cookie

ما از کوکی‌ها برای بهبود تجربه مرور شما استفاده می‌کنیم. با کلیک کردن بر روی «پذیرش همه»، شما با استفاده از کوکی‌ها موافقت می‌کنید.

avatar

🗞❈Alami Sahara News india❈🌍❈عالمی سہارا نیوز❈📰🌍

روزنامہ اردو،ہنڈی،انگلش،پنجابی،مراٹھی وغیرہ زبان کی اخبارات اور ماہ نامہ رسالہ PDF کی شکل میں اور ویڈوز آڈیو پیش کیا جاتا ہے.اپ اور اپنے دوست کو بھی استفادہ حاصل کرنے کاموقعہ عنایت فرماٸے ⚜️

نمایش بیشتر
پست‌های تبلیغاتی
438
مشترکین
اطلاعاتی وجود ندارد24 ساعت
+17 روز
اطلاعاتی وجود ندارد30 روز

در حال بارگیری داده...

معدل نمو المشتركين

در حال بارگیری داده...

مبارک نسبی اور خاندانی تعارف.pdf8.38 KB
حضور پاکﷺکی تشریف آوری.pdf2.90 KB
ارہاصاتِ نبوت (1).pdf1.29 MB
*(1):توحید فی الذات:* اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ *(2): توحید فی الصفات:* اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں اکیلا ہے، صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ *فائدہ:* صفات کی دو قسمیں ہیں: محکمات اور متشابہات۔ صفات محکمات وہ صفات ہیں جن کا معنی ظاہر اور واضح ہے مثلاً سمع ، بصر ، علم، قدرت وغیرہ ، اور صفات متشابہات صفات ہیں جن کے معانی غیر واضح اور مبہم ہیں، عقل انسانی کی وہاں تک رسائی نہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ید ، وجہ ، عین وغیرہ کلمات یہ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات ہیں۔ ان صفات متشابہات کے ظاہری معانی بالکل مراد نہیں۔ پھر متقدمین اھل السنۃ والجماعۃ ان صفات کا معنی بیان نہیں کرتے بلکہ ان کا معنی اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں جبکہ متاخرین اھل السنۃ والجماعۃ ان صفات کا معنی درجہ یقین میں نہیں بلکہ درجہ ظن میں کرتے ہیں تاکہ عوام الناس فرقہ مجسمہ (جو اللہ تعالیٰ کے لیے جسم مانتے ہیں) کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔ *(3):توحید فی الاسماء:* اللہ تعالیٰ اپنے ناموں میں یکتا ہے۔ *فائدہ:* بعض اسماء ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے رحمٰن، عالم الغیب، مختار کل، قادر مطلق، مشکل کشا، حاجت روا وغیرہ۔ ان اسماء کو مخلوق کے لیے بولنا جائز نہیں۔ بعض اسماء ایسے ہیں جو مخلوق پر بھی بولے گئے ہیں جیسے سمیع، بصیر، متکلم وغیرہ۔ مخلوق کے لیے ان اسماء کا معنی یہ ہے کہ مخلوق سننے میں کان کی، دیکھنے میں آنکھ کی، بولنے میں زبان کی محتاج ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ یوں نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سنتے ہیں لیکن کان کے محتاج نہیں، بصیر یعنی دیکھتے ہیں لیکن آنکھ کے محتاج نہیں، متکلم یعنی بولتے ہیں لیکن زبان کے محتاج نہیں۔تو ان اسماء کا جو معنی مخلوق کے لیے ہے وہ معنی اللہ تعالیٰ کے لیے ہرگز مراد نہیں۔اس لیے معنی خاص کے اعتبار سے یہ اسماء بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔
نمایش همه...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----06 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *بسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ* [٭]: ھٰذَا مَا رَوَاہُ الْإِمَامُ أَبوْ جَعْفَرِ نِ الطَّحَاوِيُّ -رَحِمَهُ اللهُ- فِیْ ذِكْرِ بَيَانِ اعْتِقَادِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ عَلٰى مَذْهَبِ فُقَهَاءِ الْمِلَّةِ: أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ الْكُوْفِيِّ وَأبِيْ يُوْسُفَ يَعْقُوْبَ بْنِ إِبْرَاهِيْمَ الْأَنْصَارِيِّ وَأبِيْ عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيِّ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أجْمَعِيْنَ وَمَا يَعْتَقِدُوْنَ مِنْ أُصُوْلِ الدِّيْنِ وَيَدِيْنُوْنَ بِهٖ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. قَالَ الْإِمَامُ وَبِہٖ قَالَ الْإِمَامَانِ الْمَذْکُوْرَانِ: نَقُوْلُ فِيْ تَوحِيْدِ اللهِ مُعْتَقِدِيْنَ بِتَوفِيْقِ اللهِ: *ترجمہ:* یہ اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کا بیان ہے جسے امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہائے ملت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی، امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری اور امام ابو عبد اللہ محمد بن الحسن الشیبانی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریق پر ذکر کیا ہے، اور یہی وہ باتیں ہیں جن کا یہ فقہائے ملت دین کے اصول کے طور پر اعتقاد رکھتے تھے اور رب العالمین کے بارے میں یہی ان کا دین (و ایمان) تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرات صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہا اللہ ) فرماتے ہیں: ہم توحید باری تعالیٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: *حاشیہ:* [٭]: جن عقائد کا بیان آگے آرہا ہے وہ اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد ہیں جو فقہاء ملت یعنی ائمہ ثلاثہ سے منقول ہیں اور انہی کے طریق پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
نمایش همه...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----07 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *توحید وصفات باری تعالیٰ* *متن عقیدہ1:* إِنَّ اللهَ تَعَالیٰ وَاحِدٌ لَا شَرِيْكَ لَهٗ *ترجمہ:* بے شک اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ *شرح:* *توحید کی اقسام:* مختلف حضرات نے توحید کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں: *(1):امام ابو عبد الله عبید الله بن محمد بن بَطَّۃ العَكْبَری الحنبلی (ت 387ھ)* لکھتے ہیں: أَنَّ أَصْلَ الْإِيْمَانِ بِاللهِ الَّذِيْ يَجِبُ عَلَى الْخَلْقِ اعْتِقَادُهٗ فِيْ إِثْبَاتِ الْإِيْمَانِ بِهٖ ثَلَاثَةُ أَشْيَاۗءَ: أَحَدُهَا: أَنْ يَعْتَقِدَ الْعَبْدُ إِنِّيَّتَهٗ لِيَكُوْنَ بِذٰلِكَ مُبَايِنًا لِمَذْهَبِ أَهْلِ التَّعْطِيْلِ الَّذِيْنَ لَا يُثْبِتُوْنَ صَانِعًا. وَالثَّانِيْ: أَنْ يَعْتَقِدَ وَحْدَانِيَّتَهٗ لِيَكُوْنَ مُبَايِنًا بِذٰلِكَ مَذَاهِبَ أَهْلِ الشِّرْكِ الَّذِيْنَ أَقَرُّوْا بِالصَّانِعِ وَأَشْرَكُوْا مَعَهٗ فِي الْعِبَادَةِ غيْرَهٗ. وَالثَّالِثُ: أَنْ يَعْتَقِدَهٗ مَوْصُوْفًا بِالصِّفَاتِ الَّتِيْ لَا يَجُوْزُ إِلَّا أَنْ يَكُوْنَ مَوْصُوْفًا بِهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْقُدْرَةِ وَالْحِكْمَةِ وَسَائِرِ مَا وَصَفَ بِهٖ نَفْسَهٗ فِيْ كِتَابِهٖ. (الابانۃ لابن بطۃ: الکتاب الثالث․ ج2 ص172، 173) *ترجمہ:* اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے بنیادی طور پر تین چیزیں ایسی ہیں جن پر بندوں کا پختہ یقین ضروری ہے: پہلی چیز: بندہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے، اس عقیدہ سے اھلِ تعطیل کے عقیدہ سے امتیاز ہو جائے گا جوصانعِ عالم کے وجود کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری چیز: یہ اعتقاد رکھے کہ باری تعالیٰ ایک ہے، اس سے مشرکین کے عقیدہ سے امتیاز ہو جائے گا جو صانع عالم کے وجو دکے تو قائل ہیں لیکن اس کی عبادت کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ تیسری چیز: بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات کے ساتھ موصوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جیسے علم، قدرت، حکمت اور دیگر صفات جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات کے لیے بیان فرمائی ہیں۔ *(2):علامہ محمد بن عبد الكريم بن ابی بكر احمد الشَهْرِسْتانی (ت548ھ)* لکھتے ہیں: إِنَّ اللهَ تَعَالٰى وَاحِدٌ فِيْ ذَاتِهٖ لَا قَسِيْمَ لَهٗ، وَ وَاحِدٌ فِيْ صِفَاتِهِ الْأَزَلِيَّةِ لَا نَظِيْرَ لَهٗ، وَ وَاحِدٌ فِيْ أَفْعَالِهٖ لَا شَرِيْكَ لَهٗ . (الملل والنحل: ج1 ص55) *ترجمہ:* اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے اس کا کوئی جزء نہیں، اپنی صفات ازلیہ میں یکتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں اور اپنے افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (3):بعض لوگوں نے توحید کی درج ذیل تین اقسام بیان کی ہیں اور اس تقسیم کو *علامہ تقی الدین احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ الحرانی الحنبلی (ت728ھ)* کی طرف منسوب کیا ہے۔ تین اقسام یہ ہیں: توحید فی الربوبیت: اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سارے جہان کو پالنے والی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی پالنے والا نہیں ہے۔ توحید کی اس قسم میں اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق، مدبر کائنات وغیرہ ماننا بھی شامل ہے۔ توحید فی الالوہیت: اللہ تعالیٰ کی ذات ہی لائق عبادت ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔ توحید فی الصفات: اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں واحد اور اکیلا ہے کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک نہیں جیسے عالم الغیب، مختار کل، قادر مطلق، مشکل کشا، حاجت روا وغیرہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، ان صفات کو کسی اور کے لیے ثابت کرنا جائز نہیں ہے۔ *(4):حضرت شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم محدث دہلوی ( ت1176ھ)* فرماتے ہیں: وَاعْلَمْ أَنَّ لِلتَّوْحِيْدِ أَرْبَعَ مَرَاتِبَ : إِحْدَاهَا : حَصْر وُجُوْبِ الْوُجُوْدِ فِيْهِ تَعَالىٰ ، فَلَا يَكُوْنُ غَيْرُهٗ وَاجِبًا . وَالثَّانِيَةُ : حَصْرُ خَلْقِ الْعَرْشِ وَالسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَسَائِرِ الْجَوَاهِرِ فِيْهِ تَعَالىٰ ، وَهَاتَانِ الْمَرْتَبَتَانِ لَمْ تَبْحَثِ الْكُتُبُ الْإِلٰهِيَّةُ عَنْهُمَا وَلَمْ يُخَالِفْ فِيْهِمَا مُشْرِكُو الْعَرَبِ وَلَا الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصَارَىٰ بَلِ الْقُرْآنُ الْعَظِيْمُ نَاصٍ عَلٰى أَنَّهُمَا مِنَ الْمُقَدَّمَاتِ الْمُسَلَّمَةِ عِنْدَهُمْ. وَالثَّالِثَةُ : حَصْرُ تَدْبِيْرِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْهِ تَعَالٰى . وَالرَّابِعَةُ : أَنَّهٗ لَا يَسْتَحِقُّ غَيْرُهُ الْعِبَادَةَ. (حجۃ اللہ البالغۃ: ج1 ص59 باب التوحید) *ترجمہ:* یہ بات جان لیں کہ توحید کے چار مراتب ہیں: اول: واجب الوجود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ذات واجب الوجود نہیں ہے۔
نمایش همه...
دوم: عرش، آسمان، زمین اور سارے جواہر (قائم بالذات اشیاء) کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ توحید کے یہ دو مرتبے کتب الہیہ میں بیان نہیں ہوئے کیونکہ ان دونوں مرتبوں میں مشرکین عرب نے مخالفت کی ہے نہ یہود نے اور نہ نصاریٰ نے بلکہ قرآن مجید نے تو اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ دو مرتبے ان لوگوں کے ہاں مسلّم تھے۔ سوم: آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کا نظام چلانے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ چہارم: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ *(5):شیخ عبد الغنی بن طالب الغنیمی المِیدانی الحنفی (ت1298ھ)* لکھتے ہیں: وَالْوَحْدَانِیَّۃُ صِفَۃٌ سَلْبِیَّۃٌ تُقَالُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَنْوَاعٍ: اَلْأَوَّلُ: الْوَحْدَۃُ فِی الذَّاتِ وَالْمُرَادُ بِھَا انْتِفَاءُ الْکَثْرَۃِ عَنْ ذَاتِہٖ تَعَالٰی بِمَعْنٰی عَدْمِ قُبُوْلِھَا الِانْقِسَامِ․ وَالثَّانِی: الْوَحْدَۃُ فِی الصِّفَاتِ ، وَالْمُرَادُ بِھَا انْتِفَاءُ النَّظِیْرِ لَہٗ تَعَالیٰ فِیْ کُلِّ صِفَۃٍ مِنْ صِفَاتِہٖ فَیَمْتَنِعُ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ تَعَالٰی عُلُوْمٌ وَقُدْرَاتٌ مُتَکَثِّرَۃٌ بِحَسْبِ الْمَعْلُوْمَاتِ وَالْمَقْدُوْرَاتِ بَلْ عِلْمُہٗ تَعَالٰی وَاحِدٌ وَمَعْلُوْمَاتُہٗ کَثِیْرَۃٌ وَقُدْرَتُہٗ وَاحِدَۃٌ وَمَقْدُوْرَاتُہٗ کَثِیْرَۃٌ وَعَلٰی ھٰذَا جَمِیْعُ صِفَاتِہٖ․ وَالثَّالِثُ: الْوَحْدَۃُ فِی الْأَفْعَالِ ، وَالْمُرَادُ بِھَا انْفِرَادُہٗ تَعَالٰی بِاخْتِرَاعِ جَمِیْعِ الْکَائِنَاتِ عُمُوْمًا وَامْتِنَاعِ إِسْنَادِ التَّاثِیْرِ لِغَیْرِہٖ تَعَالٰی فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْمُمْکِنَاتِ أَصْلًا․ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: 47) *ترجمہ:* ”وحدت“ سلبی صفت ہے اور اس کا اطلاق تین قسموں پر ہوتا ہے: پہلی: وحدت فی الذات، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے، اس کی ذات تقسیم نہیں ہو سکتی (یعنی ایسا نہیں کہ دو یا زائد چیزیں مل کر ذات باری تعالیٰ بنے) دوسری: وحدت فی الصفات، یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی مثال نہیں ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی صفت علم اور صفت قدرت کئی ہوں ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی ایک صفت ہے اور معلومات کئی ہیں، قدرت ایک صفت ہے اور مقدورات کئی ہیں، اسی طرح باقی صفات کا حال ہے۔ تیسری: وحدت فی الافعال، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات تنِ تنہا پیدا فرمائی ہے اور کسی بھی ممکن شے میں حقیقی تاثیر کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا جائز نہیں ہے۔ *(6):رئیس المناظرین حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد امین صفدراوکاڑوی (ت1421ھ)* فرماتے ہیں کہ صوفیاء کے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں: ۱:توحید ایمانی: لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ(اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں) اس کو مانے بغیر کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ ۲: توحید خواص: لَا مَقْصُوْدَ إِلَّا اللہُ (اللہ کے سوا کوئی چیز مقصود نہیں) کیونکہ ریاء کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے۔”توحید خواص“ کو ”توحید اخلاص“ بھی کہتے ہیں۔ ۳: توحید شہودی: لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ (اللہ کے سوا کوئی چیز موجود نہیں) جب کسی ولی کامل کو تجلیات باری کا مشاہدہ ہوتا ہے تو ان کو کوئی چیز نظر نہیں آتی، اس لیے وہ لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ پکارتے ہیں۔ توحید ایمانی (لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ) کا منکر کافر ہو گا۔ توحید خواص (لَا مَقْصُوْدَ إِلَّا اللہُ) کا منکر کافر نہیں کہلائے گا، ہاں غیر مخلص ہو گا۔ توحید شہودی(لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ ) کا منکر نہ کافر ہو گا اور نہ اخلاص سے خالی، صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص مقام مشاہدہ سے محروم ہے۔ (تریاق اکبر بزبان صفدر, ص420) توحید کی تقسیم کے متعلق اکابر ائمہ کی مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اکابرین نے توحید کی تین اور بعض نے چار قسمیں بیان کی ہیں۔نیز جنہوں نے تین قسمیں بیان کی ہیں ان کی ذکر کردہ اقسام بھی باہم مختلف ہیں۔ دراصل توحید کی تقسیم اور ان کی ذیلی اقسام میں اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں بلکہ محض تعبیرات کا اختلاف ہے۔تعبیرات کے اختلاف کو نفس توحید کا اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اقسامِ توحید کی تعبیرات منصوص نہیں بلکہ غیر منصوص ہیں۔اہلِ علم نے اپنے اپنے دور میں عوام الناس کو عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے اختیار کی ہیں اور عوام کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے مختلف اقسام میں منقسم کیا ہے۔پھر بعد کے دور کے علماء نے اپنے ذوق اور عوامی ضرورت کے پیش نظراقسام کی نئی تعبیرات اختیار کیں۔ یوں تعبیرات باہم مختلف ہوتی چلی گئیں۔ مقصود ان سب حضرات کا یہی تھاکہ توحید باری تعالیٰ مختلف جہات سے کھل کر واضح ہو اور شرک کسی گوشے سے عقیدہ توحید میں حائل نہ ہو سکے۔ *ہمارے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں:* 1: توحید فی الذات 2: توحید فی الصفات 3: توحید فی الاسماء
نمایش همه...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----04 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات(حصہ سوم)* *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام:* علامہ محمد امین بن عمر ابن عابدین شامی حنفی (ت1252ھ)نے لکھا ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد فی المسائل تھے جیسے امام ابو بکر احمد بن عمرو بن مہران خصاف (ت261ھ)، ابو الحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی (ت340ھ)، شمس الائمہ عبد العزیز بن احمد بن نصر بن صالح البخاری الحلوانی(ت456ھ)، فخر الاسلام علی بن محمد بن الحسین بن عبد الکریم البزدوی (ت482ھ)، شمس الائمہ امام محمد بن احمد بن ابی سہل السرخسی (ت483 ھ)، امام فخر الدین حسن بن منصور الاوزجندی المعروف قاضی خان (ت592ھ) ہیں، یعنی یہ حضرات اصول وفروع میں اپنے امام کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے اصول وقواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام کا استنباط کرتے ہیں جن کے بارے میں صاحبِ مذہب سے روایت نہ ہو۔ (رد المحتار لابن عابدین: ج 1 ص 181 مطلب فی طبقات الفقہاء) *آپ کے بارے میں اہلِ علم کی آراء:* *1:علامہ ابو سعید عبد الرحمٰن بن احمد بن يونس المصری (ت 347ھ) فرماتے ہیں:* وَكَانَ ثِقَةً ثَبْتًا فَقِيْهًا عَاقِلًا لَمْ يُخَلِّفْ مِثْلَهٗ․ (تاریخ ابن یونس المصری: ص22) *ترجمہ:* آپ ثقہ،قابل اعتماد اور صاحب عقل و دانش فقیہ تھے۔آپ کے بعد آپ کی مثل کوئی نہیں ہوا۔ *2:علامہ ابو الفرج محمد بن اسحاق النديم (ت438ھ)لکھتے ہیں:* وَكَانَ أَوْحَدَ زَمَانِهٖ عِلْمًا وَزُهْدًا. (الفہرست لابن ندیم: ص 260) *ترجمہ:* آپ اپنے زمانے میں علم اور عبادت میں یکتا تھے۔ *3:امام ابو عمر یوسف بن عبد الله ابن عبد البر القرطبی المالكی(ت463ھ) فرماتے ہیں:* كَانَ الطَّحَاوِيُّ كُوْفِيَّ الْمَذْهَبِ وَكَانَ عَالِمًا بِجَمِيْعِ مَذَاهِبِ الْفُقَهَاءِ (الجواہر المضیۃ لعبد القادر القرشی: ص72) *ترجمہ:* امام طحاوی مذہب کوفہ (فقہ حنفی) پر عمل پیرا تھےاور تمام فقہاءکے مذاہب کوجاننے والے ہیں۔ *4:علامہ شمس الدین ابو عبد لله محمد بن احمد بن عثمان ذہبی (ت748ھ) فرماتے ہیں:* اَلْحَافِظُ الْكَبِيْرُ مُحَدِّثُ الدِّيَارِ الْمِصْرِيَّةِ وَفَقِيْهُهَا... مَنْ نَظَرَ فِيْ تَوَالِيْفِ هٰذَا الْإِمَامِ عَلِمَ مَحِلَّهٗ مِنَ الْعِلْمِ وَسَعَةَ مَعَارِفِهٖ. (سیر اعلام النبلاء للذھبی: ج15 ص27) *ترجمہ:* آپ بڑے حافظ اور مصر کے شہروں کے محدث اور فقیہ تھے ۔جو شخص آپ کی کتابوں کو پڑھے دیکھے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ آپ کا علمی مقام بہت بلند اور معلومات کی وسعت بہت زیادہ تھی۔ *5:حافظ ابو الفداء اسماعیل بن خطیب ابن کثیر دمشقی شافعی (ت774ھ)فرماتے ہیں:* اَلْفَقِيْهُ الْحَنَفِيُّ صَاحِبُ الْمُصَنَّفَاتِ الْمُفِيْدَةِ وَالْفَوَائِدِ الْغَزِيْرَةِ وَهُوَ أَحَدُ الثِّقَاتِ الْأَثْبَاتِ وَالْحُفَاظِ الْجَهَابِذَةِ. (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ج11 ص186) *ترجمہ:* آپ حنفی فقیہ تھے، کئی ایک مفید اور نافع کتب تصنیف فرمائیں۔ ثقہ اور قابل اعتماد آدمی تھے اور ماہر ین حفاظ میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔
نمایش همه...
*📚شرح عقیدہ طحاویہ* 🔗قسط نمبر----05 ✍🏻:.....متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ ————————————— *امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات(حصہ چہارم)* *تصانیف:* امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: *1:احکام القرآن․․․․* یہ کتاب تفسیر میں آپ کی علمی مہارت کی دلیل ہے۔ 2جلدوں میں چھپی ہے لیکن نامکمل چھپی ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ ترکی کے مکتبہ وزیر کبریٰ میں رقم 814 کے تحت موجود ہے۔ *2:شرح معانی الآثار ․․․․* یہ آپ کی پہلی تصنیف ہے۔ اسے آپ نے فقہی ابواب کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے ۔ اس میں اختلافی مسائل کو جمع کیا ہے۔ اس میں آپ کا طرز یہ ہے کہ پہلے مذہب حنفی اور دوسرے مذاہب کے دلائل ذکر کرتے ہیں، پھر مذہب حنفی کے دلائل کی وجوہِ ترجیح بیان فرماتے ہیں اور دوسرے مذہب کے دلائل کے جوابات بھی دیتے ہیں۔ *3:شرح مشکل الآثار․․․․* اس میں آپ نے متعارض احادیث میں پائے جانے والے ظاہری تضاد کو ختم کیا ہے۔نیز احادیث سے استخراجِ احکام کا کام بھی کیا ہے۔ *4:مسند الشافعی ․․․․* آپ نے اس کتاب میں ان روایا ت کو جمع فرمایا جو اپنے ماموں امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ سے سنی تھیں۔ *5:العقیدۃالطحاویۃ ․․․․* اس میں اھل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کو جمع کیا ہے۔ *6:”اَلتَّسْوِیَۃُ بَیْنَ حَدَّثَنَا وَ أَخْبَرَنَا“․․․․* یہ چھوٹا سا رسالہ ہے جس میں علم حدیث کی ایک اصطلاح ” حَدَّثَنَا “ اور ” أَخْبَرَنَا “ کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ *7:اختلاف العلماء فی الفقہ․․․․* یہ بہت بڑی کتاب ہے۔ امام طحاوی کے بعض سوانح نگاروں نے کے بقول یہ کتاب تقریباً 130جلدوں میں ہے۔ اس کتاب کا اختصار حافظ ابوبکر الجصاص الرازی نے ”مختصر اختلاف العلماء“ کے نام سے کیاہے۔ یہ اختصار دار الکتب العلمیہ بیروت سے 4 جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔ *وفات:* آپ کی وفات 321 ھ بروز جمعرات مصر میں ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
نمایش همه...
یک طرح متفاوت انتخاب کنید

طرح فعلی شما تنها برای 5 کانال تجزیه و تحلیل را مجاز می کند. برای بیشتر، لطفا یک طرح دیگر انتخاب کنید.