنی رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے تلامذہ میں سے تھے۔ یوں آپ کو ایک علمی گھرانہ میں پرورش نصیب ہوئی۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے زیادہ استفادہ اپنے ماموں امام مزنی سے کیا اور انہی سے مسند الشافعی بھی روایت کی۔ ان کے علاوہ مصر، یمن، بصرہ، کوفہ، شام، خراسان اوردیگر اسلامی ممالک کے اساتذہ و شیوخ حدیث و فقہ سے بھی استفادہ کیا۔ *علامہ زاہد بن الحسن الکوثری (ت1371ھ) لکھتے ہیں:* مَنِ اطَّلَعَ عَلٰى تَرَاجِمِ شُيُوْخِ الطَّحَاوِيِّ عَلِمَ أَنَّ بَيْنَهُمْ مِصْرِيِّيْنَ وَ مَغَارِبَةَ وَ يَمْنِيِّيْنَ وَ بَصْرِيِّيْنَ وَ كُوْفِيِّيْنَ وَ حِجَازِيِّيْنَ وَ شَامِيِّيْنَ وَ خُرَاسَانِيِّيْنَ وَ مِنْ سَائِرِ الْأَقْطَارِ فَتَلَقّٰى مِنْهُمْ مَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْأَخْبَارِ وَ الْآثَارِ، وَ قَدْ تَنَقَّلَ فِي الْبُلْدَانِ الْمِصْرِيَّةِ وَ غَيْرِ الْمِصْرِيَّةِ لِتَحَمَّلَ مَا عِنْدَ شُيُوْخِ الرِّوَايَةِ فِيْهَا مِنَ الْحَدِيْثِ وَ سَائِرِ الْعُلُوْمِ․ (الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للکوثری: ص18) *ترجمہ:* جو شخص امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ پر نظر ڈالے گا تو اسے بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ ان کے شیوخ مصری، مغربی، یمنی، بصری، کوفی، حجازی، شامی، خراسانی مختلف ممالک کے حضرات ہیں جن سے آپ نے حدیث کو حاصل کیا۔ آپ نے مصر اور دیگر ممالک کے شہروں کا بھی رخ کیا تاکہ وہاں کے شیوخ حدیث سے علم حدیث اور دیگر علوم حاصل کریں۔ *آپ کے اساتذہ کی فہرست بڑی طویل ہے۔ان میں سے مشہور یہ ہیں:* 1: امام اسماعیل بن یحیی المزنی شافعی (ت 264 ھ) 2: امام يونس بن عبد الاعلىٰ (ت264ھ) 3: قاضی الکبیر ابوبکر بکار بن قتیبہ البصری(ت270ھ) 4: امام ابراہیم بن ابی داؤد سلیمان بن داؤد الاسدی (ت270ھ) 5: امام ربیع بن سلیمان المرادی (ت270ھ) 6: امام قاضی احمد بن ابی عمران البغدادی (ت280ھ) 7: امام ابو خازم عبد الحمید بن عبد العزیز القاضی(ت292ھ) 8: امام احمد بن شعیب بن علی النسائی صاحب السنن (ت303ھ) 9: امام ابو بشر احمد بن محمد بن حماد الدولابی (ت310ھ) 10: امام ابوبکر بن ابی داؤد السجستانی (ت316ھ) *اسی طرح بہت سے حضرات نے آپ سے استفادہ بھی کیا جن میں سے چند یہ ہیں:* 1: قاضی مصر امام احمد بن ابراہیم بن حماد (ت329ھ) 2: امام ابوالقاسم عبد الله بن محمد بن احمد المعروف ابن ابی العوام (ت335 ھ) 3: مؤرخ ابو سعید عبد الرحمٰن بن احمد بن يونس المصری (ت 347ھ) 4: محدث مَسْلَمہ بن القاسم القرطبی (ت353ھ) 5: امام حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (ت360ھ) 6: امام ابو الفرج احمد بن قاسم بن الخَشَّاب (ت364ھ) 7: امام ابو احمد عبداللہ بن عدی بن عبد اللہ الجرجانی(ت365) 8: امام ابو سلیمان محمد بن زبر الدمشقی (ت379ھ) 9: امام محمد بن المظفر البغدادی(ت379ھ) 10: امام ابوبکر بن المقری(ت381)
Показати все...
*(1):توحید فی الذات:* اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ *(2): توحید فی الصفات:* اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں اکیلا ہے، صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ *فائدہ:* صفات کی دو قسمیں ہیں: محکمات اور متشابہات۔ صفات محکمات وہ صفات ہیں جن کا معنی ظاہر اور واضح ہے مثلاً سمع ، بصر ، علم، قدرت وغیرہ ، اور صفات متشابہات صفات ہیں جن کے معانی غیر واضح اور مبہم ہیں، عقل انسانی کی وہاں تک رسائی نہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ید ، وجہ ، عین وغیرہ کلمات یہ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات ہیں۔ ان صفات متشابہات کے ظاہری معانی بالکل مراد نہیں۔ پھر متقدمین اھل السنۃ والجماعۃ ان صفات کا معنی بیان نہیں کرتے بلکہ ان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں جبکہ متاخرین اھل السنۃ والجماعۃ ان صفات کا معنی درجہ یقین میں نہیں بلکہ درجہ ظن میں کرتے ہیں تاکہ عوام الناس فرقہ مجسمہ (جو اللہ تعالیٰ کے لیے جسم مانتے ہیں) کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔ *(3):توحید فی الاسماء:* اللہ تعالیٰ اپنے ناموں میں یکتا ہے۔ *فائدہ:* بعض اسماء ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے رحمٰن، عالم الغیب، مختار کل، قادر مطلق، مشکل کشا، حاجت روا وغیرہ۔ ان اسماء کو مخلوق کے لیے بولنا جائز نہیں۔ بعض اسماء ایسے ہیں جو مخلوق پر بھی بولے گئے ہیں جیسے سمیع، بصیر، متکلم وغیرہ۔ مخلوق کے لیے ان اسماء کا معنی یہ ہے کہ مخلوق سننے میں کان کی، دیکھنے میں آنکھ کی، بولنے میں زبان کی محتاج ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سنتے ہیں لیکن کان کے محتاج نہیں، بصیر یعنی دیکھتے ہیں لیکن آنکھ کے محتاج نہیں، متکلم یعنی بولتے ہیں لیکن زبان کے محتاج نہیں۔تو ان اسماء کا جو معنی مخلوق کے لیے ہے وہ معنی اللہ تعالیٰ کے لیے ہرگز مراد نہیں۔اس لیے معنی خاص کے اعتبار سے یہ اسماء بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔
Показати все...
09:43
Відео недоступнеДивитись в Telegram
13.44 MB
Оберіть інший тариф

На вашому тарифі доступна аналітика тільки для 5 каналів. Щоб отримати більше — оберіть інший тариф.