cookie

Мы используем файлы cookie для улучшения сервиса. Нажав кнопку «Принять все», вы соглашаетесь с использованием cookies.

avatar

گلدستۂ اردو ادب

اُردو محض ایک زبان نہیں بلکہ یہ زبان ایک مخصوص ثقافت کی ترجمان ہے آئیے اپنی اسی گم گشتہ ثقافت کی بازیابی کے لیے اردو زبان کو تحفظ فراہم کریں

Больше
Рекламные посты
617
Подписчики
Нет данных24 часа
+37 дней
+1430 дней

Загрузка данных...

Прирост подписчиков

Загрузка данных...

میں باپ ہوں میں نے خواب بیچے تو خواب سب کے خرید لایا میں وہ ہوں جس نے عذاب جھیلے تو آپ لوگوں نے چین پایا مجھے جو بدلے میں مل رہا ہے صلہ یہ کیا ہے انعام کیا ہے۔؟ میرا بتاؤ مقام کیا ہے۔۔؟ کبھی سنو مجھ سے لاڈلو تم میرا فسانہ میری کہانی کبھی تو پوچھو کہاں گئی ہے میری وہ رنگوں بھری جوانی تو یاد رکھنا تمہاری خاطر تمہارے بچپن پہ وار دی ہے تمہیں میں پہلے جوان کر لوں یہ کرتے کرتے گزار دی ہے گزر گئی ہے تو سوچتا ہوں گزر رہی جو شام کیا ہے۔؟ میرا بتاؤ مقام کیا ہے۔۔؟ خلیل الرحمٰن قمر
Показать все...
‏ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا مولوی صاحب غصے میں آ گئے ، بولے. ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے؟ بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے۔ میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں جی بولیں ، "پتر مولوی صاحب غصے میں ھوں گے جو انہوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لیے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ھوتی ھے"۔ جہنم حاصل کرنے کے لیے پتھر دل ھونا پڑتا ھے۔ جہنم لینے کے لیے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ھے. قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ھے، فساد پھیلانا پڑتا ھے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی پڑتی ھے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ھے. محبت سے نفرت کرنا پڑتی ھے۔ اس کے لیے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ھیں. رب العالمین اور رحمت العالمین سے تعلقات توڑنے پڑتے ھیں۔ تب کہیں جا کر جہنم ملتی ھے۔ تُو تو اتنا کاھِل ھے کہ پانی بھی خود نہیں پیتا۔ تجھ سے یہ محنت کیونکر ھو سکے گی؟؟ تُو تو چڑیا کی موت پر ھفتوں روتا رھتا ھے پھر تُو اتنا پتھر دل کیسے بن سکتا ھے؟ آخر میں ماں جی بولیں ، "بیٹا مولوی صاحب کی باتوں پر دھیان مت دینا ورنہ تمھارے اندر خدا کا صِرف ڈر بیٹھے گا محبت نہیں” "اشفاق احمّد" "زاویہ" سے اقتباس
Показать все...
Фото недоступноПоказать в Telegram
Фото недоступноПоказать в Telegram
”ایک وقت تھا جب گاؤں کے سب لوگ بس میں بیٹھ کر بازار جایا کرتے تھے، سڑک پر چلتی بس جب اپنا مخصوص ہارن بجاتی تو گھروں میں پتہ چلتا کہ پہلا ٹائم گزر رہا ہے، کسی کو اپنے ہاں مہمان آنے کی اطلاع ہوتی اور کسی کو اپنے گھر بیٹھے مہمان کو روانہ کرنے کی فکر ہوتی اور پھر وقت بدل گیا۔ روڈ بدل گٸے، لوگ بدل گٸے، محبتیں بدل گٸیں، بسیں بدل گئیں، سائیکلیں ٹھکانے لگ گٸیں، درخت کٹ گٸے، چِڑیاں اُڑ گئیں، چہچہاہٹ تھم گئی، پیدل والے رستوں پر گھاس اُگ گٸی، اور پھر گاؤں کے لوگ آپس میں بیگانے ہو گٸے، ایک دوسرے کی پرواہ ختم ہو گٸی، اور یوں ایک حسِین زمانے کا اختتام ہو گیا“
Показать все...
کہتے ہیں ایک بدو کسی شہری کا مہمان ہوا میزبان نے ایک مرغی ذبح کی جب دسترخوان بچھ گیا تو سب آموجود ہوئے میزبان کے گھر میں کل چھ افراد موجود تھے دو میاں بیوی دو ان کے بیٹے اور دو بیٹیاں میزبان نے بدو کا مذاق اڑانے کا فیصلہ کرلیا‏ میزبان آپ ہمارے مہمان ہیں کھانا آپ تقسیم کریں بدو مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں لیکن اگر آپ کا اصرارہے تو کوئی بات نہیں لائیے میں ہی تقسیم کر دیتا ہوں بدو نے یہ کہہ کر مرغی اپنے سامنے رکھی اس کا سرکاٹا اور میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا آپ گھر کے سربراہ ہیں لہذا مرغی کا ‏سر ایک سربراہ کو ہی زیب دیتا ہے اس کے بعد مرغی کا پچھلا حصہ کاٹا اور کہا "یہ گھر کی بیگم کے لیے" پھر مرغی کے دونوں بازو کاٹے اور کہا بیٹے اپنے باپ کے بازو ہوتے ہیں پس بازوبیٹوں کے لیے بدو نے بیٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا بیٹیاں کسی بھی خاندان کے وقار کی بنیاد ہوتی ہیں ‏اورسارے خاندان کی عزت ان کے وقار پر کھڑی ہوتی ہے یہ کہہ کر مرغی کے دونوں پاؤں کاٹے اور میزبان کی بیٹیوں کو دے دیے پھر مسکراکر کہنے لگا ”جو باقی بچ گیا ہے وہ مہمان کے لیے“ میزبان کا شرمندگی سے برا حال تھا اگلے دن اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج پانچ مرغیاں ذبح کرنی ہیں ‏بیوی نے ایسا ہی کیا اور جب دسترخوان لگا تو اس پر پانچ بھنی ہوئی مرغیاں موجود تھیں میزبان نے سوچا کہ دیکھتے ہیں کہ آج یہ پانچ مرغیوں کو کس طرح تقسیم کرے گا ؟ میزبان ان مرغیوں کو سب افراد میں برابر تقسیم کر دیں بدو جفت یا طاق؟ میزبان طاق انداز میں تقسیم کرو ‏بدو نے میزبان کی بات سن کر سرہلایا تھال سے ایک مرغی اٹھائی میاں بیوی کے سامنے رکھی اور بولا آپ اور آپ کی بیوی دو اور ایک یہ مرغی کل ملا کے تین پھر دوسری مرغی اٹھائی اور کہا آپ کے دو نوں بیٹے اور ایک مرغی کل ملا کے یہ بھی تین اس کے بعد تیسری مرغی اٹھائی اور کہا آپ کی ‏دو بیٹیاں اور ایک مرغی کل ملا کر یہ بھی تین ہوگئے اب تھال میں دو مرغیاں باقی تھیں اس نے وہ مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور کہنے لگا یہ دو مرغیاں اور ایک میں یہ بھی تین ہو گئے میزبان بدو کی یہ تقسیم دیکھ کر ہکابکا رہ گیا اس نے اگلے دن پھر پانچ مرغیاں روسٹ کرنے کا بیوی کو ‏کہا جب سب لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے تو میزبان نے بھنی ہوئی پانچوں مرغیاں بدو کے سامنے رکھیں میزبان آج بھی تقسیم آپ ہی کرو گے لیکن آج تقسیم کی نوعیت جفت ہونی چاہیے بدو لگتا ہے کہ تم لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض ہو میزبان ایسی کوئی بات نہیں آپ تقسیم شروع کریں ‏بدو نے مرغیوں کی طشتری سامنے رکھی اس میں ایک مرغی اٹھائی اور کہنے لگا ماں اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی یہ ہوئے کل ملا کر چار یہ کہہ کر پہلی مرغی ان کی طرف بڑھا دی اس کے بعد دوسری مرغی اٹھائی اور میزبان سے کہا آپ،آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی یہ بھی کل ملا کر چارہوئے ‏پھر تھال میں موجود باقی تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے بولا میں اوریہ تین مرغیاں یہ بھی کل ملا کر ہو گئے چار اس کے بعد مسکرایا بے بسی کی تصویر بنے اپنے میزبانوں کی طرف دیکھا اور آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگا یا اللّٰه تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ‏کہ تونے مجھے تقسیم کرنے کی اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے ۔۔ (یہ عربی کی کہانی ہے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے،)
Показать все...
کیا آپ نے گولی والی بوتل پی ہوئی ہے ریڑھی سے تازہ لـچھے بنوا کر کھائے ہوئے ہیں کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ہے رات کے وقت کالا دھاگہ باندھ کر لوگوں کے گھروں کی کنڈیاں "کھڑکائی" ہوئی ہیں ، بنٹے کھیلے ہوئے ہیں، سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ھے، شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ" سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ھے، دو روپے والا نیلا نوٹ استعمال کیا ہوا ھے، پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں، سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ھے، تختی کو گاچی لگائی ہوئی ھے، گھر سے آٹا لے جا کر تنور سے روٹیاں لگوائی ہوئی ہیں، سکول کی دیوار پھلانگی ہوئی ھے، غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں، عینک والا جن دیکھا ہو ہے، پی ٹی وی پر کشتیاں دیکھی ہوئی ہیں، چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کیا ہوا ھے، بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دیکھا ہوا ھے، اپنے لینڈ لائن فون کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہوا ھے، میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ھے،، بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں، کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہے پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہے سردیوں میں رضائی میں گھس کر ڈراؤنے قصے سنے ہوں، سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں، زمین کے نیچے بونے رہتے ہیں یہ سنا ہو، ریڈیو پر گانے سنے ہوں رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو، پینٹ پہن کر محلے والوں کی طنزیہ نظروں کا سامنا کیا ہو، گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو، جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو، پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں ، گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ہو ٹی وی پر غلاف چڑھایا ہو لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ہو ہاتھ والا نلکا چلا کر بالٹیاں بھری ہوں یسو پنچو کھیلا ہو لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ہو یا 98 پر جا کر بڑے سانپ سے ڈس کر 6 پر آے ہیں تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیان میں ایک کٹ لگایا ہو خوشخطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی ہو ڈالر کا پین استعمال کیا ہو سر پر تیل کی تہہ اور سرما لگا کر خوبصورت لگنے کی کوشش کی ہو ریل والا کیمرہ استمعال کیا ہو ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ہو آگ میں کاغذ جلائے ہوں بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہوں کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ھے، گندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ہو الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہوں بلی مارکہ اگر بتی خریدی ہو مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہوں کلاس میں مرغا بنے ہوں ہمسائیوں کے گھر سے سالن مانگا ہو مہمان کی آمد پر خوشیاں منائي ہوں سائیکل کی قینچی چلائی ہو والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہوں سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ہو چھپ چھپ کر سگریٹوں کے سوٹے لگائے ہوں امتحانوں کی راتوں میں " گیس پیپرز" کے حصول کے لیے دوستوں کے گھروں کے چکر کاٹے ہوں قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہوں چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں، کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ہو محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر پانچ وقت نماز کے منصوبے بنائے ہوں صبح سویرے ڈول پکڑے گوالے سے دودھ لینے جاتے رھے ہوں برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ہو لاٹری میں کنگھی ٹیپ ریکارڈر نکلی ہو سردیوں کی تراویح میں پنکھے چلا کر مسجد سے فرار ہوئے ہوں، رات کو آسمان کے تارے گنے ہوں سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ہو زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ہو ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ہو شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہوا ہو مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہوا ہو اور صبح سویرے گلی میں کسی کے درود شریف پڑھتے ہوئے گزرنے کی آواز سنی ھے اسکا ایک ہی مطلب ھے کہ اب آپ بوڑھے ہو رہے ہیں کیونکہ یہ ساری چیزیں اسوقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکون ہوا کرتا تھا لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب امیر غریب کا کوئی بھی چکر نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھے۔ مجھے فخر ھے کہ میرا تعلق اس دور سے ہے جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ھے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا۔ #ساڈہ_پنجاب
Показать все...
ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا ۔ اک روزایک درویش سے ملا قات ہو گئی تواپنا حال کہہ سنایا ۔ کہنے لگا کہ بہت پریشان ہوں۔ یہ دکھ اور پریشانیاں اب میری برداشت ہے باہر ہیں ۔ لگتا ہے شائد میری موت ہی مجھے ان غموں سے نجات دلا سکتی ہے۔ درویش نے اس کی بات سنی اور کہا جاؤ اور نمک لے کر آؤ۔ نوجوان حیران تو ہوا کہ میری بات کا نمک سے کیا تعلق پر پھر بھی لے آیا ۔ درویش نے کہا پانی کے گلاس میں ایک مٹھی نمک ڈالو اور اسے پی لو۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا تو درویش نے پوچھا : اس کا ذائقہ کیسا لگا ؟ نوجوان تھوكتے ہوئے بولا بہت ہی خراب، ایک دم کھارا درویش مسکراتے ہوئے بولا اب ایک مٹھی نمک لے کر میرے ساتھ اس سامنے والی جھیل تک چلو۔ صاف پانی سے بنی اس جھیل کے سامنے پہنچ کر درویش نے کہا چلو اب اس مٹھی بھر نمک کو پانی میں ڈال دو اور پھر اس جھیل کا پانی پیو۔ نوجوان پانی پینے لگا، تو درویش نے پوچھا بتاؤ اس کا ذائقہ کیسا ہے، کیا اب بھی تمہیں یہ کھارا لگ رہا ہے ؟ نوجوان بولا نہیں ، یہ تو میٹھا ہے۔ بہت اچھا ہے۔ درویش نوجوان کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا ہمارے دکھ بالکل اسی نمک کی طرح ہیں ۔ جتنا نمک گلاس میں ڈالا تھا اتنا ہی جھیل میں ڈالا ہے۔ مگر گلاس کا پانی کڑوا ہو گیا اور جھیل کے پانی کو مٹھی بھر نمک سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح انسان بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تکلیفوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ جب تمھیں کوئی دکھ ملے تو خود کو بڑا کر لو، گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ۔ اللہ تعالی کسی پر اس کی ہمت سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ جتنے بھی دکھ آئیں ہماری برداشت سے بڑھ کر نہیں ہوں گے 💜
Показать все...
رُکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں شبِ وصال کا جیسے خُمار آنکھوں میں مٹا سکے گی اسے گردِ ماہ و سال کہاں کھنچی ہوئی ہے جو تصویرِ یار آنکھوں میں بس ایک شب کی مسافت تھی اور اب تک ہے مہ و نجوم کا سارا غبار آنکھوں میں ہزار صاحبِ رخش صبا مزاج آئے بسا ہوا ہے وہی شہ سوار آنکھوں میں وہ ایک تھا پہ کیا اس کو جب تہِ تلوار تو بٹ گیا وہی چہرہ ہزار آنکھوں میں پروین شاکر
Показать все...
‏زلزلے سیلاب آئے اب کون سا عذاب آئے جاہلوں کی بستی میں کیسے انقلاب آئے شر سے نہاتے ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں بے بسی پر ہنستے ہیں قہقہے لگاتے ہیں بے حسی ہے مشغلہ شوقیہ دکھاتے ہیں نا حق خون بہاتے ہیں اس پر دندناتے ہیں عصمتوں کو لوٹ کر بازار میں پھراتے ہیں ‏فساد کر کے برپا یہ جشن بھی مناتے ہیں ان کو بھی تو مرنا ہے کس بات پر اتراتے ہیں خدا خدا بھی کرتے ہیں اسی کو بھول جاتے ہیں شاعر:- نا معلوم جس کسی ساتھی کو شاعر کا نام معلوم ہو تو کمنٹ باکس میں لکھیے۔ شکریہ
Показать все...
Выберите другой тариф

Ваш текущий тарифный план позволяет посмотреть аналитику только 5 каналов. Чтобы получить больше, выберите другой план.