cookie

ما از کوکی‌ها برای بهبود تجربه مرور شما استفاده می‌کنیم. با کلیک کردن بر روی «پذیرش همه»، شما با استفاده از کوکی‌ها موافقت می‌کنید.

avatar

علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

نمایش بیشتر
پست‌های تبلیغاتی
5 601
مشترکین
+324 ساعت
+567 روز
+25730 روز

در حال بارگیری داده...

معدل نمو المشتركين

در حال بارگیری داده...

اور انہوں نے اپنی بات نبھائی، ((پیارے نبی کی باتیں، پیاری زبان میں )) نامی کتاب انہوں نے پڑھائی، یہ سوال الگ ہے کہ ان کتابوں کے وزن کا علم ہم نے مولانا عبد الحمید ندوی کے پاس ڈیڑھ ماہ میں سیکھا، ماسٹر صاحب کے پاس میں جمعہ کے روز صبح نو بجے سے دس بجے تک بیٹھتا، اس کا مجھے دہرا فائدہ ہوتا، گھر سے ناشتہ کرکے نکلتا، آپ کی اہلیہ محترمہ مجھے دوبارہ ناشتہ پیش کرتیں، وہ تھوڑا سا سبق پڑھاتے ، لیکن اس دوران ان کی الماری سے بہت ساری کتابیں لے کرمیں نے مطالعہ کیں، اللہ مغفرت کرے اس سے کچھ دنوں پہلے مولانا اویس مدنی کے بھائی قادر میراں مرحوم( بنکاک مالیکا) نے مجھے عمرآباد بھجوانے کی ترغیب دی تھی، لیکن یہ نہ ہوسکا، ہمیں قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا تھا، ماسٹر صاحب نے اس کی راہ نکالی، انہوں نے بچوں سے کہا کہ وہ شام کو آکر قرآن سیکھیں، اسکول میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا، اس زمانے میں ہیڈ ماسٹر کی شخصیت بڑی رعب دار ہوا کرتی تھی، ان کے کمرے میں بلاوجہ داخل ہونے اور ان کی کرسی پر کسی کو بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،باوجود اسکے انہوں نے اپنا کمرہ اس مقصد کے لئے دے کر اپنے کمرے کی کنجی مجھے سونپ دی، اس سے ہمیں بہت پریشانی ہوئی کہ ہیڈماسٹر کی کرسی پر کیسے بیٹھیں؟لہذا درخواست کرکے کھیلوں کا کمرہ اس کے لئے لیا، اس میں ہم طلبہ ہی پڑھاتے تھے، مولانا غزالی ″عبس وتولی ″ پڑھاتے تو ساری کلاس ان کے ساتھ پڑھتی ، اس وقت پڑھانے کے لئے مولانا محمود خیال صاحب اور قاری محمد اقبال صاحب کو بھی کئی ایک بار دعوت دی گئی تھی، ماسٹر صاحب کے ذہن میں ان بچوں کو قرآن سکھانے کی فکر لاحق تھی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ جامعہ کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کاموقعہ ملا، اس سے وہ بھی بہت خوش تھے، اس وقت آخری دو کلاسوں دسویں اور گیارہویں کے طلبہ کو آپ نے جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر شریک ہونے کی ہدایت کی ۔ اس زمانے میں میٹرک ، گیارہویں کلا س مکمل ہونے پر ہوا کرتی تھی، میں دسویں میں تھا، اور مولانا غزالی صاحب گیارہویں میں، ماسٹر صاحب نے ہمیں چھٹی دے کر جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر حاضر ہونے کو کہا، مولانا عبد الحمید ندوی ؒنے دریافت کیا ،کہ کون داخلہ کے لئے آیا ہے؟، تو منیری صاحب نے دو بچوں کو پیش کردیا، ایک آپ کے دوست کا بچہ عبد اللہ کوبٹے، اور دوسرا یوسف ، شیرور سے تعلق رکھنے والے آپ کے ایک ملازم کا بچہ، مولانا ارشاد احمد ؒنے پڑھایا،″ رب یسر ، ولا تعسر ، وتمم بالخیر″، اس کے بعد منیری صاحب میرے پاس آئےاور کہا کہ مولانا اگر اشارہ کریں تو آجانا، مولانا غزالی اور ان کے ایک ساتھی یس یم سید جعفر وکھلبے مرحوم سے بھی یہی کہا، آخر الذکر کبھی جامعہ کے طالب علم نہیں رہے، ہائی اسکول میں پڑھنے والے کرائے کے یہ تین بچے اس وقت کام آئے، پھر بلانے پرمیں نے اور مولانا غزالی اور سید جعفر نے بھی پڑھا، اور مولانا ارشاد صاحب نے اعلان کردیا کہ پانچ بچوں کا داخلہ ہوا ہے۔ اس کے بعد ہم اسکول لوٹ گئے۔ بسم اللہ خوانی کے دوسرے روز جو صورت حال تھی اس کا تذکرہ مولانا عبد الحمید ندویؒ یوں بیان کرتے ہیں: ″کیسی حوصلہ شکن اور صبر آزما تھی، ۲۰ ـ/ اگست کے بعد ۲۱ /اگست ۱۹۶۲ ء کی صبح ، آپ ہی آپ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا یہی درسگاہ تھی جس کی کل اوپننک ہوئی تھی؟ کل اسی کے لئے وہ سارے پیام سنے گئے تھے؟ بزرگوں کی دعاؤں کا حاصل اور نیک تمناؤں کا مرکز یہی ہے؟ اسی کے لئے زبان ہلتے ہی دردمندان قوم نے سیکڑوں نہیں ہزاروں ہزار پیش کردئے ، کیا عبد اللہ ہی کے لئے حضرت قبلہ مولانا ندوی مدظلہ کی خدمات کا ریزرویشن ہورہاتھا؟ علی ملپا ، سعدا جعفری، ڈی اے اسماعیل کی دلی تمناؤں اور مخلصانہ آرزؤں کا حاصل یہی ہے؟ منیری صاحب کے زور قلم ، سعی پیہم ، اور حسن تدبیر کے نتیجہ میں عبد اللہ اور عبد الحمید کے سوا کچھ نہ تھا، بظاہر خواب اور افسانہ کے سوا ، اس کا نام آپ اور کیا دیں گے؟″ مولانا عبد الحمید ندوی جیسے جلیل القدر عالم دین ، اور استاد الاساتذہ ،جیسکھ پور ، یوپی سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آئے تھے، ایک، الف باء پڑھنے والے بچوں کو پڑھانا ان کامقام ومنصب نہیں تھا، نہ ہی یہ کسی طرح آپ کی عزت افزائی تھی، اس ضرورت کا مدا وا کس طرح نکالا گیا ، اسے مولانا اقبال صاحب یوں بیان کرتے ہیں:
نمایش همه...
″ لہذا ماسٹر عثمان حسن سے مشورہ کیا گیا کہ جامعہ میں باقاعدہ تعلیم کے آغاز تک مولانا درس قرآن شروع کریں، اور ہائی اسکول کے بچے اس درس میں شریک ہوں، صبح سات سے آٹھ بجے تک درس قرآن جاری رہے، اس درس میں جولوگ شریک ہوتے تھے، ان میں محمد شفیع شابندری صاحب موجود ہ ناظم جامعہ بھی شامل تھے، جامعہ کے باقاعدہ طالب علم نہ ہونے کے باوجود ہم آپ کو ابناء جامعہ میں انہی دروس کے ایک دائمی طالب علم ہونے کے ناطے انہیں شمار کرتے ہیں۔ ان دروس میں پہلا نام ان کا ہے پھرمیرا ، اور آپ کی برکت سے دوسرے بڑی عمر کے لوگ بھی ان دروس میں شریک ہونے لگے ، چند روز بعد ششماہی امتحانات کا آغاز ہوا، جس کی تیاری میں محنت اور مصروفیت کی وجہ سے مولانا سے ہم نے رخصت لے لی، لیکن مولانا نے درس کا سلسلہ بند نہیں کیا ، بلکہ اسے جاری رکھا، اس موقعہ پر ماسٹر شفیع صاحب پابندی سے اور بلاناغہ ان میں شرکت کرتے رہے، امتحان کے بعد جب ہم دوبارہ درس میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ کئی سارے درس ہم سے چھوٹ گئے ہیں، ہم نےچھوٹا سا منہ کرکے مولانا سے اپنے اس تعلیمی نقصان کا اظہار کیا ۔ تو گویا مولانا اس فرمائش کے منتظر تھے، فورا کہ دیا کہ کوئی بات نہیں، عصر کے بعد پڑھائیں گے، مولانا نے عصر کے بعد ذوق وشوق سے پڑھانا شروع کیا، اس دوران جامعہ اردو علی گڑھ کے ادیب کامل کے امتحانات کا وقت قریب آگیا ، اس کا فارسی نصاب بہت مشکل تھا، یہ سمجھ کر کہ ماسٹر سید عبد الرحمن باطن صاحب کو اردو بہت اچھی آتی ہیں اور وہ منجھے ہوئے شاعر ہیں، تو وہ فارسی بھی اچھی جانتے ہونگے، ان سے ادیب کامل کے فارسی ابواب پڑھانے کی خواہش ظاہر کی، باطن صاحب میرے براہ راست استاد نہیں رہے، لیکن انہیں میں نے ہمیشہ اپنا استاد ہی سمجھا۔ انہوں نے ہمیں مولانا ہی سے رجوع کرنے کو کہا، اور مولانا نے اس میں تعاون کیا۔اسی طرح یہ سلسلہ بھی چل نکلا۔ ایک دن عصر کے وقت ہم مولانا کے انتظار میں بیٹھے تھے ، کہ اس روز آپ نہیں آئے بلکہ آپ کی جگہ پر منیری صاحب اندر داخل ہوگئے، اور تقریر شروع کردی، یہ آپ کی زندگی کی دو تین شاہکار تقریروں میں سے ایک تھی، جس کا خلاصہ یہ تھا، اور حقیقت بھی یہی تھی، کہ ہم سے پہلے بھی دو تین افراد نے اس گاؤں میں ایک دینی مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام ہوگئے، ہم نے بھی بہت کوشش کی، لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمیں یہاں پڑھنے کے لئے بچے نہیں مل رہے ہیں، کل قیامت کے دن اللہ تعالی ہم سے پوچھے گا تو ہم جواب دیں گے کہ خدایا! ہم نے سکت بھر کوشش کی، لیکن ہمیں پڑھنے والے بچے نہ مل سکے، اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، اور آپ نے زبردست ترغیبی انداز میں اس طرح بات کی کہ سب کے دل پسیج گئے۔ اس وقت ہائی اسکول چھوڑ کر جامعہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی، اب بھٹکل سے وہ محاورہ (( کومجان گھالوچے)) ختم ہوگیا ہے، اس زمانے میں گھر سے میت اٹھنے کے بعد صفائی کرکے ، کافور اور لوبان کی دھونی دی جاتی تھی ، اسے″ کومجان گھالوچے ″کہتے تھے، کسی سے ناامید ی اور مایوسی کی حدیں پار کرجاتیں تو یہ محاورہ بولا جاتا تھا، ہائی اسکول چھوڑ کر جامعہ میں داخلہ پر بھی اس زمانے میں اس محاورے کا اطلاق ہوتا تھا، جامعہ میں داخلہ کا واضح مطلب یہ تھاکہ اس نے دنیا کو لات مارکر اپنی تباہی مول لی ہے ، میرے ایک ساتھی کو جامعہ میں داخلہ لینے پر یہ کہ کر قید کردیا گیا تھا کہ اس پر آسیب کا سایہ پڑ گیا ہے، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے، عامل سے پانی پر پھونک اسے پلایا گیا۔(جاری)
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

👍 1
*مولانا محمد اقبال ملا ندوی۔ راہ طلب کا سفر(۱)* (وفات : 15/جولائي 2020ء ) تحریر: عبد المتین منیری Https://telegram.me/ilmokitab (استاد مرحوم کی وفات پرچار سال قبل لکھا گیا مضمون) آج جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو جنوبی ہند میں منارہ نور کی حیثیت حاصل ہے، نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے،یہاں سے علم دین کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل رہی ہے، اللہ نظر بد سے بچائے، بھٹکل شہر کے معاشرے پر اس ادارے کا جو اثر ہے شاذ ونادر ہی کسی دینی درسگاہ کا اپنے شہر میں اتنا اثر نظر آئے گا، آج بھٹکل میں ایک سو کےقریب مساجد ہیں ، ان تمام مساجد میں جامعہ کے فارغین ، امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور زیادہ تر مساجد میں درس قرآن کے سلسلے جاری ہیں، ہمیں قیام جامعہ کے دنوں کا وہ زمانہ بھی یاد ہے، جب بھٹکل میں کل سات مسجدیں ہوا کرتی تھیں، جن میں سے آدھی مسجدوں میں بھٹکل سے باہر کے ائمہ و مؤذنین متعین تھے، زیادہ تر وہ عالم بھی نہیں تھے، پورے شہر میں ایک ہی حافظ قرآن ہوا کرتے تھے، لیکن آج ماہ رمضان المبارک کے دنوں میں شہر بھر کی جملہ مساجد میں تین سے زیادہ حافظ قرآن بہ یک وقت دستیاب رہتے ہیں، رہی بات مستورات کی تو آج گھر گھر حافظات قرآن نظر آرہی ہیں، اللہ کی اس نعمت پر جتنا حمد وشکر بجا لایاجائے کم ہے، بھٹکل کے معاشرے میں یہ انقلابی تبدیلیاں جامعہ اسلامیہ کے قیام کے بعد ہی رونما ہوئی ہیں۔ کوئی جامعہ صرف مجلس بانیان اور عمارتوں سے مکمل نہیں ہوتا، یہ بنتا ہے استاد اور طالب علم سے، وہ اولین قافلہ جو جامعہ کے قیام اور تاسیس تخیل لے کر آگے بڑھا تھا، اور وہ شخصیت جس نے پہلے جامعہ میں قال اللہ اور اور قال الرسول کی مسند سجائی تھی ، انہیں سفر آخرت پر روانہ ہوئے عرصہ بیت گیا ہے ، اور مورخہ ۲۳ ذی قعدہ ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۵؍ جولائی ۲۰۲۰ء، وہ بابرکت ہستی بھی ہم سے جدا ہوگئی ہے ،جس نے اولین طالب علم ہونے کا تاج اپنے سر پرکر سجا جامعہ کی تاریخ کا سنگ میل بن گئی تھی۔ اس طرح جامعہ کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ روداد کے مطابق یہ سہرا مولانا محمد اقبال ملا ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر بندھتا ہے۔ مولانا نے۸ رمضان المبارک ۱۳۶۴ھ مطابق ۔ ۱۷-اگست ۱۹۴۵ء اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تھی، اس لحاظ سے آپ نے اس دنیا کی پچھتر بہاریں دیکھیں۔ آپ کے والد محمد حسین ملا صاحب تقسیم ہند سے قبل خاکسار تحریک سے وابستہ رہے تھے۔ اور مدراس میں جسے اب چنئی کہا جاتا ہے ذریعہ معاش اپنا ئے ہوئے تھے، انگریزوں کے زمانے میں جب خاکسار تحریک کا کریک ڈاؤن ہوا ، اور تاریخ آزادی کے بدترین ظلم و ستم کا نشانہ اسے بنایا گیا، اور ویلور جیل میں تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی سمیت تحریک کی قیادت کو پابند سلاسل کیا گیا تو ان میں آپ بھی شامل تھے، اس دوران آپ کو بھی سخت ترین اذیتوں سے گذارا گیا ، جس کے دوران آپ کی پیشانی کے اوپری حصہ پر ایک آلے سے ایسا کچلا گیا کہ جس کے بعد آپ کا نفسیاتی توازن بگڑ گیا، اس امتحان سے آزادی کے بعد آپ نے پھر دوبارہ وطن عزیزکا رخ نہیں کیا، اس وقت اقبال صاحب کی عمر ڈھائی سال کی تھی، آپ نے اپنے والد ماجد کو پہلی مرتبہ ۱۹۶۶ء میں اس وقت دیکھا تھا جب آپ جامعہ کی تعلیم مکمل کرکے اعلی تعلیم کے لئے چنئی کے راستے ندوۃ العلماء تشریف لے جارہے تھے۔ اور پھر ۱۹۷۰ء میں جب آپ کی رحلت ہوئی تو جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ آئے اب ہم جامعہ کے اس اولین طالب علم کی زبانی ، جامعہ کی افتتاحی تقریب کا حال سنتے ہیں: ″ربیع الاول کے موقعہ پر مولانا ارشاد احمد مبلغ دارالعلوم دیوبند کو بھٹکل دعوت دی گئی تھی، اس وقت جناب محمد میراں گوائی صاحب کے مکان کی پہلی منزل کرایہ پر لی گئی، جہاں پر جامعہ سواتین ماہ تک جاری رہا ، اس منزل کا کرایہ ایک سو روپیہ ادا کیا گیا، یہاں سے جامعہ مین روڈ پر واقع سوداگر بخار میں منتقل ہوا، سوداگر بخار کا تو اب وجود نہیں ، لیکن وہ منزل جہاں سے جامعہ کا آغاز ہوا تھا، اب بھی باقی ہے، یہ بڑی تاریخی جگہ ہے، اس زمانے میں بانیان جامعہ کے ساتھ مرحوم دامدا بو امین صاحب چیڈوبھاؤ، قاضی محمد احمد خطیبی صاحب، عثمان حسن ہیڈ ماسٹر وغیرہ کی آپسی شناسائی اور قربتیں تھیں، ماسٹر صاحب تو بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپا صاحب کے قریبی دوستوں تھے۔
نمایش همه...
میں سچ بتاتاہوں جب میں ہائی اسکول میں پڑھ رہا تھا، تو مجھے قرآن پڑھنا نہیں آتا تھا،قرآن پڑھنا اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، جس کا احساس آج کل بہت ہوتا ہے، جب ہم لوگ مستورات وغیرہ کو چند دینی باتیں بتارہے ہوتے ہیں، قرآن نہ جاننے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میرا بچپن مدراس میں گزرا تھا، جب بھٹکل منتقلی ہوئی تو یہاں کے رائج نظام کے مطابق خواتین معلمات قرآن جنہیں عرف عام میں خلفین کہا جاتاہے، ان کے یہاں جانے کا موقعہ نہ مل سکا، محتشم ابو بکر مرحوم کی ہمشیرہ جو میری خالہ زاد بہن بھی ہیں ، ان کے پاس د و تین دن جانا ہوا، جب اسکول میں داخلہ ہوا تو ان کے پاس جانا بھی بند ہوگیا،اس وقت تھوڑا بہت یسرنا القرآن پڑھنے کا موقعہ ملا ہوگا۔ یہ بات میں پہلی مرتبہ آپ کو بتاتا ہوں کہ دور بیں نگاہ رکھنے والے کیسے کیسے لوگ پائے جاتے ہیں، میرے سرپرست بنیادی طور پر چچا جان تھے، لیکن ان کی غیر موجود گی میں حساب کتاب ، میری نگرانی وغیرہ ڈاکٹر علی ملپا صاحب کیا کرتے تھے، ان کے دواخانے میں بیٹھنے والے افراد عموما دینی امورپر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے، انجمن میں دینیات کے درجے میں دوسرے طلبہ پر میں فائق تھا،ابھی میں انجمن کا طالب علم ہی تھا کہ بچوں کا ایک تقریری مقابلہ رکھا گیا، جس میں شراب بندی کے موضوع پر میری ایک اچھی تقریر ہوئی، باوجود اسکے کہ اس میں مجھ سے بڑی عمر کے طلبہ شریک تھے، مجھے اس مقابلے میں دوسرا بڑا انعام ملا ، اس جلسہ کی صدارت محی الدین منیری صاحب کررہے تھے ، اور یہ تقریر لکھ کر دی تھی ڈاکٹر علی ملپا صاحب نے، میں خوشی خوشی علوہ محلہ سے ہوکر تکیہ محلہ میں واقع اپنے گھر کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا کہ راستے میں علوہ مسجد کے سامنے شاہ الحمید عیدروسہ صاحب کے مکان کے پڑوس میں منیری صاحب اپنے سسر مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی صاحب کے مکان کی ڈیوڑھی پر بیٹھے ہوئے تھے،((ہینگا ایوا ))کہ کر مجھے بلایا، اور فرمایا کہ تمہیں پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بننا ہے، اس طرح مجھے خوب اکسایا، اور کہاکہ میں تمھیں اعلی تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیجتا ہوں، ٹھیک ہے کہ کر میں وہاں سے چلاگیا، اور جاکر یہ بات اپنے گھر والوں کو ، اور میرے تعلیمی سرپرست ڈاکٹر ملپا صاحب کو بتائی، یہاں سے بات عثمان حسن ہیڈ ماسٹر صاحب تک پہنچی ، یہ بات میں اس لئے آپ لوگوں کو بتارہاہوں کہ دینی تعلیم کی اہمیت سمجھ کر بہتوں نے جامعہ کی تحریک کے لئے کام کیا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بچے کی ایک اچھی سی تقریر سن کر منیری صاحب نے اسی وقت اسے ندوہ بھیج کر ایک عالم دین بنا نے کا سوچا۔ (نوٹ: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تحریک ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، منیری صاحب کو بھٹکل میں ایک دینی تعلیمی ادارے کی داغ بیل ڈالنے کی فکر ۱۹۵۵ء میں ممبئی میں دینی تعلیمی کنوینشن کے انعقاد کے بعد سے لگی ہوئی تھی،اس مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک زمین بھی لے لی تھی، اور تدریس میں خود کفالت کے لئے مقامی نوجوانوں کو حافظ و عالم بنانے کی کوششیں شروع کردی تھیں، اسی منصوبہ کے تحت آپ نے مولانا حافظ اقبال ندوی ، مولانا محمد تقی محمد حبیبا ندوی، احمد قافشی صاحب، اور مولانا عبد المجید ملپا ندوی، وغیرہ کو ندوۃ العلماء میں داخلے پر آمادہ کیا تھا، اور اس سلسلے میں مناسب انتظامات کئے تھے۔ ع۔م) سچی بات تو یہ ہے کہ میں ہائی اسکول میں ٹاپ پر تھا، اور میرا خیال ایک ڈاکٹر بننے کا تھا، اس زمانے میں گاؤں میں ڈاکٹر نہیں تھے، او رجو تھے وہ نیک نام نہیں تھے، عثمان ماسٹر صاحب کی نظر کرم مجھ پر تھی،اس زمانے میں ساتویں جماعت کے طالب علم کی صلاحیت نویں جماعت کے برابر ہوا کرتی تھی، میں نے اختیاری مضمون سائنس لیا ہوا تھا، عثمان ماسٹر صاحب تک منیری صاحب کی کہی ہوئی بات پہنچی تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، انہوں نے بھی میری خوب تعریفیں کیں،اس وقت تک انگریزی زبان آٹھویں جماعت کے بعد پڑھائی جاتی تھی، لیکن اسی سال چھٹی جماعت سے انگریزی زبان پڑھانے کا آغاز ہوا تھا، آپ نے مولانا عبد الباری ندویؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ وغیرہ گزرے ہوئے بڑے لوگوں کے بارے میں بتایا، اور کہا آپ بھی ویسے ہوجائیں تو بہت اچھا ہوگا، عصری اور دینی علم یکجا ہوجائی گی، میں تمھیں پڑھاؤں گا۔ میں ان کی باتوں میں آگیا، عثمان ماسٹر بہت مصروف انسان تھے، ہمیں قومی خدمت میں آپ کی زندگی سے سبق لینا چاہئے، وہ کسی کو پانچ منٹ وقت نہیں دے سکتے تھے، ان کی ترغیب دینے کا انداز دیکھئے، کہنے لگے میں تمھیں عربی پڑھاتا ہوں،
نمایش همه...
وفیات : ۱۵ جولائی Https://telegram.me/ilmokitab مرزا محمد عبداللہ دہلوی : 15/جولائی/1966 اسلم انصاری: 15/جولائی/2006 مولانا محمد اقبال ملا ندوی: 15/جولائی/2020
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

کتاب زندگی کے چند ورق ( ۲ )۔۔۔ سفر زندگی کا آغاز بیان: الحاج محی الدین منیریؒ تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) Https://telegram.me/ilmokitab اپنی ڈائری میں میرے والد مرحوم کی تحریر کے مطابق میں نے مورخہ 18 ربیع الاول 1338ھ اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ، اسکول میں یہ تاریخ 17مارچ 1919ء لکھی ہوئی ہے۔ ابتداء میں ہمارے گھریلو معاشی حالات تنگ دستی کا شکار تھے ۔ غربت ہم پر سایہ فگن تھی ۔ حالات ایسے نہ تھے کہ باقاعدگی سے اسکول میں تعلیم جاری رکھ سکتا ، ابھی میں عمر کے دسویں سال میں تھا کہ تلاش معاش کے لئے دوتین سال پڑھ کر مجھے بمبئی کا سفر کرناپڑا، طبیعت میں بڑی چنچلاہٹ تھی ، یکسو ہوکر کام کرنے کی عادت نہ تھی ، لہذا ایک جگہ جم کر نوکری نہ کرسکا، چند دن ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا۔ زند گی میں پہلی بار میں نے بمبئی کولسہ محلہ میں محمد غوث شنگیری مرحوم کے ہوٹل میں بیرے کی حیثیت سے نوکری کی۔ یہاں پر تقریباً آٹھ ماہ تک خدمت کرتارہا، اس ہوٹل کے سامنے بمبئی کے ایک مشہور صاحب ِثروت تاجر سلیمان قاسم مٹھا کا تجارتی مرکز چارمنزلہ عالیشان عمارت میں واقع تھا۔ اس زمانے میں اس میں لفٹ لگی ہوئی تھی ۔ اب تو یہ عام ہوگئی ہے لیکن اس وقت خال خال نظر آتی تھی۔ تحریکِ خلافت کے مولانا شوکت علی ؒ بڑی باقاعدگی سے صبح دس بجے اپنی کھلی کار میں یہاں پر تشریف لاتے تھے۔ وہ مجھ سے بڑی محبت سے پیش آتے تھے ، جب بھی ان کی گاڑی آتی، اچھل کر میں اس میں بیٹھ جاتا ، مولانا کو جب بھی چائے یالیمونیڈ کی خواہش ہوتی میرے ذریعہ طلب فرماتے۔ بڑی شخصیات میں میری پہلی ملاقات مولانا شوکت علی ؒ ہی سے ہوئی۔ مولانا کے ڈرائیور کا نام چاند تھا۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میری بھٹکل واپسی کے وقت آپ نے مجھے ایک شیروانی عنایت کی تھی جسے میں اپنے ہمجولیوں میں بڑی شان سے پہنتا ، یہ کبھی دوستوں پر رعب جمانے کے کام آتی تو کبھی ہنسی مذاق کا بہانہ بنتی ۔ بھٹکل لوٹنے کے ڈیڑھ برس بعد دوبارہ سیکھنے کا شوق دامن گیر ہوا۔ لہذا اسکول میں داخلہ لے لیا۔ لیکن گھر میں آمدنی کی صورت حال خوش کن نہ تھی ، ہمارے ایک بڑے بھائی بمبئی سے آٹھ دس روپیہ کماکر بھیجا کرتے تھے ۔ دوبارہ بمبئی جاکر کمانے کی ضرورت پیش آئی ، وہی بیرے کا کام، وہی بے ڈھب زندگی، کوئی بہتر ملازمت نہ مل سکی ۔ اس زمانے میں پہلوان ابو محمد صاحب کی کھولی ہواکرتی تھی ، انہی کے ساتھ میرا رہنا ہوتا، وہ بڑی محبت کا سلوک کرتے ۔ بمبئی سے ڈیڑھ سال بعد دوبارہ واپسی ہوئی تعلیم کا شوق پھر چرایا۔ اس زمانے میں اردو اسکولوں کے اساتذہ آج کی طرح کے نہیں ہوا کرتے تھے ، ان کے دلوں میں بچوں سے ہمدردی کا جذبہ موجزن تھا، ان کے مستقبل کو سنوارنے کی فکر انہیں لگی رہتی ، سکھانے میں وہ بڑی محنت کرتے ، ہونہار بچوں کی جستجو میں وہ رہتے ،اسکول میں کار وار، سوتگیری کے ایک استاد بڈھن ماسٹر ہوا کرتے تھے ، ان کامکان ہمارے قریب مومن محلہ میں ہی تھا۔ ان کا ہمارے گھر آنا جانا تھا ، انہیں مجھے سے لگائو تھا ، والدین سے بات چیت کرکے انہوںنے پھرمیرا داخلہ اسکول میں کروادیا۔ یہ زمانہ سن 31؍1932ء کا ہے، جب مولاناعبدالحمید ندوی کا انجمن میں نیا نیا تقرر ہوا تھا ، ماسٹر صاحب کے مولانا ندوی سے گہرے تعلقات تھے ، وہ انہیں میرے حالات سے باخبر رکھتے ، اور میری ان سے تعریف کیا کرتے ، غالباً اس وقت میرا داخلہ اردو تیسری میں ہوا۔ داخلہ کے بعد ماسٹر صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ ایک ساتھ دوامتحان پاس کروں۔ ٹھیک طورپر یاد نہیں ،اپنے شعبہ سے اجازت لے کر تیسری اور چوتھی کا یاچوتھی اور پانچویں کا امتحان ایک ساتھ دلوایا۔ جب میں نے امتحان دیا تو آپ نے مولانا ندوی اور دوسرے احباب کو سمجھایا کہ یہ لڑکا ہونہار ہے لیکن بار بار اسکول چھوڑ کر بھاگ جاتاہے۔ اس مرتبہ کسی صورت اسے روک دیا جائے۔ آپ کے ساتھ ایک اور مدرس یوشع صاحب نے بھی میری تعلیم میں بڑی دلچسپی لی ، بالآخر انجمن کی پانچویں کلاس میں میر ا داخلہ ہوگیا اور میری آئندہ تعلیم کا سلسلہ چل پڑا ، جس کے بعد بڑی محنت کرکے انگریزی کی چوتھی جماعت تک تعلیم مکمل کرلی ۔ اس زمانے کے ساتھیوںمیں کوڑاسائب اور احمد حسین دامودی کانام اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔ اس زمانے میں انجمن اسکول کے صدر مدرس مرحوم آئی ایس صدیق ہوا کرتے تھے وہ ہمارے لئے بڑی شخصیت کے حامل تھے ، ہماری جماعتوں میں آکر طلبہ کی جانچ وغیرہ کیا کرتے تھے، ان کی بھی مجھ پر نظر عنایت تھی۔
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

2
کتاب زندگی کے چند ورق (۱) ۔۔۔ بیان: الحاج محی الدین منیری تحریر:عبدالمتین منیری۔ بھٹکل ۔ کرناٹک Https://telegram.me/ilmokitab جنوبی ہندکی ریاست کرناٹک کے قصبے بھٹکل نے اپنے جائے وقوع اور آبادی کی نسبت سے زیادہ شہرت پائی ہے ، گزشت نصف صدی میں اسے برصغیر کے اکابر سے اپنی حیثیت اور وسعت سے زیادہ پذیرائی پائی ہے ۔ یہاں کی جن شخصیات کی قربانیاں اس کا ذریعہ بنیں ان میں اہم ترین نام جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ کا ہے ۔ مرحوم گزشتہ صدی میں چالیس کے عشرے سے مورخہ 30 ؍اگسٹ 1994ء داعی اجل کو لبیک کہنے تک بھٹکل اور ممبئی میں سرگرم عمل رہے ، ایک ایسے زمانے میں جب ہندوستان سے عازمیں حج بیت اللہ صرف قرعہ نکلنے کے بعد ہی حج پاسپورٹ حاصل کرکے پانی جہاز سے جاسکتے تھے ، ان دنوں آپ صابو صدیق مسافر خانے میں انجمن خدام النبی سے وابستہ رہ کر لاتعدا د لوگوں کی تیس سال سے زیادہ عرصہ تک مدد کی ، اس ذریعے سے آپکے برصغیر کے جملہ اکابر سے برادرانہ تعلقات قائم ہوئے ، اس دوران مولانا قاضی اطہر مبارکپوری علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں البلاغ ممبئی جاری کیا ،1953ء میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں کل ہند تعلیمی کنوینشن ممبئی کے موقعہ پر آپ کا شائع کردہ ضخیم تعلیمی نمبر دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بھٹکل کے جملہ سماجی و تعلیمی اداروں میں آپ فعال رہے ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور جامعۃ الصالحات بھٹکل آپ کی قائم کردہ یادگاریں ہیں جو آج بھی علاقہ کو علم دین کی روشنی سے منور کررہی ہیں ۔ مرحوم اپنی زندگی کے جو مشاہدات اور تجربات بتاتے تھے وہ بڑے انمول اور موثر ہوا کرتے تھے ، اس ناچیز نے بارہا کوشش کی کہ ان کے مشاہدات کو ریکارڈ کرکے محفوظ کیا جائے ، جس کی کم ہی فرصت ملی ، خوش قسمتی سے آپ کی رحلت سے کچھ عرصہ قبل 1987ء میں نائطی زبان میں آپ کے دو ویڈیو انٹرویو لینے کا موقعہ نصیب ہوا ۔ یہی انٹرویو آب بیتی کی شکل میں اردو زبان میں منتقل کرکے پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ، ہمیں امید ہے کہ قارئین اسے پسند کریں گے ۔ مرحوم کے حالات زندگی پر مولانا سید ابوالحسن ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل نے ایک خصوصی مجلہ عرصہ پہلے شائع کیا تھا ، لیکن آپ کی ایک مفصل سوانح لکھنے کا قرض ابھی باقی ہے ، دعا کریں اللہ تعالی اس سے سبکدوشی کی کوئی راہ نکالے ۔ شکریہ(عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔کرناٹک) خاندانی پس منظر محترم محی الدین منیری صاحب خاندان منیری کے گل سرسبد تھے ۔ یوں تو عددی لحاظ سے یہ خاندان قبیلہ بہ نسبت چھوٹے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ معاشرے میں عزت و احترام سے نوازا ہے ۔ گذشتہ دور میں اس خاندان کے نائطی زبان کے دو شاعر مشہور ہوئے جن کا کلام گھر گھر پڑھاجانے لگا، ان میں سے ایک مولانا اسماعیل منیری ؒ تھے ، جن کا لکھا ہوا مولود نامہ نائطی زبان کے کلاسیکل ادب کا ایک ستون سمجھا جاتاہے ۔ مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی ندوی ؒکے بقول آپ کی تصنیف کردہ عربی زبان میں فقہ شافعی کی کتابیں مخطوطات میں پائی جاتی ہیں ۔ آپ کو سلطان ٹیپو کے دربار تک رسائی حاصل تھی ۔ آپ یمن کے بزرگ عالم شیخ محمد علوی جفری کے تین خلفاء میں سے ایک تھے۔ مشہور ہے کہ شیخ جفری نے سلطان ٹیپو شہید کو خلافت سے نوازا تھا اور انہیں ایک تلوار دی تھی ۔ دوسری معروف شخصیت حضرت شمس الدین منیری ؒ کی ہے ، آپ کی لکھی ہوئی مناجاتیں شادی بیاہ کے موقع پر عموماً پڑھی جاتی ہیں۔ خاص طورپر آپ کی لکھی ہوئی مناجات ربا تو کر اپلو کرم + ہیں بے دلاور دم بدم گناہ امچی سا بخسون + کر تو ایمانے وار ختم ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود اپنی رونق باقی رکھے ہوئے ہے۔ جدِ امجد محمد امین منیری ؒ ایک سیدھے سادھے بزرگ تھے ، آپ نے اور ان کے ایک فرزند اسماعیل منیری نے الگ الگ اوقات میں حج بیت اللہ کا پیدل سفرکیا تھا۔ سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے ، محی الدین بن محمد امین بن محمد حسن بن محمد امین بن محی الدین بن محمد منیر بن محمد امین بن علی سکری ۔شیخ علوی الجفری علیہ الرحمۃ نے مولانا اسماعیل کو خلافت سے نوازتے وقت جو کتاب عنایت کی تھی ، اس قلمی نسخے پر آپ نے اپنا سلسلہ نسب سکری صدیقی لکھا ہے،جس کا واضح مطلب ہے کہ اس خاندان کا مخدوم فقیہ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ہے۔ یہ بزرگ ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کے خانوادہ قاضی بد رالدولہ کے جد اعلی ہیں ۔ علی سکری پر منیری خاندان بھٹکل کے اور اہم اکرمی خاندان سے ملتا ہے ، منیری صاحب کے والد اور ان جد اعلی جامعہ مسجد کے قدیم قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔(یہاں سے الحاج محی الدین منیری مرحوم کی زبانی آب بیتی شروع ہوتی ہے ۔ ع ۔ م ۔ م )
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

سچی باتیں (۲۶؍جون ۱۹۲۵ء)۔۔ دسویں محرم تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادیؒ Https://telegram.me/ilmokitab اگر آپ مسلمان، اور سُنّی مسلمان ہیں، تو حشرونشر اور روز قیامت پر ضرور آپ کو عقیدہ ہوگا۔ پھر اُس روز اگر شہید کربلا امام حسین علیہ السلام کا اور آپ کا سامنا ہوگیا، اور وہ مُحرّم کی بابت کچھ سوالات آپ سے کربیٹھے ، تو کیا آ پ اُن کا تشفی بخش اور معقول جواب دے سکیں گے؟ اگر امام مظلوم نے سوال کردیا، کہ تم محرّم میری توہین ورسوائی کے لئے مناتے تھے ، یا میری عزت و تعظیم کے لئے؟ میں نے دسویں محرم بھوک اور پیاس کی شدت کے ساتھ گزاری ، اور تم میرانام لے لے کر اُس روز خوب مزے مزے کے حلوے پکاتے اور کھاتے رہے، اور خوب ٹھنڈے ٹھنڈے شربت پیتے اور پلاتے رہے! میں نے تو وہ سارا دن خداکی یاد اور اللہ کی پکار میں گزارا، اور تم اُسی روز سارا وقت باجے اور جلوس کے اہتمام میں صرف کرتے رہے۔ اور نفل نمازیں الگ رہیں، فرض نماز تک سے غافل رہے؟ میں نے شب شہادت ، عبادت حق اور اور یادِ الٰہی میں گزاری، اور تم نے غضب یہ کیا، کہ وہ ساری متبرک رات روشنی اور چراغاں کرنے، باجہ بجانے، اور کاغذی مقبروں کے آگے سرجھکانے میں بسر کرتے رہے؟ یہ سب کچھ کرکے ، میرے عقیدے سے اپنے عقیدہ کا، میرے عمل سے اپنے عمل کا، میرے زندگی سے اپنی زندگی کا، کوئی بھی واسطہ تم نے باقی رکھا؟ اگر یہ سوال حشر کے دن شہیدوںکے سردار، اور حق پرستوں کے پیشوا نے کردیا، تو فرمائیے، آپ کے پاس کوئی معقول جواب ہوگا؟ کیا جواب آپ اُس وقت دے سکیں گے، جب امام مظلوم ، اور حشر کے سامنے، آپ کو قائل ولاجواب کرنے کے لئے آپ سے پوچھیں گے، کہ میرے نانا علیہ الصلاۃ والسلام تو صاف لفظوں میں تمہیں اور سینہ پیٹنے سے منع کرگئے تھے ، پھر یہ کیا تھا، کہ تم میرا نام لے لے کر ماتم کرتے اور سینہ پیٹتے رہے؟ میرے جد امجدؐ کی شریعت نے تو نوحہ خوانی سے کھلے طور پر تمہیں روک دیاتھا، مگر تم میرے نام کی آڑ پکڑ کر نوحہ خوانی ، سوزخوانی، ومرثیہ خوانی کرتے رہے؟ میرے رسول برحق نے تو غیر خداکی پرستش ہرطرح تم پر حرام کردی تھی، لیکن اس پر بھی تم اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے کاغذی مقبرے بہت سا روپیہ لگالگاکر تیار کرتے رہے، اُن پر چڑھاوے چڑھاتے رہے اوراُن سے اپنی منتیں مُرادیں مانگتے رہے؟ میری شہادت کے بعد میرے دشمنوں نے جلوس نکالا، باجہ بجایا، روشنی کی۔ تم نے بھی یہ سارے طریقے اور دستور اختیار کرلئے۔ اور اپنے آپ کو میرا دوست اور محبت کہتے رہے؟ کیسی حسرت وندامت ہوگی اُس گھڑی ، جب جوانانِ جنت کا وہ سرتاج، آپ سے فرمائے گا، کہ تم نے میری زندگی سے کوئی سبق نہ حاصل کیا، میرے نمونۂ عمل کو اپنے لئے بالکل بیکار سمجھا، میری شہادت وجانبازی سے کوئی نصیحت نہ لی، میری سچائی کو ایک دل لگی سمجھا، میری حق پرستی کو تماشاخیال کیا، میری جان ومال کی قربانی کو ایک کھیل ، یا سوانگ سے زیادہ وقعت نہ دی! میری راہ نہ اختیار کی ، اور میرے نام کو بدنام کیا،میرے طریقے پر نہ چلے، اور میرے ہاں پردہ نشین بیویوں کے ناموں کو کوچہ وبازار میں خوب اُچھالا، میری طرح حق پر قائم رہ کر تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کرنے کی بھی کوشش نہ کی، اور تعزیوں کے غول کے آگے پیچھے ہونے پر آپس میں خوب لڑے؟
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

👍 2
سلسلہ نمبر: 144 انتخاب مطالعہ تحریر: *مولانا عبد الماجد دؔریابادیؒ* *فقر محمدیؐ* اگر سچی درویشی اور اصلی فقیری کی طلب ہے، جس کی جڑ مضبوط، جس کی شاخیں بلند ہوں تو لازم ہے کہ محمد رسول ﷲ کی فقیری اور درویشی اختیار کرو! اور انہی کی پیروی کرو! کہ صاف اور پاکیزہ پانی وہیں ملتا ہے جہاں چشمہ پھوٹتا ہے اور بعد کے آنے والوں کی درویشی نہ اختیار کرو! کہ پانی سرچشمہ سے دور جاکر گندلا ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ اصلی قائم نہیں رہتا۔ *اس مسلک کا انجام* اس طریقۂ محمدیؐ پر اگر قائم رہے تو امید ہے اگلوں سے جا ملو، جو پیغمبر خداؐ کے اصحاب میں سے تھے، قیامت کے روز پیغمبر کے جھنڈے کے نیچے اور یاران پیغمبر کے ساتھ تمہارا حشر ہوگا، یہ وہ وقت ہوگا کہ دوسرے اپنے شیوخ اور مرشدوں کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ؛ لیکن تمہارے اوپر اس وقت تمہارے شؔیخ یعنی حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے جھنڈے کا سایہ ہوگا۔ *تصوف کے معنی* لوگوں کی زبان پر آج فقر فقر ہے ؛ لیکن اس کی حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں، نہ یہ جانتے ہیں کہ اس کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے اور نہ یہ خبر ہے کہ اس کی انتہاء کیا ہے ؟ اگر فقر کے معنیٰ سمجھ میں آجائیں اور اس کے ابتدائی مدارج کا علم ہوجائے تو اس پر اس کی انتہاء کا بھی قیاس کیا جاسکتا ہے، فقر کے میدان میں قدم رکھنا صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب ممنوعات سےبچنے اور اسلام کی تعمیل پر قدرت حاصل ہولے۔ *لازمی شرطیں* اس رنگ میں ڈوبنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے: جس طرح اپنے جسم کو گناہ سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح فقیر اپنے دل کو خیالی گناہ سے محفوظ رکھے اور اگر دل میں کبھی کوئی خطرہ پیدا ہو تو فورا اس سے توبہ کرے! فقیر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں مرضیٔ الہی کے خلاف کسی خطرہ کا گزر ہی نہیں ہوتا، انہیں اس امر کی شرم ہوتی ہے کہ خدا کی دوستی کا دعوی کرکے کسی غیر خدائی خیال کو دل میں آنے دیں ___ یہ فقیر کا ابتدائی مرتبہ ہے، جب تک یہ قدرت نہ حاصل ہوجائے زبان پر فقیری کا نام لاتے ہوئے بھی شرمانا چاہئے! گناہ سے بچنے، احکام کی پابندی کرنے اور دل کو خطرات و وساوس سے محفوظ کرلینے کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ خدا کی طلب اور محبت دل پر اتنی غالب ہوجائے کہ دنیا کے تمام فوائد و منافع جل جائیں اور ان کا خیال تک نہ آنے پائے! دل کو محض محبوب حقیقی و مطلوب اصلی کے لیے مخصوص ہونا چاہئے اور ما سوائے سے بالکل خالی ہونا چاہئے! جب تک یہ کیفیت نہ طاری ہوجائے فقیری کا دعوی کرنے سے شرمانا چاہئے۔ *سچے فقیر کی علامت* محمدیؐ فقیروں کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے ذوق سے مست رہتے ہیں، اس کی آواز پر وجد کرنے لگتے ہیں اور اس کے سننے کے وقت ان پر خود متکلم یعنی خدا کی تجلیوں کا ظہور ہونے لگتا ہے، کیسے غضب کی بات ہے کہ جس محبوب کی محبت کا دعوی کیا جائے اسی کے کلام میں لطف نہ آئے اور اس کے لیے طبیعت حاضر نہ ہو اور لطف آئے تو شعر و قصیدے پر گانے بجانے اور تالیوں پر۔ ( *تصوف اسلام، صفحہ: 45، طبع: مکتبہ شاہکار، چوک بازار، لاھور*) ✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی https://telegram.me/ilmokitab
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

👍 1 1
وفیات مورخہ : ۱۴ جولائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Https://telegram.me/ilmokitab مولانا قاضی اطہر مبارکپوری: 14/جولائی/1996 ڈاکٹر محمد معظم جیر اجپوری: 14/جولائی/1994 آصف الجعفری (سید صفدر حسین): 14/جولائی/1994 ظفر انجمی (محمد حسین عباسی): 14/جولائی/2009 فہیم اعظمیٰ (ڈاکٹر امداد باقر رضوی): 14/جولائی/2004 قاسم ، ڈاکٹر ایم اے : 14/جولائی/1964 نور الصباح بیگم : 14/جولائی/1978 وحیدہ روشن پروین جالندھری : 14/جولائی/1989 یکتا امروہوی (سید واحد علی ): 14/جولائی/2003 محمد محسن خان: 14/جولائی/2021 حسین محمد ارشاد: 14/جولائی/2019 ممنون حسین: 14/جولائی/2021 راؤ ہاشم خان: 14/جولائی/2012 خضر نوشاہی: 14/جولائی/2021
نمایش همه...
علم و کتاب

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں

https://telegram.me/muniri

یک طرح متفاوت انتخاب کنید

طرح فعلی شما تنها برای 5 کانال تجزیه و تحلیل را مجاز می کند. برای بیشتر، لطفا یک طرح دیگر انتخاب کنید.