cookie

Ми використовуємо файли cookie для покращення вашого досвіду перегляду. Натиснувши «Прийняти все», ви погоджуєтеся на використання файлів cookie.

avatar

الکمال نشریات

الکمال نشریات ٹیلی گرام چینل، بزم حافظ کمال الدین شہیدؒ، الیاس گوٹھ کراچی کے زیر اہتمام ایک اسلامی نشریاتی ادارہ ہے،سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دین کی خدمت کے جذبے کے ساتھ بنائے گئے اس چینل کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں ہمارا دست وبازو بنئے، جزاک اللّه

Більше
Країна не вказанаУрду312Релігія і духовність64 962
Рекламні дописи
565
Підписники
Немає даних24 години
+87 днів
+5830 днів

Триває завантаження даних...

Приріст підписників

Триває завантаження даних...

Фото недоступнеДивитись в Telegram
sticker.webp0.29 KB
sticker.webp0.09 KB
امام مہدی ؓ کے دوست ودشمن ۔۔۔ قسط: 21 جادو کی اقسام: جادو کی دوقسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو صرف تخیل، شعبده بازی اور نظر بندی سے تعلق رکھتی ہے، اس میں حقیقت کچھ نہیں ہوتی، جبکہ دوسری قسم وہ ہے جو حقیقت سے تعلق رکھتی ہے، احناف، شوافع اور حنابلہ کی رائے کے مطابق اس کے اثرات انسانی جسم میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بڑے یہودی جادوگر: یہودیوں کے ہاں روحانیات سے متعلق علوم کو ''کبالہ'' (Kabbalah) کہا جاتا ہے، لیکن یہ روحانیات وہ نہیں جس کا تصور اسلام میں ہے، یہودیوں کی روحانیات کا بڑا حصہ شیطانیات، سفلیات اور جادو سے متعلق ہے، کبالہ وہ علم ہے جس میں انسانی ذہن کو قبضے میں کرنے کے تمام طریقے سکھائے جاتے ہیں، جادو کے ذریعے، کیمیا کے ذریعے، برقیاتی لہروں (Electronic Waves) کے ذریعے، ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے۔ کبالہ کی حقیقت یہودی مذہبی پیشواؤں ہی کو معلوم ہے، دیگر قوموں سے اس کو چھپانے کے لئے انہوں نے اس علم کے کئی اور ہم نام، دنیا میں متعارف کرائے ہیں، مثلا ''قَبَلہ'' ''قَبالہ'' وغیرہ۔ ان میں سے کون سا حقیقت ہے اس کا جاننا خاصا مشکل کام ہے۔ یہودیوں میں ایک سے بڑا ایک جادوگر رہا ہے، انہوں نے اس شیطانی عمل کے ذریعے مسلمانوں کے اندر مختلف فتنے پھیلائے ہیں اور طرح طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان یلغاروں سے قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی حفاظت کے بندوبست کریں، تا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نامراد ہوں، دوسری وجہ یہ ہے کہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہم لوگ دنیا میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کو صرف اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے اسلام دشمن قوتیں ہمیں دکھانا چاہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان حادثات سے عبرت پکڑنے کے بجائے ہم الٹے فکری گمراہی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذیل میں جن افراد کا تذکرہ کیا جارہا ہے، یہ سب وہ ہیں جو ظاہراً کچھ اور تھے، جبکہ حقیقت میں کچھ اور۔ ہمیں چاہئے کہ دین کے دشمنوں سے ہوشیار رہیں خواہ وہ کہیں بھی اچھے ہوں، ان پُراسرار شخصیات میں چند نام یہ ہیں: ① ۔۔۔ ابوعیسی اصفهانی: یہ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں تھا، یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ خلافتِ بنو امیہ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی خون ریزی اسی کے باطنی تصرفات کا نتیجہ تھی۔ ② ۔۔۔ ابراہیم ابوالعافيه: یہ اندلس کے ایک متمول گھرانے کا فرد تھا، اس کی پیدائش 1240ء میں ہوئی، 1278ء میں بیت المقدس سے واپس آ کر اس نے اپنے مسیح ہونے کا اعلان کیا، یہ اس قدر باطنی قوتوں کا مالک تھا کہ اس نے اپنے جادو کے زور سے، عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ نکولس سوم کو تصرفِ قلبی سے یہودی بنانے کی کوشش کی، پوپ نکولس کو جب اس کی سازش کا علم ہوا تو اس نے اس پر، اپنے فتوے کے ذریعے لعنت کی اور اسے موت کی سزا کا حکم سنایا، قبل اس کے کہ ابراہیم ابوالعافیہ کو پھانسی ہوتی پوپ نکولس خود تیسرے دن مرگیا، بعد میں عیسائی عدالت نے اس کو زندہ نذرآتش کرنا چاہا تو اس نے سزا دینے والے پورے عملے کو بشمول ججوں کے مسحور کر دیا، وہ اسے سزادینے میں ناکام رہے۔ ③ ۔۔۔ عاشر لیملن: یہ سولہویں صدی میں اپنے باطنی تصرفات سے خلافت عثمانیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہا، اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانوں کا خاتمہ کر کے بیت المقدس واپس دلوائے گا۔ ④ ۔۔۔ سباتائی زیوی (1626- 1676ء) سباتائی زیوی (Sabbatai Zevi) 1626ء میں سمرنا (موجودہ ازمیر) (ترکی) میں، ایک تاجر خاندان میں پیدا ہوا، اس کا باپ یورپ کی دو بڑی تاجر تنظیموں کا نمائندہ تھا، یہ خود بھی کامیاب تاجر تھا، عربی اور عبرانی زبان کا بڑا عالم تھا، نیز یہ کباله( Kabbalah) کا ماہر سمجھا جاتا تھا، یہودی اس کو بڑا زاہد و عابد تصور کرتے، 1648ء میں اس نے اپنے نبی (مسیح) ہونے کا دعویٰ کیا، اس کی شہرت اس وقت دنیا میں پھیل گئی جب مصر جا کر اس نے پولینڈ کی ایک خانہ بدوش، یہودی فاحشہ عورت سے شادی کر لی، اس خبر نے تمام دنیا کے یہودیوں میں کہرام مچادیا، کسی عابد وزاہد یہودی عالم کا، خانہ بدوش فاحشہ یہودن سے شادی کرنا یہودیوں کے ہاں ان کے مسیح کی نشانی تھی، چنانچہ وہ ''مسیح'' جس کا انہیں انتظار تھا، فاحشہ یہودن سے شادی کر چکا تھا، اس لڑکی کا دعویٰ تھا کہ اس کے ساتھ ''مسیح'' کے علاوہ کوئی اور شادی نہیں کرسکتا، لہذا خدا نے اس کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ مسیح کے آنے تک جس سے چاہے جنسی تعلق قائم کرتی رہے۔ ( موسوعۃ الیہود والیہودیۃ، از عبد الوہاب المسیری) (اللہ کی لعنت ہو اس مسیح دجال پر جس کی بیوی ایک زانیہ فاحشہ ہوگی) سباتائی زیوی نے یہودیوں کو تمام مذہبی قیدوں سے آزاد کردیا اور تمام شریعت کو ختم کرنے کا اعلان کیا، سباتائی زیوی یہودی تاریخ کا ایسانام ہے، جس نے یہودیت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا اور ایک نئی تحریک جو تمام مذہبی قید وپابندیوں سے آزاد تھی، کی
Показати все...
بنیاد ڈالی، دور جدید کی صیہونی تحریک جس کو تھیوڈر ہرزل (1860- 1904) نے قائم کیا، در حقیقت اس کی بنیاد سباتائی نے ہی رکھ دی تھی، خود ہرزل سباتائی کا عقیدت مند تھا۔ ⑤ ۔۔۔ يعقوب فرینک (1726-1791ء) یعقوب فرینک (Jacob Frank) کی پیدائش 1726ء میں یوکرین میں ہوئی، یہ بھی غیر معمولی روحانی قوتوں کا مالک تھا، یوکرین سے ترکِ وطن کر کے تر کی آگیا اور ''دونمہ'' کا رکن بن گیا، دونمہ یہودی روحانی قوتوں کے اکابرین کی وہ جماعت ہے جو جادوئی تصرفات کے ذریعے خلافت عثمانیہ کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی، یہی روحانی اکابر ین تھے جو انیسویں صدی کے اواخر میں خلیفہ عبد الحمید ثانی کے پاس فلسطین کی خریداری کا سودا کرنے کے لئے گئے تھے، اس وفد کا سربراہ قرہ صوہ آفندی تھا، یہ آفندی ننگِ ملت، ننگِ دین، اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کا مربی تھا اور یہی آفندی تھا جو خلیفہ کے پاس خلافت کے خاتمے کا پروانہ لے کر گیا تھا۔ يعقوب فرینک وہ یہودی ہے جس نے عالمِ یہودیت کے لئے جنسی آزادی کو بنیادی دینی شعار قرار دیا، اس نے مجازی جنسی صورت میں، خدا کو پانے کا طریقہ بتایا، اس نے خدا کے قرب اور اس تک ترقی کا راستہ یہ بتلایا کہ انسان جتنا پستیوں میں گرے گا، جتنا شریعت کے دامن کو تار تار کرے گا، اتنا ہی خدا کا مقرب ہوتا جائے گا۔ (موسوعۃ اليهود والیہودية) ⑥ ۔۔۔ سعید ارمنی: اس کو تاریخ میں سرمد کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ عالمگیر اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں تھا، اس کو باطنی تصرفات کا ماہر سمجھا جاتا تھا، 1659ء میں اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو موت کی سزا دے دی۔ اسرائیل بن ایلی زر (1700- 1760ء) اس کو بعل شیم توو (Baal Shem Tov) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ یہودیوں کی روحانی تحریک حصید ازم (Hasidism) کا بانی ہے، اس کی پیدائش 1700ء میں یوکرین میں ہوئی، یہ بے پناہ باطنی قوتوں کا مالک تھا، چھوکر سخت بیماروں کو اچھا کردیا کرتا، پانی پر چلتا، نگاہیں ڈال کر درختوں اور جنگلوں کو آگ لگا کر جھلسا دیتا، جادو کے ذریعے غیر معمولی کام کردیا کرتا، اس نے دعویٰ کیا کہ وہ براہِ راست خدا سے رابطے میں ہے اور اس کی سفارش عذاب میں پڑے یہودیوں کو نجات دلاتی ہے، اس کی ساری کوششیں خلافتِ عثمانیہ کو اپنے جادوئی تصرفات سے ختم کرنے کے لئے تھیں، نیز یہود کو بھی اس نے بہت فائدہ پہنچایا، جبکہ اس کے مخالفین اس پر عورتوں کا رسیا اور شہوتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے قصے جو تواتر کی حد تک مشہور ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ ایک بار ایک نوجوان لڑکی اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، یہ اس کے لئے دعا کر رہا تھا، دعا کرتے ہوئے ہی یہ لڑکی حاملہ ہوگئی۔ (موسوعۃ الیہود والیہودیہ، ج: ۱۴، ص: ۴۸۹) یاد رہے کہ یہ تحر یک کوئی معمولی تحریک نہیں، بلکہ اس تحریک نے پوری یہودیت کو اپنی لپیٹ میں لیا اور آج بھی بڑی تعداد میں یہودی اس پر عمل پیرا ہیں، یہ شراب کا شوقین اور دیگر نشہ آور ادویات کا عادی تھا۔ (ایضاً) ⑧ ۔۔۔ زیوی حر کلیشر: زیوی حرش کلیشر (Zevi Hirsch Kalischer) کی پیدائش 1795ء میں ہوئی، یہ پولینڈ نژاد تھا اور جرمنی میں ظاہر ہوا، صیہون کی واپسی کے لئے مغرب کی تمام یہودی اور غیر یہودی قوتوں کو یکجا کرنے میں اس کے جادوئی تصرفات کا سب سے زیادہ دخل ہے، مشہور یہودی سرمایہ دار مئر ایمشل روتھ شیلڈ (1712 - 1843ء) (Meyer Amschel Rothschild) کو بھی اسی نے اس مشن میں لگایا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف تمام باطنی قوتوں کو جمع کرنا اس کا کارنامہ ہے، اس نے یہودیوں کو یہ ماڈرن تصور دیا کہ ''مسیح'' کی آمد کے لئے خود ہمیں ہی راہ ہموار کرنی ہوگی۔ ان کے علاوہ متعدد مشہور یہودی جادوگر تاریخ میں ملتے ہیں جو اس درجے تک پہنچے کہ انہوں نے اپنے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا، اپنے جادوئی تصرفات کو عالمِ اسلام کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ ==================> جاری ہے ۔۔۔ ماخوذ از: ''امام مہدی ؓ کے دوست ودشمن'' مؤلف: مولانا عاصم عمر صاحب ناقل: محمد احمد صارم
Показати все...
Фото недоступнеДивитись в Telegram
جمہوریت اور سیکولرزم نے اللّٰه اور اللّٰه کے دین کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہوا ہے: جمہوری و سیکولر زبانیں ’مذہب کا احترام‘ جیسے چند الفاظ بول کر ہم کو ایک بہت بڑا چقمہ دیتی ہیں۔ ایسا کرکے وہ ’’دینِ محمدؐ‘‘ کے ساتھ کفر کی کھلم کھلا دعوت دے کر بھی یہ محمد رسول اللّٰه ﷺ پر ایمان رکھنے والے ایک معاشرے میں اپنا سر سلامت لیے پھرتی ہیں۔ یہ ساری مکاری اِسی کے دم سے ہے کہ ہمارے سادے مسلمان ’’دین‘‘ اور ’’الٰہ‘‘ کے اُس جامع مفہوم سے ناواقف ہیں جو چودہ سو سال سے امت کے اہلِ علم میں متفق علیہ چلا آیا ہے۔ جس طرح قرآن یہ کہتا ہے کہ اللّٰه کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے اور کوئی دین قبول نہیں، اسی طرح آج کے عالمی دجالی ٹولوں اور اداروں نے صاف صاف یہ اعلان رکھا ہے کہ ’’دین‘‘ ان کے نزدیک جمہوریت اور سیکولرزم ہے۔ اِس ’’دین‘‘ کے اندر رہتے ہوئے ’’مذہب‘‘ آپ جونسا مرضی اختیار کریں۔ اب یہ چیز ایک اندھا بھی دیکھ چکا ہے کہ آج جنگ کا ایجنڈا اِسی ایک نکتے پر ہے۔ یہاں کا لاعلم سے لاعلم شخص بھی جان گیا ہے کہ کرۂ ارض کی مہنگی ترین جنگ نہ تو یہاں کے کچھ مٹھی بھر ’دہشت گردوں‘ کی سزا کی خاطر ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک خطے تک محصور کر رکھی گئی ہے؛ بلکہ یہ جنگ صرف اور صرف ایک نکتے پر ہو رہی ہے اور پوری دنیا کے اندر پھیلا دی گئی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اپنا ’’دین‘‘ چھوڑنا ہوگا۔ اسلام کو رکھنا ہے تو ’’مذہب‘‘ کے طور پر رکھیں، ’’دین‘‘ البتہ جمہوریت و سیکولرزم ہے! بشکریہ چینل: ”نظامِ اسلام بمقابلہ نظامِ باطلہ“
Показати все...
Фото недоступнеДивитись в Telegram
بنایا جائے تو یہ شرط ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ مجاعہ نے چونکہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو پوری طرح اعتماد میں لیا ہوا تھا، اس لیے وہ سیدنا خالد سے گفتگو کرنے کے بعد شہر میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا کہ پورے شہر میں ایک ہو کا عالم طاری ہے۔ جہاں کبھی نوجوانوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں بیٹھی رہتی تھیں وہاں سوائے عورتوں اور بوڑھے مردوں کے اور کوئی نہ تھا اور وہ بھی اپنے گھروں میں سہمے بیٹھے تھے۔ تمام نوجوان قتل ہوچکے تھے یا حدیقۃ الموت سے بھاگ کر دور و نزدیک کی بستیوں میں جہاں سر چھپانے کی جگہ ملی، چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ مجاعہ شہر کی یہ ویرانی دیکھ کر حیران رہ گیا اور پریشان بھی ہوا۔ اس نے عورتوں اور بوڑھے مردوں سے کہا کہ وہ زرہیں پہن کر اور اسلحہ سے مسلح ہوکر قلعہ کی فصیل پر آجائیں تاکہ مسلمان انہیں دیکھ کر یہ سمجھیں کہ شہر میں مسیلمہ کے سپاہیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو مرعوب کر کے اپنی مرضی کے مطابق ان سے شرائط طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ سب عورتوں اور بوڑھوں نے مجاعہ کی اس بات پر عمل کیا اور زرہیں پہن کر ہاتھ میں نیزے اور تلواریں لے کر شہر کی فصیل پر بیٹھ گئے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ اور مسلمان جب شہر میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ شہر کی فصیل پر مسلح سپاہی کھڑے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ مجاعہ نے درست ہی کہا تھا کہ بنو حنیفہ کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شہر میں موجود ہے۔ مجاعہ نے خالد اور مسلمانوں سے کہا: "میری قوم کے لوگ آپ کی پیش کردہ شرائط پر صلح کرنے کے لیے تیار نہیں، لہذا انہوں نے مجاعہ سے کہا کہ ہم آدھا مال و اسباب اور آدھے مزروعہ باغات اور آدھے قیدی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ تم اپنی قوم کو سمجھاؤ کہ وہ اپنے آپ کو مزید جنگ میں جھونک کر ہلاک نہ کریں، پہلے ہی ان کا بہت جانی اور مالی نقصان ہوچکا ہے۔ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر کہنے لگا کہ یہ لوگ آدھے مال و اسباب پر رضامند نہیں، البتہ تین تہائی مال اگر آپ چھوڑ دیں تو اس پر میں انہیں راضی کرلوں گا اور وہ آپ سے صلح کر لیں گے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ کی شرط مان لی اور فریقین میں صلح نامہ تحریر ہوگیا۔ صلح کے بعد سیدنا خالد اور مسلمان فوجی جب شہر کے گلی کوچوں میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ مجاعہ نے ان سے دھوکہ کیا ہے۔ شہر میں ایک بھی جوان مرد نہ تھا۔ صرف بوڑھے مرد عورتیں اور بچے تھے جن کو زرہیں پہنا کر اور اسلحہ دے کر شہر کی فصیل پر کھڑا کردیا گیا تھا۔ اب سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ سے کہا: "تم نے مجھ سے دھوکا اور فریب کیا ہے۔" مجاعہ نے کہا: "اگر میں ایسا فریب نہ کرتا تو میری قوم جو پہلے ہی آپ لوگوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو چکی ہے بالکل ختم ہوجاتی، مجھ پر ضروری تھا کہ میں اپنی قوم کو بچاتا اور اس کی صرف یہی ایک صورت تھی جو میں نے اختیار کی اور وہ کامیاب رہی۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو اگرچہ مجاعہ پر بہت غصہ تھا لیکن انہوں نے دھوکہ کے باوجود صلح نامہ برقرار رکھا اور مجاعہ کو کچھ نہ کہا۔ اگرچہ بعض صحابہ کرام نے اس معاہدہ کی سخت مخالفت کی، کیوں کہ مجاعہ نے دھوکہ دے کر یہ معاہدہ کیا تھا، لیکن سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے پھر بھی اس کو توڑنا اسلام کے مزاج کے خلاف سمجھا۔ اس واقعہ کے بیان کرنے سے یہ مقصد تھا کہ ایک مسلمان جس طرح خود جھوٹ نہیں بولتا اسی طرح وہ دوسروں سے بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ اس کے ساتھ جھوٹ بولیں گے، لیکن اگر کوئی شخص جھوٹ اور فریب سے کسی مسلمان سے کوئی معاہدہ کر لے تو مسلمان پھر اس کو توڑتا نہیں خواہ اسے کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچے۔ ایسے ہی تھیوڈومر نے مسلمانوں سے دھوکہ اور جھوٹ اور فریب سے معاہدہ کیا، لیکن مسلمانوں نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی طرح اس معاہدہ کی پاسداری کی، اگرچہ انہیں اس معاہدہ میں کافی نقصان ہوا۔ ============> جاری ہے ۔۔۔ مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نُصَیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه ناقل: ٹیم ”صرف اسلام“ فیس بک گروپ
Показати все...
فاتحِ اندلس، موسیٰ بن نُصَیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه، قسط: 14 مالقہ اور تدمیر وغیرہ کی فتح: طارق بن زیاد رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه نے مالقہ شہر کو فتح کرنے کے لیے جو دستہ بھیجا تھا وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب و کامران ہوا۔ جب اس دستہ نے شہر پر حملہ کیا تو اہل شہر، شہر کو چھوڑ کر دشوار گزار پہاڑیوں میں جاچھپے تھے۔ مسلمانوں نے یہاں بھی طرح اقامت ڈالی اور فوج کے ایک حصہ کو آگے بڑھایا جس نے شہر البیرہ کا رخ کیا، جہاں آگے چل کر شہر غرناطہ کی بنیاد پڑی اور اس نے بڑا نام حاصل کیا۔ اس شہر کے فتح ہونے کے بعد شہر ریہ بھی فتح ہوکر اسلامی عمل داری میں شامل ہوگیا۔ اور آگے بڑھ کر اسلامی لشکر اریولہ میں قیام پذیر ہوا۔ اس سلسلہ مہم میں اس سمت میں اسلامی دستوں کی آخری منزل یہی تھی، کیونکہ یہیں پہنچ کر اس علاقہ کے عیسائی حاکم تھیوڈومر سے صلح کی سلسلہ جنبانی ہوئی۔ تھیوڈومر، راڈرک کے زمانہ میں صوبہ اندلس کا گورنر تھا۔مسلمانوں کے غلبہ حاصل کرنے کے بعد وہ صوبہ مرسیہ میں چلا گیا اور یہاں گاتھک لشکر کو اکٹھا کرکے مسلمانوں سے مقابلہ کی تیاریاں کر رہا تھا۔ ریہ میں شکست کھانے کے بعد وہ اریولہ میں آکر پناہ گزین ہوگیا تھا۔ جب مغیث نے اس شہر کا محاصرہ کیا تو تھیوڈومر نے جم کر اسلامی لشکر کا مقابلہ کیا، لیکن اس کے بہت سے سپاہی کام آچکے تھے اور لڑنے والوں کی تعداد اس کے پاس زیادہ باقی نہیں رہ گئی تھی، اس نے اب ایک چال چلی کہ مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے اس نے عورتوں کو سپاہیانہ لباس پہنا کر اور اسلحہ سے آراستہ کرکے فصیل کی دیوار پر کھڑا کردیا۔ دور سے عورتوں اور مردوں میں امتیاز کرنا مشکل تھا اور ان عورتوں کے آگے بچے کچھے سپاہیوں کو ہتھیاروں سے آراستہ اور مسلح کر کے کھڑا کردیا گیا اور پھر صلح کا جھنڈا لہراتا ہوا خود اسلامی لشکر کے کیمپ میں چلا آیا۔ مسلمانوں کو دور سے فوج کی تعداد زیادہ نظر آئی اور وہ فریب میں آگئے اور آسان شرطوں پر صلح کرنے کے لیے تیار ہوگئے، تھیوڈومر نے صلح کے بعد اپنا تعارف کرایا۔ صلح کے بعد جب مسلمان شہر میں داخل ہوئے اور شہر میں عورتوں اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور سپاہیوں کو ایک قلیل تعداد میں دیکھا تو اس وقت انہیں تھیوڈومر کے فریبِ جنگ کا اندازہ ہوا اور آسان شرائط قبول کرلینے پر کفِ افسوس ملنے لگے۔ لیکن صلح کی جو شرائط طے پاچکی تھیں، ان پر قائم رہے۔ یہ علاقہ تھیوڈومر کے قبضہ اختیار میں باقی رکھا گیا اور طارق بن زیاد نے بھی اپنے جرنیل مغیث کے معاہدہ کی توثیق کرتے ہوئے اسے صوبہ مرسیہ کا گورنر تسلیم کیا، اور یہ پورا علاقہ آگے چل کر تھیوڈومر کے نام پر "تدمیر" سے موسوم ہوا۔ عورتوں کو مردوں کے کپڑے پہنا کر مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور پھر نرم شرائط پر صلح کرنا یہ مسلمانوں کے ساتھ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل جنگ یمامہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مسیلمہ کذاب کے قتل کے بعد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوج نے مفرورین کا تعاقب کرنا شروع کردیا، تاکہ دشمن کی پوری طاقت کو تباہ کردیا جائے اور اس کے سارے کس بل نکال دیے جائیں تاکہ اس کو دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت و جرات نہ ہوسکے۔ مجاعہ بن مرارہ جس کی دلی ہمدردیاں مسیلمہ کذاب کے ساتھ تھیں لیکن اپنی کچھ باتوں کی وجہ سے وہ سیدنا خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ کا ایک قابل اعتماد مشیر بن گیا تھا جب مسلمان فوج مسیلمہ کے قلعوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھی تو مجاعہ نے سیدنا خالد سے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے بنو حنیفہ پر مکمل فتح پالی ہے اور ان کے جھوٹے نبی مسیلمہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے، لیکن مسیلمہ کے ساتھ جو لوگ آئے تھے وہ جلد باز تھے، ورنہ بنو حنیفہ کے بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تو ابھی یمامہ کے قلعوں میں موجود ہے اور وہاں انہوں نے بہت سا اسلحہ بھی چھپا رکھا ہے۔ یہ بہت سخت جان لوگ ہیں اور کسی بھی وقت قلعوں سے باہر نکل کر مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر آپ لڑائی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو کچھ دیر کے لیے مجھے یمامہ میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں، تاکہ میں ان سے مصالحت کی بات چیت کر سکوں۔ اس کی یہ پیش کش یقیناً دھوکہ اور فریب تھی۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوج بھی چونکہ مسلسل جنگ سے تنگ آچکی تھی اور یہ جنگ تو ویسے ہی بڑی خون ریز اور خون چکاں ثابت ہوئی۔ مسلمان فوج کا اس میں اس قدر نقصان ہوا تھا کہ اس سے پہلے کسی جنگ میں بھی اتنا نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا بھی خیال تھا کہ فساد کی جڑ مسیلمہ تو قتل ہوچکا ہے اور بنو حنیفہ پر ہم نے فتح پالی ہے، لہذا اب اسی پر اکتفا کیا جائے اور جنگ کا سلسلہ مزید آگے نہ بڑھایا جائے۔ چنانچہ مجاعہ کو یمامہ میں جاکر قلعوں میں بیٹھی ہوئی فوجوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت دے دی گئی، لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اگر بنو حنیفہ مصالحت کے لیے یہ شرط پیش کریں کہ انہیں غلام نہ
Показати все...
Оберіть інший тариф

На вашому тарифі доступна аналітика тільки для 5 каналів. Щоб отримати більше — оберіть інший тариф.