cookie

Utilizamos cookies para mejorar tu experiencia de navegación. Al hacer clic en "Aceptar todo", aceptas el uso de cookies.

avatar

ذخيرةالمسائل: از نورالحسن

Publicaciones publicitarias
225
Suscriptores
Sin datos24 horas
Sin datos7 días
Sin datos30 días

Carga de datos en curso...

Tasa de crecimiento de suscriptores

Carga de datos en curso...

المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح قال: (قد رأيت الذي صنعتم ولم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم). وذلك في رمضان"(صحيح البخاري 1129, صحيح مسلم 761) مشہور محدث علامہ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تراویح سنت رسول ہے اور اس کی باضابطہ ترغیب وفضیلت وارد ہوئی ہے ، تراویح “ایجاد عمر فاروق “ نہیں ہے ۔ حضرت فاروق اعظم نے ایک امام پہ جمع کرکے وہی کچھ کیا جو منشاء نبی تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں سے زیادہ استمرار فرضیت کے خدشے سے نہ فرمایا تھا کہ آپ اپنی امت کے تئیں سراپا رحم دل ومہربان تھے: "وفيه أن قيام رمضان سنة من سنن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، مندوب إليها مرغب فيها، ولم يسن منها عمر إلا ما كان رسول الله يحبه ويرضاه وما لم يمنعه من المواظبة عليه إلا أن يفرض على أمته وكان بالمؤمنين رؤوفاً رحيماً صلى الله عليه وسلم"(الاستذكار، لابن عبد البر (2,6/2) امام شاطبی فرماتے ہیں کہ نماز تراویح کی امامت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی ، آپ کے پیچھے صحابہ نے بھی اجتماعی طور پہ ادا فرمائی : "فصلاة التراويح في رمضان جماعة في المسجد، قدقام بها رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، واجتمع الناس خلفه"( الاعتصام، للشاطبي (1/ 847). (٤) عبد الرحمن بن عبد القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی رات مسجد کی طرف گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروہوں میں تھے , کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا توکسی کی اقتداء میں ایک گروہ نماز کی ادائیگی کر رہا تھا ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ فرمایا میرا خیال ہے کہ اگر میں انہیں ایک ہی قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ پھر انہوں نے اس کام کا پختہ ارادہ بنا لیا اور انہیں اُبَیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا ۔ پھر میں انکے ساتھ ایک دوسری رات کو نکلا اور لوگ اپنے قاری کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ فرمایا یہ اچھی ایجاد ہے , اور رات کے جس حصہ میں وہ سو جاتے ہیں وہ اس کی نسبت بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں ۔ وہ (بہتر حصہ سے ) رات کا آخری حصہ مراد لے رہے تھے , جبکہ لوگ رات کے پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے : عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ (صحيح البخاري : 2010 ) ان احادیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود ہی تراویح کی بنیاد بھی ڈالی اور خود بھی کچھ دن نماز تراویح باجماعت بھی پڑھائی ، فرض ہوجانے کے خدشہ سے جماعت ترک کر دی , اور آپ ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی باجماعت نماز تراویح پڑھی ۔ اور باجماعت نماز تراویح کا یہ سلسلہ آپ ﷺ کے دور مسعود سے آج تک مسلسل چلا آرہا ہے ۔ ہوا صرف یہ کہ فاروق اعظم کے فیصلے تک صحابہ کرام ایک ہی مسجد میں مختلف گروہوں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی صورت میں نماز تراویح پڑھتے تھے ،حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد کے تمام لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع فرما دیا ، چونکہ یہ “آشناے مزاج یار” اور اتّباع سنت نبی میں یگانہ ویکتاے روزگار تھے ، لامحالہ ایک امام پہ سب کو جمع کرنے کا فیصلہ بھی منشاء نبوی کے عین مطابق ہی کیا ہوگا ؛ اگر ذرا بھی مزاج نبوی سے انحراف ہوتا تو ہزاروں بلکہ لاکھوں صحابہ اس پہ خاموش نہ رہتے بلکہ لازماً نکیر فرماتے ، لیکن سب کا تسلیم کرلینا بتاتا ہے کہ یہ عمل عین مزاج نبی کے مطابق انجام دیا گیا ۔ ابو اسامہ القاسمی بیگوسرائے
Mostrar todo...
کیا نماز تراویح کوئی نماز نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں کے بعد تراویح کی جماعت موقوف کیوں فرمادی ؟ —————————- بقلم : مفتی شکیل منصور القاسمی چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے لئے رئوف ورحیم تھے ، دینی معاملات میں اپنی امت کے تئیں ہمیشہ یسر وسہولت اور تخفیف وتسہیل کے خواہاں ہوتے تھے ؛ اس لئے نبی ﷺ کسی عمل کو چاہتے ہوئے بھی کبھی چھوڑ دیتے، اس اندیشے کے تحت کہ مبادا لوگوں کی طرف سے اس عمل کو اجتماعی ہیئت میں کرنے کی وجہ سے وہ فرض نہ ہو جائے اور اس کی وجہ سے انھیں کسی بڑی مشقت کا سامنا کرنا نہ پڑ جائے۔ آپ ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو مشقت میں ڈالیں، زمانہ نزول وحی اور تشریع احکام کا تھا ، حالات وضروریات اور پیش آمدہ تقاضے وچیلنجس کے مطابق احکام خداوندی اور ہدایات ربانی نازل ہوتے تھے ؛ یا تو خدشہ افتراض ہوگا یا پھر آپ کو بتادیا گیا ہوگا کہ آپ کی ہیئت اجتماعی کے ساتھ عملی مواظبت ومداومت کے باعث ممکن ہے کہیں یہ نماز امت پہ لازم نہ ہوجائے ؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسہیل وتخفیف کے پیش نظر تراویح کی امامت کرنا موقوف فرمادی زرقانی نے شرح موطا میں علامہ باجی کے حوالے سے لکھا ہے : وَقَالَ الْبَاجِيُّ: قَالَ الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّهُ إِنْ وَاصَلَ الصَّلَاةَ مَعَهُمْ فَرَضَهَا عَلَيْهِمْ، وَيُحْتَمَلُ أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ظَنَّ أَنَّ ذَلِكَ سَيُفْرَضُ عَلَيْهِمْ لِمَا جَرَتْ عَادَتُهُ بِأَنَّ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ عَلَى وَجْهِ الِاجْتِمَاعِ فُرِضَ عَلَى أُمَّتِهِ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يُرِيدَ بِذَلِكَ أَنَّهُ خَافَ أَنْ يَظُنَّ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِهِ بَعْدَهُ إِذَا دَاوَمَ عَلَيْهَا وُجُوبَهَا، وَإِلَى الثَّالِثِ نَحَا الْقُرْطُبِيُّ فَقَالَ: قَوْلُهُ أَنْ يُفْرَضَ عَلَيْكُمْ أَيْ تَظُنُّونَهُ فَرْضًا فَيَجِبُ مَنْ ظَنَّ ذَلِكَ كَمَا إِذَا ظَنَّ الْمُجْتَهِدُ حِلَّ شَيْءٍ أَوْ حُرْمَتَهُ فَيَجِبُ عَلَيْهِ الْعَمَلُ بِهِ، وَقِيلَ: كَانَ حُكْمُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِذَا وَاظَبَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ الْأَعْمَالِ وَاقْتَدَى النَّاسُ بِهِ فِيهِ أَنَّهُ يُفْرَضُ عَلَيْهِمُ اهـ. وَلَا يَخْفَى بُعْدُهُ فَقَدْ وَاظَبَ عَلَى رَوَاتِبِ الْفَرَائِضِ وَتَابَعَهُ أَصْحَابُهُ وَلَمْ تُفْرَضْ. (شرح الزرقاني على الموطأ413/1) صحیحین کی روایت ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے: إنْ كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيَدَعُ العَمَلَ وهو يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ به؛ خَشْيَةَ أنْ يَعْمَلَ به النَّاسُ، فيُفْرَضَ عليهم( صحيح البخاري 1128. صحيح مسلم 718) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ تراویح کی باجماعت نماز تین راتوں کی طرح ہی آگے بھی بحال وباقی رکھیں ، لیکن خدشہ افتراض کے پیش نظر اسے باجماعت کنٹینیو اور مسلسل کرتے رہنے کو موقوف فرمادیا : قدْ رَأَيْتُ الذي صَنَعْتُمْ ولَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الخُرُوجِ إلَيْكُمْ إلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ علَيْكُم وذلكَ في رَمَضَانَ. ( عن عائشة أم المؤمنين.صحيح البخاري: 1129). …….میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں، مجھے رات کو امامت کے لئے نکلنے سے اس کے سوا مانع نہ ہوا کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے (اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے)۔ یہ واقعہ رمضان کا تھا ( رواه الإمام البخاري في كتاب صلاة التراويح من صحيحه، باب فضل من قام رمضان عن عائشة رضي الله عنها (٤/ ٢٥٠ ـ ٢٥١ فتح)، والإمام مسلم في كتاب المسافرين من صحيحه، باب الترغيب في صلاة التراويح (٦/ ٤١ نووي)، والإمام أبو داود في كتاب الصلاة من سننه، باب في قيام شهر رمضان برقم (١٣٧٣) (٢/ ٥٠)، والإمام النسائي في كتاب قيام الليل وتطوع النهار من سننه، باب قيام شهر رمضان (٣/ ٢٠٢)، والإمام أحمد في المسند (٦/ ١٨٢ ـ ١٨٣)، والإمام مالك في الموطأ (١/ ١١٣).۔
Mostrar todo...
مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ نے ایک خاص مقصد کے تحت تین راتوں کے بعد تراویح کی امامت تو موقوف فرمادی ، لیکن حضرات صحابہ کرام کو اس بات کا پابند نہ کیا گیا تھاکہ وہ اپنے طور پہ باجماعت تراویح بھی نہ پڑھیں ، اپنی سہولت وفرصت کے اعتبار سے انفرداً اور اجتماعاً دونوں حیثیتوں سے نماز تراویح ادا کی جارہی تھی ، چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن قاری جو عہد فاروقی میں محمکہ بیت المال کے کاموں پہ مامور تھے کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فیصلے (ایک امام کے تحت سب کو جمع کرنے ) سے پیشتر بھی صحابہ کرام چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں باجماعت نماز تراویح بھی ادا فرماتے تھے ، یعنی صحابہ کرام میں تراویح کی چھوٹی چھوٹی جماعت کا معمول کسی نہ کسی شکل میں باقی رہا ، حضرت عمر فاروق کے زمانے میں اسے اجماع صحابہ سے “ارتقائی شکل “ عطا ہوئی ۔ صحیح بخاری میں ان کی روایت ہے : خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، ‌‌‌‌‌‏فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، ‌‌‌‌‌‏يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، ‌‌‌‌‌‏وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ عُمَرُ:‌‌‌‏ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ( صحيح البخاري 2010، ‌‌‌‌‌‏صحيح ابن خزيمة 1100) میں ( عبد الرحمن بن قاری) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا) کیا نماز تراویح کوئی نماز نہیں ؟؟ ——————————- نماز تراویح کی بنیاد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی ہے (إن اللَّه أفترض عليكم صيامه (وسننت لكم قيامه (أخرجه أحمد (١٦٦٠)، وابن ماجه (١٣٢٨)، والنسائي ٤/ ١٥٨، وابن خزيمة (٢٢٠١)، والطيالسي (٢٢٤)، وأبو يعلى (٨٦٣)، وعبد ابن حميد (١٥٨)، والشاشي (٢٤١)، والبزار (١٠٤٨). اس کی باجماعت ادائی کا آغاز بھی آپ کی سنت مبارکہ سے ہی ہوا ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ارشاد مبارک اور عمل مبارک ، ہر دو طریقوں سے اسے نافذ کیا ۔ یعنی تراویح کی مشروعیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قولیہ اور سنت عملیہ دونوں سے عمل میں آئی ہے ، اس کے علاوہ تراویح کی مشروعیت پہ امت مسلمہ کا اجماع قائم ہے ، روافض کے علاوہ کسی نے بھی اس کی مشروعیت کا انکار نہیں کیا ہے ، مبسوط سرخسی میں ہے : «الأمة أجمعت على شَرْعِيَّتها وجوازِها، ولم ينكرها أحد من أهل العلم؛ إلا الروافض، لا بارك الله فيهم»(المبسوط (٢/ ١٤٣). (۱) سنن ترمذی میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے امام کے ساتھ قیام کیا (تراویح پڑھی ) یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا : إنَّهُ من قام مع الإمامِ حتى ينصرفَ هو ، كُتِبَ لهُ قيامُ ليلةٍ سنن الترمذي: 806). (۲) عن أبی هريرة- - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (من قام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه— جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت اور حالت ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔صحیح بخاری 37, صحیح مسلم 173). حدیث میں وارد لفظ قیام کی تشریح فرماتے ہوئے مشہور محدث علامہ نووی کا کہنا ہے کہ اس سے مراد تہجد نہیں ؛ بلکہ تراویح ہے ، جس کے استحباب پہ علماء امت کا اتفاق ہے "والمراد بقيام رمضان صلاة التراويح، واتفق العلماء على استحبابها"(شرح النووي على صحيح مسلم ( 39/6) (۳) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔ دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہوگیا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا؛ لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا : وعن عائشة أم المؤمنين "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى ذات ليلة في
Mostrar todo...
*خدارا افطار جیسی عبادت کا تمسخر نہ اڑائیں !* ✍️: *شکیل منصور القاسمی* “افطار “ روزہ کا تتمہ ہے ، دیگر عبادتوں حتی کہ خود روزہ کی طرح وہ بذات خود ایک عبادت ہے ،روزہ دار کو روزہ افطار کرانے پہ بے شمار اجر و ثواب کے ترتب کی بات متعدد حدیثوں میں آئی ہے ، ذیل کے سطور میں چند فضائل ملاحظہ فرمائیں : 1 )”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى طَعَامٍ وَشَرَابٍ مِنْ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ فِي سَاعَاتِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَ صَلَّى عَلَيْهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ“ جس نے کسی روزہ دار کو حلال رزق میں سے کھلا پلاکر اِفطار کرا یا اُس پر فرشتے رمضان کی مُبارک ساعات(اوقات)میں اور جبریل امین شبِ قدر میں رحمت نازل ہونے کی دعاء کرتے ہیں۔(شعب الایمان :6162)(طبرانی کبیر: 6162) (2)حضرت جبریل امین شبِ قدر میں مصافحہ کرتے ہیں : حضرت سلمان فارسی کی ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں : ”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ لَيَالِي رَمَضَانَ كُلِّهَا، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ“جس نے کسی روزہ دار کو حلال کمائی میں سے کھلا پلاکر اِفطار کرا یا ،رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اُس پر نزولِ رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور حضرت جبریل امین شبِ قدر میں اُس سے مصافحہ کرتے ہیں ۔(شعب الایمان : 3669) (3)روزہ دار جیسا اَجر و ثواب کا حاصل ہوتا ہے : حضرت زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا : ”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ“ جس نے کسی روزہ دار کو اِفطار کرایا یا کسی مجاہد کو اللہ کے راستے میں نکلنے کیلئے سامان دیا تو اُس کیلئے اُس روزہ دار اور مجاہد کی طرح(روزہ رکھنے اور جہاد کرنے کے برابر)اجر ہے۔(شعب الایمان :3667) حضرت ابوہریرہ سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺاِرشادفرماتے ہیں : ”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فَأَطْعَمَهُ وَسَقَاهُ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ“ جو شخص کسی روزہ دار کو اِفطار کرائے اور اُسے کھلائے اور پلائے تو اُس کیلئے اُس روزے دار کے جیسا اجر وثواب ہے۔(شعب الایمان : 3668) (4)گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے خلاصی ملتی ہے : حضرت سلمان فارسی کی وہ طویل حدیث جس میں نبی کریمﷺنے شعبان کی آخری تاریخ میں خطبہ دیاتھا اُس میں آپﷺنے یہ بھی اِرشاد فرمایا تھا : ”مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ“ جس نے اِس مہینے میں کسی روزہ دار کو اِفطار کرایا تو یہ اُس کیلئے گناہوں سے مغفرت اور اُس کی گردن کے جہنم سے آزاد ہونے کا ذریعہ بن جائے گا اور اُس کیلئے روزہ دار کے ثواب میں کمی کیے بغیر روزہ دار کے ثواب کی طرح اَجر ہوگا ۔(شعب الایمان : 3336) (5)حوض کوثر کا جام پلایا جائے گا: حضرت سلمان فارسی کی مذکورہ حدیث ہی میں نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد بھی منقول ہے: ”وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ“ جس نے کسی روزہ دار کو(اچھی طرح) اِفطار کراکر سیر کردیا اللہ تعالیٰ اُسے میرے حوض سے ایسا جام پلائیں گے کہ وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا یہاں تک کہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔(شعب الایمان : 3336) افطار کرانے کے مذکورہ بالا سارے فضائل “صائم” یعنی “روزہ داروں “ کی خدمت وضیافت کرنے کے ساتھ خاص ہے ، “روزہ خوروں “کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ۔ اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ مذہب اسلام کا یوں تو خلاصہ ومقصد ہی دوسروں کو نفع پہنچانا ہے. اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی خلق خدا کی داد رسی کو عبادت قرار نہیں دیا۔یہ مذاہب کی تاریخ کا خاص امتیاز ہے کہ اسلام نے انسانیت کے رشتہ کی بنیاد پہ انسانوں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے کر سب سے بہتر اس شخص کو قرار دیا ہے جو ذاتی منفعت کے لئے نہیں ، بلکہ اجتماعی مفاد کے لئے جیتا ہو۔ فقال: خيرُ الناسِ من ينفعُ الناسَ فكن نافعًا لهم.(عن خالد بن الوليد مجموع فتاوى ابن باز - الرقم: 26/330 ) اسی لئے "خدمت خلق" کو محبوبیت خداوندی کے حصول کا سب سے "شارٹ کٹ" اور مختصر راستہ قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔اس بنیاد پر بلا مذہبی امتیاز و تفریق کے ، محتاج، مفلوک الحال، غریب اور پریشان حال کافروں کی حاجت روائی ، داد رسی، اور انہیں کھانا کھلانا باعث اجر وثواب ضرور ہے! افطار کے دستر خوانوں پر اگر ایسے محتاج اور غریب کافر شریک طعام ہوجائیں تو ظاہر ہے اسلام انہیں دسترخوان سے اٹھانے کی تعلیم نہیں دے سکتا ، بلکہ انہیں شریک افطار کرلینے کی گنجائش رہے گی ؛ کہ یہ خدمت خلق کے ساتھ تالیف قلب اور اسلامی تعلیمات اور اس کے محاسن کی خاموش دعوت بھی ہے!
Mostrar todo...
لیکن قومی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے خوش نما دعووں اور نعروں کی بنیاد پہ “تداعی “ ، مکمل “انتظام “بلکہ “اہتمام “ اور اشتہار کے ساتھ کھاتے پیتے، اچھے خاصے رئیس، مالدار ، پراڈو، لانڈ کروزر کے مالک کفار ومشرکین کو جب افطار جیسی عبادت پہ جمع کیا جائے گا تو پہر کیا مستبعد ہے کہ کل کو نماز ، روزہ ، قربانی اور حج میں بھی انہیں دوش بدوش شریک نہ کیا جانے لگے ؟؟ کافروں کے ساتھ بیجا اختلاط، اعزاز واکرام اور بلاضرورت ( مہمانوں ، محتاجوں اور تالیف قلب کے لئے کی جانے والی دعوتوں کا حکم مستثنی ہے ) انہیں اپنے دسترخوانوں پہ شریک طعام کرنے سے ہم مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصاحب إلا مؤمنا ولا يأكل طعامك إلا تقي" قال أبو عيسى هذا حديث إنما نعرفه من هذا الوجهم سنن ترمذی 2395۔۔) اسی لئے جمہور فقہاء، شراح حدیث، اور ائمہ حنفیہ کے یہاں کسی بھی غیر مسلم بشمول ذمی کو "السلام علیکم " کے ذریعہ ابتداءً سلام کرنا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی “تعظیما “ کرتا ہے تو صریح کفر ہے، ہاں! اگر وہ سلام کرلیں تو اس کے جواب میں صرف " وعلیکم " وعلیک، یا " علیکم " بغیر واو کے کہا جائے ۔ کس قدر افسوسناک، المناک بلکہ شرمناک سلسلہ ہم میں شروع ہوچکا ہے کہ مسلمان اپنے غریب مسلم بھائیوں ، روزہ داروں اور اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ اور بھول کر غیر مسلم نیتائوں اور سیاسی بازیگروں کے لئے ہزاروں اور لاکھوں کے صرفہ سے “دعوت شیراز “ کا اہتمام اور اس کا فخریہ اظہار کرنے لگے ہیں ! جبکہ دوسری طرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اجانب کے بالمقابل اپنے رشتہ داروں پہ احسان وتطوع کرنے سے دہرا ثواب انسان کو ملتا ہے، ایک اجر صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا : "الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذي الرحم ثنتان صدقة وصلة" (أخرجه الترمذي، أبواب البر والصلة عن رسول الله ﷺ، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين (4/ 311)، برقم: (1900) میرے پیارے مسلم بھائیو! افطار کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے، ایسے وقت میں اپنے رشتہ داروں اور روزہ داروں کو شریک افطار کرکے خدا کی رحمت ومغفرت سمیٹئے، اتنے قیمتی اور خاص لمحے کو کفار کے ساتھ گپ شپ، ٹٹھا ہنسی مذاق، سیاسی تبصرے ، تجزیئے، فوٹو اور سیلفی بازی کے ذریعہ ، نماز میں تاخیر یا اسے بالکلیہ چھوڑ کر عذاب خداوندی کو دعوت نہ دیجیئے! خدا را فہم وتدبر اور شعور سے کام لے کر اسلام کی اس متبرک عبادت " افطار " کی شبیہ بگاڑنا اور اس کا تمسخر اڑانا چھوڑ دیجیے ! کسی اور عنوان سے اپنے غیر مسلم دوستوں کو مدعو کرکے رواداری اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرلینے میں کوئی حرج تو نہیں ؟ خدا آپ کو توفیق اور صحیح سمجھ دے ۔ *شکیل منصورالقاسمی* مرکز البحوث الاسلامیہ
Mostrar todo...
Husain Ahmad Madani.pdf8.73 MB
*اہم مشمولات* ——————— تراویح کسے کہتے ہیں ؟ کیا تراویح اور قیام اللیل میں کوئی فرق ہے ؟ نماز تراویح کی مشروعیت کب اور کس طرح ہوئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں کے بعد تراویح کی جماعت موقوف کیوں فرمادی ؟ تراویح کی بنیاد حضور نے خود رکھی ہے مشروعیتِ تراویح کے اغراض ومقاصد تراویح در اصل ختم قرآن کے لئے مشروع ہوئی ہے تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ُسنِّیَتِ تراویح سے متعلق صاحب مذہب سے مروی تین روایات جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط تین رات ہی تراویح پڑھی تو نماز تراویح سنت مؤکدہ کیسے ہوگئی ؟ سنتِ شرعیہ کسے کہتے ہیں ؟ کسی عمل پہ مواظبت کا عزم ہی اس کی سنیت اور تاکّد کے لئے کافی ہے تراویح میں جماعت کی حیثیت کیا ہے ؟ اگر تراویح سنت مؤکدہ ہے تو امام قدوری نے اسے مستحب کیوں لکھا ؟ تراویح کی تعداد رکعات کے بارے اقوال ومذاہب ائمہ بیس رکعات تراویح کا ثبوت احادیث صحیحہ سے وتر سمیت ۱۱ یا ۱۳ رکعات تراویح سے متعلق روایات کا درست محمل اور تشفی بخش تجزیہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیس رکعات تراویح پڑھی ہے ؟ نماز تراویح میں ختم قرآن کی شرعی حیثیت اور اور اقوال ائمہ متبوعین کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح میں ختم قرآن ثابت ہے ؟ تراویح میں ختم قرآن کے تئیں معمول صحابہ کیا تھا ؟ تراویح میں ختم قرآن مسنون ہونے کی بنیاد کیا ہے ؟ کیا لوگوں کی سستی وکاہلی کے باعث ختم قرآن ترک کرنے کی گنجائش ہے ؟ تخفیف علی الناس کے مقصد سے ترک ختم قرآن والی فقہی روایات کی تحقیق تراویح میں قرآن کس رفتار میں پڑھا جائے ؟ قرآن پڑھنے کے چار درجات فرائض وسنن میں رفتار قراءت میں تفاوت ؟ ناقابل فہم تیز رفتاری سے قرآن پڑھنے کی کراہت صاحب مذہب سے منقول ہر رکعت کی مقدار تلاوت پر عمل کیا جائے قرآت میں حد سے زائد تیز رفتاری کے رواج کو ختم کیا جائے
Mostrar todo...
تراویح اور ختم قرآن حقیقت ، حیثیت اور ہماری بے اعتدالی مفتی شکیل منصور قاسمی صاحب دامت برکاتہم
Mostrar todo...
Tarawih w Khatm e Quran B (3).pdf7.14 MB
Elige un Plan Diferente

Tu plan actual sólo permite el análisis de 5 canales. Para obtener más, elige otro plan.