cookie

ما از کوکی‌ها برای بهبود تجربه مرور شما استفاده می‌کنیم. با کلیک کردن بر روی «پذیرش همه»، شما با استفاده از کوکی‌ها موافقت می‌کنید.

avatar

مدرسہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

Madrasa Abuzar Ghifari RZ. Add. Razapur Naugawa Town. Behat Distt. Saharanpur. Uttar Pradesh 247121 رابطہ منتظم https://t.me/Mufti_Ibrahim_Ghifari Donate to the Madrasa PUNJAB NATIONAL BANK 2063000100323743 IFSC. PUNB0206300

نمایش بیشتر
پست‌های تبلیغاتی
369
مشترکین
اطلاعاتی وجود ندارد24 ساعت
اطلاعاتی وجود ندارد7 روز
-430 روز

در حال بارگیری داده...

معدل نمو المشتركين

در حال بارگیری داده...

Repost from N/a
_________________________________ 📙مکتبہ #تاریخ_فلسطین و #القدس📙 _________________________________ (56) تاریخ اورشلیم https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8841 (57) فضائل القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8843 (58) القدس امانۃ عمر فی انتظار صلاح الدین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8845 (59) ھکذا ظھر جیل صلاح الدین و ھکذا عادت القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8847 (60) القدس فی القلب والذاکرۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8849 (61) القدس بین الوعد الحق والوعد المفتری https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8851 (62) تاریخ القدس بین تضلیل الیھود و تضییع المسلمین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8853 (63) نور الدین محمود زنکی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8855 (64) العلمانیون و فلسطین ستون عاما من الفشل https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8857 (65) الصلیبیۃ الجدیدۃ فی فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8859 (66) فلسطین و اکذوبۃ بیع الارض https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8861 (67) مسئلہ فلسطین سامراج اور عالم اسلام https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/658 (68) فضیلت بیت المقدس اور فلسطین و شام https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/673 (69) بیت المقدس اور فلسطین حقائق و سازشوں کے آئینہ میں https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/656 (70) سیرت صلاح الدین الایوبی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8884 (71) سر زمین شام https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8891 (72) سفر نامہ بیت المقدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8893 (73) روز غضب زوال اسرائیل پر انبیاء کی بشارتیں توراتی صحیفوں کی اپنی شہادت https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8898 (74) مسجد اقصی ہمارے دلوں میں https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8900 (75) عالم عربی کا المیہ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8904 (76) رپورٹ وفد فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8906 (77) فلسطین مسجد اقصی اور دیوار گریہ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8908 (78) عرب اور اسرائیل https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8910 (79) لہو و رنگ فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8912 (80) قدس کو یہودی شہر بنانے کی کوشش https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8914 (81) خونریز صلیبی جنگوں کے سربستہ راز https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8916 (82) مسجد اقصی سے ایک انٹرویو https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8918 (83) مسجد اقصی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8920 (84) عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8922 (85) سلطان صلاح الدین ایوبی کی یلغاریں https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8924 (86) فاتح بیت المقدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8926 (87) سلطان نور الدین محمود زنگی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8928 (88) مجلہ : ماہنامہ شاہراہ علم خصوصی : مسجد اقصی نمبر ادارہ : جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8783 (89) مسجد اقصی صہیونی سازشوں کے نرغہ میں سید ومییض احمد ندوی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8785 (90) تاریخ بیت المقدس مصنف۔مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8775 (91) تاریخ بیت المقدس مؤلف۔ممتاز لیاقت https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8777 (92) بیت المقدس اور فلسطین عنایت اللہ وانی ندوی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8779 (93) فضیلت بیت المقدس اور فلسطین وشام https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8781 (94) مسئلہ فلسطین ۔ سامراج اور عالم اسلام https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8735 (95) اقصی کے آنسوں https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/695 (96) فلسطین میں موساد کی دہشتگردی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/693
نمایش همه...
Repost from N/a
_________________________________ 📙مکتبہ #تاریخ_فلسطین و #القدس📙 _________________________________ (1)تاریخ فلسطین القدیم https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/652 (2) القدس بین مخططات التہوید الصہیونیۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/654 (3) السیاسۃ الخارجیۃ الامریکیۃ تجاہ القضیۃ الفلسطینیۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8867 (4) بزیطانیا و فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8871 (5) الحروب الصلیبیۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/660 (6) اسلامیۃ الصراع حول القدس و فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/662 (7) تاریخ الحملۃ الی القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/664 (8) القدس قضیۃ کل مسلم https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/666 (9) فضائل القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/668 (10) فضیلت المسجد الاقصی 2 جلد https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/670 (11) قرار تقسیم فلسطین و اتفاقیات اخری https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8869 (12) سوناتا لاشباح القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/675 (13) الارھاب الصہیونی فی فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8874 (14) فلسطین لن تضیع، کیف؟ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8863 (15) فلسطین فی العہد العثمانی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/681 (16) حقائق یجب ان یعلمھا کل مسلم https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/683 (17) الانس الجمیل بتاریخ القدس القدیم https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/685 (18) القدس العظیم و ماذا عن تل ابیب https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/687 (19) القدس مدینۃ اللہ ام مدینۃ داؤد؟ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/689 (20) تاریخ فلسطین القدیم من خلال علم الآثار https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/691 (21) دراسات فی تاریخ و آثار فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8876 (22) تاریخ المسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8880 (23)فلسطین و جاراتھا https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8608 (24) لیس للیھود حق فی فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8610 (25) فلسطین بین الحقائق والاباطیل https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8878 (26) فضائل و تاریخ المسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8882 (27) الاستتراجیۃ الصہیونیۃ تجاہ مدینۃ القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8886 (28) فلسطین الشہید https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8888 (29) بیت المقدس و ما حولہ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8770 (30) قبل ان یھدم الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8801 (31) فلسطین واجبات الامۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8865 (32) المسلمون و قضیۃ فلسطین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8902 (33) خریطۃ فلسطین التاریخیۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8896 (34) القدس والمسجد الأقصى المبارك حق عربي وإسلامی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8788 (35) ذریۃ ابراہیمؑ والمسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8790 (36) المسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8792 (37) صلاح الدین الایوبی محرر القدس من الصلیبیین https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8794 (38) الأقصى بين العدوان المبين والخذلان المهين https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8799 (39) انتفاضہ الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8797 (40) المسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8803 (41) المسجد الاقصی اربعون معلوما نجھلھا https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8805 (42) المسجد الاقصی و دعوۃ الرسل https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8807 (43) مختصر الاستسقاء لاخبار المغرب الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8809 (44) اطلس معالم المسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8811 (45) اتحاف الاخصاء بفضائل المسجد الاقصی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8816 (46) المسجد الاقصی المبارک والھیکل المزعوم https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8818 (47) طبقات المسجد الاقصی والصخرۃ المشرفۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8820 (48) عودۃ القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8822 (49)القدس الشریف فی العھد العثمانی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8826 (50) الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8828 (51) القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8830 (52) القدس مسری النبی و قبلۃ القلب الأبی https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8833 (53) القدس والخلیل فی الرحلات المغربیۃ https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8835 (54) المفصل فی تاریخ القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8837 (55) تاریخ القدس https://t.me/Al_Maktabatul_Ghifari/8839
نمایش همه...
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”علم اور اہلِ علم کی توہین ہے کہ استاد کو پڑھانے کیلیے گھر بلایا جائے۔“ (مسند المؤطا للجوهري : ١١٢) جب ہارون الرشید مدینہ آیا تو اس نے امام مالک رحمہ اللہ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس آ کر مؤطا کی قراءت کریں۔ امام صاحب نے جواب بھجوایا : ”علم کے پاس خود جایا جاتا ہے، علم کو اپنے پاس نہیں بلایا جاتا۔“ (ترتيب المدارك للقاضي عياض : ٢١/٢) بخاری کے گورنر نے امام بخاری رحمہ اللہ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس تشریف لائیں تاکہ میں آپ کی کتابیں سنوں۔ امام صاحب نے قاصد سے فرمایا : ”میں علم کو ذلیل نہیں کرتا کہ لوگوں کے دروازوں پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو ضرورت ہے تو میرے گھر یا میری مجلس میں آ جانا۔“ (تاريخ بغداد : ٣٤٠/٢) حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس معنی کے آثار جمع کر کے اُن پر باب باندھا ہے : "إِعْزَازُ الْمُحَدِّثِ نَفْسَهُ وَتَرَفُّعُهُ عَنْ مُضِيِّهِ إِلَى مَنْزِلِ مَنْ يُرِيدُ السَّمَاعَ مِنْهُ" ”محدث کا اپنی عزتِ نفس کا پاس رکھنا اور گھروں میں جا جا کر حدیث سنانے سے باز رہنا۔“ (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع : ٣٦٩/١) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”عالم کو چاہیے کہ علم کی حفاظت کرے، اسے ہر ایرے غیرے کے پاس نہ لے جایا کرے بالخصوص امراء کے ہاں!“ (الآداب الشرعية لابن مفلح : ٥٠/٢) قاضی علی بن عبدالعزيز الجرجانی رحمہ اللہ (٣٩٢ھ) کے اشعار ہیں : وَلَمْ أَبْتَذِلْ فِي خِدْمَةِ الْعِلْمِ مُهْجَتِي لِأَخْدُمَ مَنْ لَاقَيْت لَكِنْ لِأُخْدَمَا میں نے علم کی خاطر اپنا خونِ دل اس لیے نہیں راکھ کیا تھا کہ دوسروں کی چاکری کرنے لگوں، بلکہ اس لیے کہ دوسرے میرے پاس آئیں۔ أَأَشْقَى بِهِ غَرْسًا وَأَجْنِيهِ ذِلَّةً إذًا فَاتِّبَاعُ الْجَهْلِ قَدْ كَانَ أَحْزَمَا کیا میں نے علم کا بیج بونے میں اس لیے جان کھپائی کہ ذلت کا پودا کاشت کروں؟! پھر تو جاہل رہ جانا بہت عقل مندی کا فیصلہ تھا۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوهُ صَانَهُمْ وَلَوْ عَظَّمُوهُ فِي النُّفُوسِ لَعُظِّمَا اگر اہلِ علم اس علم کی حفاظت کرتے تو یہ ان کی حفاظت کرتا، اور اگر اہلِ علم دلوں میں اس کی عظمت بٹھاتے تو بیٹھ جاتی! وَلَكِنْ أَهَانُوهُ فَهَانَ وَدَنَّسُوا مُحَيَّاهُ بِالْأَطْمَاعِ حَتَّى تَجَهَّم مگر انہوں نے خود علم کو رُسوا کیا سو وہ ہو گیا، اور انہوں نے علم کے حسین مکھڑے کو دنیا کی لالچ مَل مَل کر بدنما کر دیا۔ (أدب الدنيا والدين للماوردي : ٨٣) http://t.me/Madrasaabuzarghifarirz
نمایش همه...
​​امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”علم اور اہلِ علم کی توہین ہے کہ استاد کو پڑھانے کیلیے گھر بلایا جائے۔“ (مسند المؤطا للجوهري : ١١٢) جب ہارون الرشید مدینہ آیا تو اس نے امام مالک رحمہ اللہ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس آ کر مؤطا کی قراءت کریں۔ امام صاحب نے جواب بھجوایا : ”علم کے پاس خود جایا جاتا ہے، علم کو اپنے پاس نہیں بلایا جاتا۔“ (ترتيب المدارك للقاضي عياض : ٢١/٢) بخاری کے گورنر نے امام بخاری رحمہ اللہ کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس تشریف لائیں تاکہ میں آپ کی کتابیں سنوں۔ امام صاحب نے قاصد سے فرمایا : ”میں علم کو ذلیل نہیں کرتا کہ لوگوں کے دروازوں پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو ضرورت ہے تو میرے گھر یا میری مجلس میں آ جانا۔“ (تاريخ بغداد : ٣٤٠/٢) حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس معنی کے آثار جمع کر کے اُن پر باب باندھا ہے : "إِعْزَازُ الْمُحَدِّثِ نَفْسَهُ وَتَرَفُّعُهُ عَنْ مُضِيِّهِ إِلَى مَنْزِلِ مَنْ يُرِيدُ السَّمَاعَ مِنْهُ" ”محدث کا اپنی عزتِ نفس کا پاس رکھنا اور گھروں میں جا جا کر حدیث سنانے سے باز رہنا۔“ (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع : ٣٦٩/١) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”عالم کو چاہیے کہ علم کی حفاظت کرے، اسے ہر ایرے غیرے کے پاس نہ لے جایا کرے بالخصوص امراء کے ہاں!“ (الآداب الشرعية لابن مفلح : ٥٠/٢) قاضی علی بن عبدالعزيز الجرجانی رحمہ اللہ (٣٩٢ھ) کے اشعار ہیں : وَلَمْ أَبْتَذِلْ فِي خِدْمَةِ الْعِلْمِ مُهْجَتِي لِأَخْدُمَ مَنْ لَاقَيْت لَكِنْ لِأُخْدَمَا میں نے علم کی خاطر اپنا خونِ دل اس لیے نہیں راکھ کیا تھا کہ دوسروں کی چاکری کرنے لگوں، بلکہ اس لیے کہ دوسرے میرے پاس آئیں۔ أَأَشْقَى بِهِ غَرْسًا وَأَجْنِيهِ ذِلَّةً إذًا فَاتِّبَاعُ الْجَهْلِ قَدْ كَانَ أَحْزَمَا کیا میں نے علم کا بیج بونے میں اس لیے جان کھپائی کہ ذلت کا پودا کاشت کروں؟! پھر تو جاہل رہ جانا بہت عقل مندی کا فیصلہ تھا۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوهُ صَانَهُمْ وَلَوْ عَظَّمُوهُ فِي النُّفُوسِ لَعُظِّمَا اگر اہلِ علم اس علم کی حفاظت کرتے تو یہ محفوظ رہتا، اور اگر اہلِ علم دلوں میں اس کی عظمت بٹھاتے تو بیٹھ جاتی! وَلَكِنْ أَهَانُوهُ فَهَانَ وَدَنَّسُوا مُحَيَّاهُ بِالْأَطْمَاعِ حَتَّى تَجَهَّم مگر انہوں نے خود علم کو رُسوا کیا سو وہ ہو گیا، اور انہوں نے علم کے حسین مکھڑے کو دنیا کی لالچ مَل مَل کر بدنما کر دیا۔ (أدب الدنيا والدين للماوردي : ٨٣) https://whatsapp.com/channel/0029Va4Ow8qInlqSJbGemE2H
نمایش همه...
مدرسہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

WhatsApp Channel Invite

👍 1
اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجری سے کیوں عیسوی شمسی سال کے برعکس اسلامی قمری سال کا آغاز ولادت النبی کے بجائے ہجرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے میں زبردست حکمت ومصلحت ہے جب امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے اسلامی تقویم کا معاملہ آیا اور اسلامی سال شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ہجرت کو معیار بنایا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مکی زندگی، تعذیب وتکلیف ابتلاء وآزمائش، نفرت وعداوت، تعصب و منافرت سے دوچار ہونے مصائب و آلام، شدائد ومحن کاسامنے کرنے میں گذری ہے قدم قدم پر مخالفت ومعاندت ہوتی تھی، ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے جاتے تھے فتنہ انگیزیاں اور بہتان تراشیاں ہوتی تھیں، اسلام کے چراغ کو گل کرنے کی سازشیں، آفتاب رسالت کو معدوم کرنے کے منصوبے بنائے جاتے تھے تیرہ سال تک جس قسم کے ہولناک مظالم کا سامنا فداکارانِ محمد اور مظلومانِ اسلام نے کیا اس کو پڑھ کر سن کر دل لرزنے لگتا ہے زندگی کیا تھی بس درندوں، وحشیوں کے درمیان انسانیت، شرافت، عزت پس رہی تھی جب قوت برداشت نہ رہی، پیمانہ صبر چھلکنے پر آمادہ تھا اور پائے استقامت میں تزلزل کا خطرہ پیدا ہوگیاتو اللہ رب العزت نے مکہ چھوڑ کر دوسرے شہر مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیدیا، اہلِ ایمان نے اللہ ورسول کے سرمایہ کو بچانے کیلئے دولت و ثروت اور جاگیر وجائداد مادی سرمایہ جوش وشوق سے چھوڑنا گوارہ کرکے اپنی ایمانی صلابت اور اللہ ورسول سے سچی محبت کا ثبوت دیا ہجرت کے بعد مدنی زندگی شروع ہوتی ہے جو انصار مدینہ کی مہاجرین واسلام کی قدم قدم پر نصرت واعانت اور حق کیلئے ایثار و قربانی سے عبارت ہے دنیا نے مکہ میں اپنوں کی ستم ظرفیاں اور دشمنیاں دیکھی تھیں تو مدینہ میں غیروں کی محبتیں و الفتیں بھی دیکھ رہے تھے۔ مکہ میں تکذیب و تضحیک تھی تو مدینہ میں تصدیق و تقریب بھی، مکہ میں نفرت وعداوت تھی تو مدینہ میں محبت واخوت تھی، مکہ میں بندش ورکاوٹ تھی تو مدینہ میں آزادی عمل اور حریت تبلیغ تھی۔ مکہ میں بائیکاٹ وقطع رحمی تھی تو مدینہ میں جوڑنا اور صلہ رحمی تھی۔ مکہ میں شعلہ باری تھی تو مدینہ میں گل پاشی تھی۔ مکہ سے اخراج تھا تو مدینہ میں والہانہ استقبال ہورہا تھا۔ گویا ہجرت النبی اسلام کی نشر واشاعت اور دین کی دعوت و تبلیغ کا مرکز اولین تھا، مسلمانوں کے اتحاد وملت اوراتفاق امت کا محور تھا یہیں سے اسلام کی دعوت کا پرچم بلندہونا شروع ہوا اور مسلمانوں میں شوکت کے دور کا آغاز ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سچے پکے مخلص اصحاب ملے جنھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے بانی اسلام کی حفاظت فرمائی آپ کے ادنیٰ سے اشارے پر فخروناز سے اپنی گردنیں کٹوائیں، آپ کی محبت میں اولاد و اقارب کی محبت کو قربان کردیا پھر بھی کہا ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ اسی لئے تو آقا مدنی فداہ أبی وامی صلى الله عليه وسلم نے انصار مدینہ کی ناز برداری فرمائی ہے ان کے حق میں خیروبرکت کی دعائیں دیں اور خلفاء راشدین سے فرمایا ہے کہ انصار سے اگر کہیں لغزش بھی ہوجائے تو مواخذہ مت کرنا اس لئے کہ انھوں نے میری اور اسلام کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ اپنوں نے نکالدیا تھا۔ آپ نے یہ تاریخی جملہ انصار کیلئے ارشاد فرمایا لولا الہجرة لکنتُ امرأ من الانصار(۱) الانصارُ شعارٌ والناسُ دثارٌ کہ اگر ہجرت مقدر نہ ہوتی تو میں انصار مدینہ کا ہی ایک فرد ہوتا۔ انصار شعار یعنی اصل میں اور تمام لوگ دثار یعنی وقتی ساتھ والے ہیں۔ یہی وہ حکمتیں ومصلحتیں ہیں جن کے باعث ہجرت کو معیار بنایا گیا کہ اس سے اسلامی عظمت کاآغاز ہوتاہے اسلامی اتحاد کی ابتدا ہوتی ہے اور اسلامی اخوت ومساوات کی شروعات ہوتی ہے۔ https://whatsapp.com/channel/0029Va4Ow8qInlqSJbGemE2H
نمایش همه...
تک چل نہیں سکا مگر مجھے تھوڑا بہت حوصلہ حاصل ہوگیا۔ یاد رکھیں!اگر کوئی ہمارے لکھے پر خوش آئند تبصرہ کرے تو سیروں خون بڑھتا ہے لیکن اگر کوئی تنقید کر ے تو ہم بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں،دلبرداشتہ نہ ہوں،تحمل سے کام لیں،دوسروں کی تنقید کواپنی اصلاح کاذریعہ سمجھیں اورخود میں بہتری پیدا کریں۔ میں سمجھتا ہوں زندگی کے کسی بھی شعبے،کسی بھی کام میں تنقید کے بغیر ہمارے اندر کبھی نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔ نئے لکھنے والوں کے لیے یاد رکھنے کی بات ہے کہ شروع میں ہی کالم نگاری کے میدان میں طبع آزمائی کی بجائے چھوٹی موٹی تحاریر لکھنے سے آغاز کریں، چاہے ایک پیراہی ہو مگر اس میں دوسروں کے لیے کوئی سبق ہویا پیغام ہو۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹا ساخاکہ پیش خدمت ہے۔ بیٹا: باباجانی! آپ گھر کے پا س والی مسجد چھوڑ کر اتنی دور کیوں نماز پڑھنے جاتے ہیں؟ باپ: بیٹا ہماری قریبی مسجد دوسریمسلک کی ہے اس لیے میں اتنی دور نماز پڑھنے جاتا ہوں۔ بیٹا: باباجانی! بیت اللہ میں تو سبھی لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں پھر ہمارے ہاں مسجدیں الگ کیوں ہیں؟ باپ:۔۔۔۔۔۔بیٹا سوجاؤ صبح سکول بھی جانا ہے۔ یہ چھوٹا ساخاکہ اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے، اگر چند الفاظ ہی آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب بن جائیں تو میں سمجھتا ہوں بہت لمبی چوڑی تحریر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔میرا یہ سب باتیں کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر آپ بھی میری طرح اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ لکھیں مگر کیسے تو میری یہ تحریر آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگی۔اس لیے اس سے فائدہ اٹھائیں، عزم کریں اور قلم اٹھالیں۔ اللہ کریم ہم سب کو ہمارے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔
نمایش همه...
لکھیں ۔۔مگر کیسے؟۔۔۔۔محمد راشد ندیم https://whatsapp.com/channel/0029Va4Ow8qInlqSJbGemE2H میں سمجھتا ہوں میرا کچھ کہنا ذرّہ بے نشاں کے مترادف ہوگا مگر پھر بھی لب پر آئی بات دوسروں تک پہنچادینے میں مضائقہ نہیں سمجھتا۔ جواحباب کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگرلکھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، اس سوچ میں بیٹھے ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں اورکیسے لکھیں۔۔جو لوگ اخبارات میں لکھ رہے ہیں وہ تو نامور،تجربہ کار لکھاری ہیں، ہم نے کچھ لکھ کر بھیجا تو کہیں مذاق نہ اُڑایاجائے وغیرہ۔ ان لوگوں کے لیے اپنی ناقص رائے کے مطابق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ہم اکثر بازار جاکر کسی چیز کے لیے سیلزمین سے اچھی خاصی بحث کرلیتے ہیں، کھڑے کھڑے کسی بھی چیز کی کوالٹی پر اپنی رائے دے لیتے ہیں، خبروں پر تبصرہ کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں؟ وجہ صرف اور صرف وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ لکھنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے۔ ہم سکول پڑھتے تھے تو امتحانات کے دوران کچھ کہانیاں اور مضامین لکھاکرتے تھے جن میں پیاسا کوا، گائے، میری کتاب، کرسی“ وغیرہ چند ایسے مضامین ہوتے تھے جو کتاب کے مطابق ہوبہو لکھنے ہوتے تھے اگر کر سی کی چار ٹانگوں کی بجائے تین لکھ دیتے تو نمبر کٹ جاتے تھے مگر ”ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال“ ایسا مضمون تھاجو ہم اپنے الفاط میں لکھتے، جو ذہن میں آتا لکھتے، کوئی میچ کے دوران تالیاں بجانے کا ذکر کرتا اور کوئی سیٹیاں بجانے کا، کسی نے میچ دیکھنے کے دوران سموسے کھائے ہوتے اورکوئی ٹھنڈی بوتلیں پیتا،ہر کسی نے الگ ہی واقعہ لکھا ہوتا مگر نمبر سب کے پورے آتے۔ وہیں سے ہم پر ادراک ہوا تھا کہ اگر ہم کچھ لکھنا چاہیں اورسمجھ نہ آئے کیا لکھیں تو شروعات ایسے واقعات سے ہوسکتی ہے، کسی میچ کا،سفر کا، تقریب کا احوال لکھیں، شہر میں رہائش پذیر ہیں تو مارکیٹ جاکر خریداری کا احوال، پکنک،سیروتفریح کا احوال۔ گاؤں میں رہتے ہیں تو کسی چوپال یا پنچائیت میں ہونے والے بحث و مباحثے کا حال، فصل کی بوائی کا،کٹائی کا احوال جو آپ دوسروں کو بتانا چاہیں تو بولنے کی بجائے لکھ کر بتا سکتے ہیں۔اس لیے اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں،ایسا کچھ بھی ہوتو ارادہ کریں،قلم اٹھائیں اور لکھنا شروع کردیں۔ بالکل نہ سوچیں کہ یہ سب لکھنے کا مقصد کیا ہے، یہ کہیں شائع نہیں ہوگا،کسی کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہوگی وغیرہ۔۔ضروری نہیں کہ جوبھی لکھا جائے ،کسی جگہ شائع کروانے کے لیے ہی لکھا جائے،ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں لکھنا آجائے،کچھ لکھیں تو وہ بامقصد ہو اور ہمارالکھا کسی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوجائے۔ بس لکھیں اور لکھتے جائیں،لکھنے کے دوران پیچھے نظر نہ دوڑائیں، لکھ چکیں تو پھر خوب غور سے جائزہ لیں کہ کتنے الفاظ ہیں جو دوسروں کو دکھائے جاسکتے ہیں، کتنے الفاظ ہیں جو حذف کر دیئے جائیں تو مضائقہ نہیں اورکتنے الفاظ ہیں جو حذف کرنے ضروری ہیں، اس کے بعد دوبارہ بقیہ تحریر پرنظر دوڑائیں اورجب آپ کو اطمینان ہوجائے ،تو پھر کسی کو پڑھنے اورنظر ثانی کے لیے دیں۔ اس سے کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ آپ ارد گر د کے ماحول پر گہری نظر ڈالنے لگیں گے، کچھ نیا تلاش کرنے کی جستجو میں لگ جائیں گے،آپ کو مطالعے کی عادت پڑجائے گی،لکھنے کا شوق پیدا ہوجائے گا اورآپ کی جھجک ختم ہوجائے گی اورایک دن آئے گاجب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہوگا، تحریر میں خود بخود روانی آجائے گی، اس فورم پر جناب مدثر سبحانی صاحب نے بہت بڑی بڑی علمی وادبی شخصیات کو آپ سب کی رہنمائی کے لیے اکٹھا کیا ہے ورآپ کو ان سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملے گا۔اگر ہم صرف اس سوچ کے ساتھ لکھیں گے کہ کسی اخبار میں ہماری تصویر کے ساتھ چھپ جائے اورلوگ ہمیں جاننے لگ جائیں تو کبھی ہمارے لکھنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ابھی ہمیں ضرورت ہی نہیں کچھ چھپوانے کی، ہم تو سیکھنے کے لیے آئے ہیں،جس دن ہم نے کچھ بامقصد لکھ لیا خود ہی کہیں نہ کہیں چھپا ہوا نظر آجائے گا۔ میں سمجھتا ہوں ابھی خود بھی اس میدان میں اترنے کے قابل نہیں ہوا،ابھی خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں،جو باتیں آپ لوگوں سے شیئر کیں خود بھی انہی پر عمل کرتا ہوں، بہت عرصہ غیر متحرک اور خاموش رہا اورلکھ کر ردی میں ڈالتا رہا مگر اب تھوڑی بہت آپ بیتیاں، مکالمے اورایسی اصلاحی تحریریں جو کسی کی زندگی میں بہتری لانے کا سبب بن سکیں کبھی کبھار لکھ لیتا ہوں۔میرا مزاج صحافتی نہیں مگرقصور کی معصوم بچی زینب کے دل دہلا دینے والے واقعے نے مجھ جیسے کم گو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اورمیں نے پہلی بار اخبار میں لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اوراس سانحے نے جتنا غبار میرے اندر بھر دیا تھا وہ سب کاغذ پر نکال دیا جو شائع بھی ہوا،اس وقت میرا مقصد صرف اورصرف یہ تھا کہ کوئی انسان ان محرکات پر غور کرلے جو ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں تو میرا لکھنے کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ اس کے بعد بھی چند ایک کالم شائع ہوئے مگر بوجہ مصروفیات یہ سلسلہ زیادہ وقت
نمایش همه...
مدرسہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

WhatsApp Channel Invite

شادی ہونے سے پہلے اپنی منگیتر سے فون پر بات کرنا کیسا ہے ؟ https://youtu.be/K1DwnNkjQos
نمایش همه...
Rishita hone ke baad ladki se baat karne ka hukm. अपनी मंगेतर से बात करना। Mufti Ibrahim Ghifari

رشتہ طے ہونے کے بعد منگیتر سے بات چیت کرنے کا حکم مفتی محمد ابراھیم غفاری بانی و مہتمم مدرسہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

عہدہ سقایہ اس کا منصب بھی حضرت عباس کے جدامجد جناب ہاشم کے سپرد تھا، ان کے بعد جناب عبدالمطلب، پھر ابو طالب اس کو انجام دیتے رہے۔مگر ابو طالب نے یہ عہد ہ بھی اپنی زندگی ہی میں اپنے بھائی حضرت عباس کی طرف منتقل کردیا۔ تعمیر کعبہ حضرت عباس کی عمر جب سولہ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں اتفاقیہ طور پر آگ لگ گئی ،جس کی وجہ سے عمارت مسمار ہوگئی، قریش نے جمع ہو اس کو بنانا شروع کیا تو ہر شخص کار ثواب سمجھ کراس کی تعمیر میں حصہ لینے لگا،حضرت عباس سب سے زیادہ اس میں حصہ لے رہے تھے۔ حضرت عباس کا نکاح حضرت عباس کا نکاح حضرت لبابة الکبریٰ سے ہوا، جو ام المومنین حضرت میمونہ  کی حقیقی بہن تھیں ،ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت لبابة الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل ہے ،یہ وہ پہلی خاتون ہیں جو حضرت خدیجہ کے بعد مسلمان ہوئیں اور بہت سی حدیثیں ان سے مروی ہیں اور ان کے بطن سے چھ لڑکے حضرت فضل،حضرت عبداللہ ،حضرت عبیداللہ،حضرت قثم،حضرت عبدالرحمن ، حضرت معبد اور ایک صاحب زادی جن کا نام حبیبہ  تھا، پیدا ہوئیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس کی اور بھی اولادیں تھیں،کل دس لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں ،سب سے آخر میں حضرت تمّام پیدا ہوئے۔ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے سرفراز ہوئے تو حضرت عباس کی عمر تینتالیس سال تھی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو جمع کیا،چوں کہ یہ حکم خداوندی تھا:﴿وأنذر عشیرتک الاقربین﴾یعنی اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں ۔اس لیے آپ نے اپنے خاندان کے تمام افراد کو جمع کیا اورایمان کی دعوت دی، جس پر ابوطالب ،حضرت حمزہ،حضرت عباس تو خاموش رہے، مگرابو لہب نے کہا کہ کیا تم نے اس کام کے لیے ہم کو بلایا تھا؟”تبالک“اور نازیبا الفاظ اس کے منہ سے نکلے، جس کے جواب میں”تبت یدا ابی لھب“نازل ہوئی۔ حضرت عباس کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں قبل الاسلام ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور بزرگی گھر کرچکی تھی، جب قریش نے بنو ہاشم کا بائیکاٹ کیا تو حضرت عباس بھی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب ابی طالب میں چلے گئے اور سخت سختیاں اٹھائیں،جب قریش کی سختیاں بام عروج کو پہنچ گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا ،مگر اولاً اپنے عم بزرگوار حضر ت عباس سے مشورہ لینے کی غرض سے ان کے پاس تشریف لے گئے ،کیوں کہ حضرت عباس ہی آپ کے خیر خواہ اور ہمدرد تھے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے عم! میں اپنا رازآپ سے کہتا ہو ں ،اس کو ظاہر نہ کیجیے کہ قریش سے کیسی سختیاں اور اذیتیں اٹھارہا ہوں ،اب صبر کرتے کرتے دل سرد ہوگیا ہے،ان کا راستی پر آنا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے ،میں نے اکثر چاہا کہ جب مختلف قبائل حج کے واسطے آتے ہیں ان کے ساتھ چلا جاؤں او وہاں جاکر اپنے دین کا اظہار کروں ،مگر کوئی نہ ملا، ہاں! البتہ یثرب کے چھ آدمی آئے تھے، وہ مسلمان ہوکر چلے گئے اور اب کے بارہ آدمی آئے ہیں اور مجھ سے بیعت کی ہے اور مسلمان ہوگئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ چلا جاؤں؟ حضرت عباس نے یہ سن کر کہا:”میں تم کو نیک مشورہ دیتا ہوں اور آئندہ ایسے امور میں ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیتا رہوں گا،میری یہ رائے ہے کہ تم ان بارہ آدمیوں کے ہم راہ نہ جاؤ، اس وجہ سے کہ مدینہ میں تقریباً دس ہزار کی آبادی ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جس شہر میں تنے آدمی ہوں اور پھر ان میں اختلاف بھی ہو ایسی حالت میں وہاں کے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ جاناٹھیک نہیں اور نہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں ،علاوہ ازیں آئندہ تم پھر واپس مکہ نہ آسکو گے، کیوں کہ یہاں سے جانے کے بعد تو یہ لوگ کھلم کھلا تمہاری جان کے دشمن ہوجائیں گے،اب تو جب تک تم یہاں ہو میں جاں نثاری کے لیے تیار ہوں ،مگر یاد رکھو! پوری قوم کا مقابلہ ہے،ہاں! تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کوان کے ساتھ مدینہ روانہ کردو، وہ وہاں جاکر تمہاری نیابت کرے اور لوگوں کو تمہارے دین کی طرف رغبت دلائے اور جب وہاں کے لوگ تمہارے دین کے گرویدہ ہوجائیں تو اس وقت وہاں جانا مناسب ہوگا اور اگر وہ لوگ تمہارے دین کے گرویدہ نہ ہوں تو تم اپنے قبیلے سے الگ تو نہیں ہو گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اسی پر کار بند ہوئے اور حضرت مصعب بن عمیر کو، جوآپ کے چچا زاد بھائی تھے، ان کو ساتھ بھیج دیا۔حضرت مصعب بن عمیر نے جاکر وہاں تبلیغ اسلام کی اور آخرکارآپ کی کوششوں سے سعد بن معاذ  مشرف باسلام ہوگئے اورحضرت سعد کی وجہ سے تمام بنی الاشہل مسلمان ہوگئے اور حج کے موقع پر اسی افراد مکہ آئے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع حضرت عباس کو دی، حضرت عباس  نے فرمایا : آپ ان کے پاس چلیں، میں بھی آتا ہو ں اور یہ دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے آدمی ہیں اور وہ لوگ قابل اعتماد ہیں کہ نہیں؟
نمایش همه...
یک طرح متفاوت انتخاب کنید

طرح فعلی شما تنها برای 5 کانال تجزیه و تحلیل را مجاز می کند. برای بیشتر، لطفا یک طرح دیگر انتخاب کنید.