اور انہوں نے اپنی بات نبھائی، ((پیارے نبی کی باتیں، پیاری زبان میں )) نامی کتاب انہوں نے پڑھائی، یہ سوال الگ ہے کہ ان کتابوں کے وزن کا علم ہم نے مولانا عبد الحمید ندوی کے پاس ڈیڑھ ماہ میں سیکھا، ماسٹر صاحب کے پاس میں جمعہ کے روز صبح نو بجے سے دس بجے تک بیٹھتا، اس کا مجھے دہرا فائدہ ہوتا، گھر سے ناشتہ کرکے نکلتا، آپ کی اہلیہ محترمہ مجھے دوبارہ ناشتہ پیش کرتیں، وہ تھوڑا سا سبق پڑھاتے ، لیکن اس دوران ان کی الماری سے بہت ساری کتابیں لے کرمیں نے مطالعہ کیں، اللہ مغفرت کرے اس سے کچھ دنوں پہلے مولانا اویس مدنی کے بھائی قادر میراں مرحوم( بنکاک مالیکا) نے مجھے عمرآباد بھجوانے کی ترغیب دی تھی، لیکن یہ نہ ہوسکا، ہمیں قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا تھا، ماسٹر صاحب نے اس کی راہ نکالی، انہوں نے بچوں سے کہا کہ وہ شام کو آکر قرآن سیکھیں، اسکول میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا، اس زمانے میں ہیڈ ماسٹر کی شخصیت بڑی رعب دار ہوا کرتی تھی، ان کے کمرے میں بلاوجہ داخل ہونے اور ان کی کرسی پر کسی کو بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،باوجود اسکے انہوں نے اپنا کمرہ اس مقصد کے لئے دے کر اپنے کمرے کی کنجی مجھے سونپ دی، اس سے ہمیں بہت پریشانی ہوئی کہ ہیڈماسٹر کی کرسی پر کیسے بیٹھیں؟لہذا درخواست کرکے کھیلوں کا کمرہ اس کے لئے لیا، اس میں ہم طلبہ ہی پڑھاتے تھے، مولانا غزالی ″عبس وتولی ″ پڑھاتے تو ساری کلاس ان کے ساتھ پڑھتی ، اس وقت پڑھانے کے لئے مولانا محمود خیال صاحب اور قاری محمد اقبال صاحب کو بھی کئی ایک بار دعوت دی گئی تھی، ماسٹر صاحب کے ذہن میں ان بچوں کو قرآن سکھانے کی فکر لاحق تھی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ جامعہ کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کاموقعہ ملا، اس سے وہ بھی بہت خوش تھے، اس وقت آخری دو کلاسوں دسویں اور گیارہویں کے طلبہ کو آپ نے جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر شریک ہونے کی ہدایت کی ۔
اس زمانے میں میٹرک ، گیارہویں کلا س مکمل ہونے پر ہوا کرتی تھی، میں دسویں میں تھا، اور مولانا غزالی صاحب گیارہویں میں، ماسٹر صاحب نے ہمیں چھٹی دے کر جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر حاضر ہونے کو کہا، مولانا عبد الحمید ندوی ؒنے دریافت کیا ،کہ کون داخلہ کے لئے آیا ہے؟، تو منیری صاحب نے دو بچوں کو پیش کردیا، ایک آپ کے دوست کا بچہ عبد اللہ کوبٹے، اور دوسرا یوسف ، شیرور سے تعلق رکھنے والے آپ کے ایک ملازم کا بچہ، مولانا ارشاد احمد ؒنے پڑھایا،″ رب یسر ، ولا تعسر ، وتمم بالخیر″، اس کے بعد منیری صاحب میرے پاس آئےاور کہا کہ مولانا اگر اشارہ کریں تو آجانا، مولانا غزالی اور ان کے ایک ساتھی یس یم سید جعفر وکھلبے مرحوم سے بھی یہی کہا، آخر الذکر کبھی جامعہ کے طالب علم نہیں رہے، ہائی اسکول میں پڑھنے والے کرائے کے یہ تین بچے اس وقت کام آئے، پھر بلانے پرمیں نے اور مولانا غزالی اور سید جعفر نے بھی پڑھا، اور مولانا ارشاد صاحب نے اعلان کردیا کہ پانچ بچوں کا داخلہ ہوا ہے۔ اس کے بعد ہم اسکول لوٹ گئے۔
بسم اللہ خوانی کے دوسرے روز جو صورت حال تھی اس کا تذکرہ مولانا عبد الحمید ندویؒ یوں بیان کرتے ہیں:
″کیسی حوصلہ شکن اور صبر آزما تھی، ۲۰ ـ/ اگست کے بعد ۲۱ /اگست ۱۹۶۲ ء کی صبح ، آپ ہی آپ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا یہی درسگاہ تھی جس کی کل اوپننک ہوئی تھی؟ کل اسی کے لئے وہ سارے پیام سنے گئے تھے؟ بزرگوں کی دعاؤں کا حاصل اور نیک تمناؤں کا مرکز یہی ہے؟ اسی کے لئے زبان ہلتے ہی دردمندان قوم نے سیکڑوں نہیں ہزاروں ہزار پیش کردئے ، کیا عبد اللہ ہی کے لئے حضرت قبلہ مولانا ندوی مدظلہ کی خدمات کا ریزرویشن ہورہاتھا؟ علی ملپا ، سعدا جعفری، ڈی اے اسماعیل کی دلی تمناؤں اور مخلصانہ آرزؤں کا حاصل یہی ہے؟ منیری صاحب کے زور قلم ، سعی پیہم ، اور حسن تدبیر کے نتیجہ میں عبد اللہ اور عبد الحمید کے سوا کچھ نہ تھا، بظاہر خواب اور افسانہ کے سوا ، اس کا نام آپ اور کیا دیں گے؟″
مولانا عبد الحمید ندوی جیسے جلیل القدر عالم دین ، اور استاد الاساتذہ ،جیسکھ پور ، یوپی سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آئے تھے، ایک، الف باء پڑھنے والے بچوں کو پڑھانا ان کامقام ومنصب نہیں تھا، نہ ہی یہ کسی طرح آپ کی عزت افزائی تھی، اس ضرورت کا مدا وا کس طرح نکالا گیا ، اسے مولانا اقبال صاحب یوں بیان کرتے ہیں: