cookie

نحن نستخدم ملفات تعريف الارتباط لتحسين تجربة التصفح الخاصة بك. بالنقر على "قبول الكل"، أنت توافق على استخدام ملفات تعريف الارتباط.

avatar

🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

إظهار المزيد
مشاركات الإعلانات
260
المشتركون
لا توجد بيانات24 ساعات
لا توجد بيانات7 أيام
لا توجد بيانات30 أيام

جاري تحميل البيانات...

معدل نمو المشترك

جاري تحميل البيانات...

کیا اصحاب کہف کا کتا جنت میں جائے گا؟ *★★★ مسئلہ نمبر (٨٤٩)★★★* سوال کیا اصحابِ کہف کا کتا جنت میں جائے گا؟ جواب بعض مفسرین کرام نے ذکر کیا ہے اور اسی طرح بعض فقہ کی کتابوں میں بھی اس بات کی صراحت ہے کہ اصحاب کہف کا کتا جنت میں جائے گا ،باقی وہ کس کیفیت اور کس شکل و صورت میں جائے گا یہ اللہ جل شانہ ہی کو معلوم ہے ۔ وفي التفسير المظهري: "قال خالد بن معدان ليس فى الجنة شىء من الدواب سوى كلب اصحاب الكهف وحمار بلعام." (6/ 21الناشر: مكتبة الرشدية - الباكستان) وفي روح المعاني : "وجاء في شأن كلبهم أنه يدخل الجنة يوم القيامة فعن خالد بن معدان ليس في الجنة من الدواب إلا كلب أصحاب الكهف وحمار بلعم ورأيت في بعض الكتب أن ناقة صالح وكبش إسماعيل أيضا في الجنة ورأيت أيضا أن سائر الحيوانات المستحسنة في الدنيا كالظباء والطواويس وما ينتفع به المؤمن كالغنم تدخل الجنة على كيفية تليق بذلك المكان وتلك النشأة وليس فيما ذكر خبر يعول عليه فيما أعلم نعم في الجنة حيوانات مخلوقة فيها وفي خبر يفهم من كلام الترمذي صحته التصريح بالخيل منها والله تعالى أعلم وقد اشتهر القول بدخول هذا الكلب الجنة." (15/ 226الناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت) وفي الأشباه والنظائر لابن نجيم: "ليس من الحيوان من يدخل الجنة إلا خمسة : كلب أصحاب الكهف وكبش إسماعيل ، وناقة صالح وحمار عزير ، وبراق النبي صلى الله عليه وسلم." (ص: 382الناشر : دار الكتب العلمية،بيروت،لبنان) فقط واللہ أعلم فتوی نمبر : 144309100191 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

قرآن کی قسم کا کفارہ *★★★۔ مسئلہ نمبر (٨٤٨) ★★★* سوال قرآن پاک کی قسم لینے اور پھر توڑنے کا کفارہ کیاہو سکتا ہے؟ جواب قرآن کی قسم کھانے سے منع کیاگیاہے، لیکن اگر کسی نے (قسم کے الفاظ کہتے ہوئے) قرآن پاک کی قسم کھالی تو منعقد ہوجاتی ہے، اگر کسی جائز یا بہتر کام کی قسم کھائی ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے، البتہ اگر قسم ٹوٹ جائے یا نامناسب کام پر قسم کھائی تھی اور اسے توڑدیا تو اس کے توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے, چاہے تو ہر مسکین کو ایک صدقہ فطر کی مقدار (پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت) بھی دے سکتا ہے، یا دس مسکینوں کو لباس پہنائے، اور ان دونوں صورتوں کی گنجائش نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔ فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 143905200004 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مہر *★★★مسئلہ نمبر (٨٦٧) ★★★* سوال آپﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو مہر میں کتنے اونٹ دیے؟ جواب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے مہر کے بارے میں سیرت کی کتب میں مختلف اقوال ذکر کیے گئے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ مہر میں پانچ سو دراہم مقرر ہوئے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مہر میں بیس جوان اونٹ دیے گئے تھے۔ البداية والنهاية - (2 / 359): "قال ابن هشام: فأصدقها عشرين بكرة وكانت أول امرأة تزوجها [ رسول الله صلى الله عليه وسلم ] ولم يتزوج عليها غيرها حتى ماتت". السيرة الحلبية - (1 / 226): "وقد بذل لها من الصداق ما عاجله وآجله إثنتي عشرة أوقية ونشا أي وهو عشرون درهما والأوقية أربعون درهما أي وكانت الأواقي والنش من ذهب كما قال المحب الطبري أي فيكون جملة الصداق خمسمائة درهم شرعي وقيل أصدقها عشرين بكرة أي كما تقدم أقول لامنافاة لجواز أن تكون البكرات عوضا عن الصداق المذكور وقال بعضهم يجوز أن يكون أبو طالب أصدقها ما ذكر وزاد صلى الله عليه وسلم من عنده تلك البكرات في صداقها فكان الكل صداقًا والله أعلم." -سیرت مصطفی ﷺ، جلد سوم ، ص:277،مظہری۔ فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144207201087 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

بلا عذرمسجد کی چھت پرنمازپڑھنا مکروہ ہے، اسی طرح نچلی منزل میں جگہ ہونے کے باوجود اسے چھوڑ کر مکمل جماعت چھت پر کرانا بھی مکروہ ہے،مسجد کی نچلی منزل چھوڑ کر چھت پر جماعت کرانا مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث تعامل کے خلاف ہے اور نچلی منزل کا خالی رہنا مسجد کے احترام کے بھی خلاف ہے، اس لیے بلا عذر اصل مسجد چھوڑ کر چھت پر جماعت کرانا خلافِ سنت اور مکروہ ہے۔البتہ اگر عذر ہو تو بلا کراہت جائز ہوگا یعنی اگر امام نیچے کے حصے میں مسجد کے اندرونی ہال میں ہو اور جماعت اس کے ساتھ ہو،لیکن جماعت کی کثرت اور جگہ کی تنگی کی بنا پر کچھ آدمی اوپر مسجد کی چھت پراقتدا کرلیں تو یہ بلا کراہت جائز ہوگا، واضح رہے کہ گرمی عذر میں داخل نہیں ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656) '' (و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء''۔ '' (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد)، علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه، ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه، ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى، كما في البيري عن الإسبيجابي''. الفتاوى الهندية (5/ 322) '' الصعود على سطح كل مسجد مكروه، ولهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذ لا يكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب''. فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 143909200986 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

مسجد کے نچلے حصے میں اوپر کے حصہ پر موجود امام کی اقتداء کرنا؟ *★★★ مسئلہ نمبر۔ (٨٤٦) ★★★* سوال(۷۸۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: چند سال پہلے ہمارے یہاں پر ایک مسجد شہید کرکے اسی جگہ پر دوسری مسجد تعمیر کی گئی، اور جو مسجد شہید کی گئی وہ دو منزلہ تھی، ۹۰؍سال سے نمازیں تلاوت ذکر واذکار وغیرہ پہلی منزل پر ہوتی تھی، جو زمین سے لگاہوا تھا، پھر نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے نئی مسجد بنائی گئی، اور اس میں تین منزلہ تعمیر ہوئی، اب جس وقت نماز شروع ہوئی تو دوسری منزل سے شروع ہوئی، وہ منزل زمین سے سات فٹ اونچی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو نمازی دوسری منزل پر امام کے پیچھے اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں، ان کی نمازیں صحیح ادا ہوئیں یا نہیں؟ اور ایسی جگہ پر نماز چھوڑکر جہاں ہمیشہ نماز ہوتی رہی، زمین کی سطح سے اونچا ئی پرنماز ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو شخص نماز نیچے پڑھتا ہے، جہاں شروع میں نماز ہوتی رہی، تو امام صاحب کہتے ہیں کہ دوسری منزل پر امام کے پیچھے جگہ خالی ہونے کے باوجود جو شخص نیچے نماز پڑھے گا اس کی نماز نہیں ہوگی، اور بوڑھوں کمزوروں کو پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں، اور نئی تعمیر کردہ مسجد میں دوسری منزل پر جوکہ زمین سے سات فٹ اونچی ہے، جتنی نمازیں ادا کی گئیں وہ صحیح ادا ہوئی یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کی زمین نیچے سے لے کر اوپر تک سب مسجد کے حکم میں ہی رہتی ہے؛ لہٰذا اگر مصلحۃً زمین کی سطح کے اوپر کے حصہ میں باقاعدہ جماعت خانہ بنالیا جائے اور مستقل وہیں جماعت ہوا کرے، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، اور فقہاء نے اوپر کے حصہ میں نماز سے جو منع کیا ہے، وہ اس صورت میں ہے جب کہ دوسری منزل کو باقاعدہ جماعت خانہ نہ بنایا گیا ہو۔ (امداد الاحکام ۲؍۵۳) تاہم جو شخص نچلے حصہ میں نماز پڑھے گا، اس کی بھی نماز درست ہوجائے گی، گوکہ وہ امام سے قریب ہونے کے ثواب سے محروم رہے گا۔ اور امام صاحب کا یہ کہنا کہ جو شخص اوپر والی منزل میں جگہ رہتے ہوئے نیچے والی منزل میں نماز پڑھے گا اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی، غلط ہے۔ ایسے شخص کی بھی نماز شرعاً ہوجائے گی، عن صالح مولی التوأمہ أنہ رأی أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یصلي فوق ظہر المسجد بصلاۃ الإمام في المسجد۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴؍۲۷۷ رقم: ۵۳۴۶) وأخرج البیہقي عنہ قال: کنت أصلي أنا وأبو ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ فوق ظہر المسجد نصلي بصلاۃ الإمام للمکتوبۃ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴؍۲۷۷ رقم: ۵۳۴۵) وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالیٰ: {وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ} (البحرالرائق ۵؍۲۵۱) ولہٰذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (شامي ۲؍۴۲۸ زکریا) وکذا لو صلی علی سطح المسجد مقتدیا بإمام في المسجد تجوز صلا تہ؛ لأن غالب سطح المسجد لا یخلو عن کوۃ ومفصل ومنفذ فصار کحائط بینہ وبین الإمام علیہ باب، ہٰذا إذا کان مقامہ خلف الإمام أو علی یمینہ أو علی یسارہ، فأما إذا کان أمام الإمام أو بإزائہ فوق رأسہ، لا یجوز وہو المنقول عن أصحابنا۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۶۶ رقم: ۲۳۸۵ زکریا) فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۵؍۱۱؍۱۴۲۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللّٰہ عنہ #شیخ_محمد_مستقیم_ارریاوی #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

متفرقات >> دیگر سوال نمبر: 21997 عنوان: (۱)لفظ ?مولانا? کے معنی کیا ہیں؟ (۲)کیا کسی کو مولانا کہنا صحیح ہے؟ (۳)میری آفس میں ایک صاحب ہیں جن کا تعلق ایک فرقہ جو کہ اپنے آپ کو جماعة المسلمین کہتا ہے سے ہے انھوں نے ایک کتابچہ دیا جس میں لکھا ہے کہ لفظ ?مولانا? صرف اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اس میں ایک قرآن کی آیت کا حوالہ دیاگیا ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت کیجئے۔ سوال: (۱)لفظ ?مولانا? کے معنی کیا ہیں؟ (۲)کیا کسی کو مولانا کہنا صحیح ہے؟ (۳)میری آفس میں ایک صاحب ہیں جن کا تعلق ایک فرقہ جو کہ اپنے آپ کو جماعة المسلمین کہتا ہے سے ہے انھوں نے ایک کتابچہ دیا جس میں لکھا ہے کہ لفظ ?مولانا? صرف اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اس میں ایک قرآن کی آیت کا حوالہ دیاگیا ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت کیجئے۔ جواب نمبر: 21997 بسم الله الرحمن الرحيم فتوی(د): 683=518-5/1431 مولا کے مختلف معنی آتے ہیں: مالک، سردار، غلام، (آزاد ہونے والا آزاد شدہ) ساتھی اس لحاظ سے کسی بڑے یا قابل احترام شخص کو مولا کہہ سکتے ہیں، حدیث میں ہے: من کنتُ مولاہ فعلي مولاہ (ابن ماجہ) قرآن پاک میں بھی وہو کلٌّ علی مولاہ استعمال ہوا ہے، مولانا کے معنی ہوتے ہمارے بڑے قابل احترام، اس کا استعمال کرنا جائز ہے، عرف میں علمائے کرام یا بزرگان دین کے لیے استعمال ہوتا ہے جو شرعاً جائز ہے۔ (۲) کتاب یا اس کا اقتباس منسلک کرکے بھیجیں۔ مولیٰ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے: اللہ مولانا ولا مولی لکم کہ یہاں مولانا سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند نقل کردہ شیخ محمد مستقیم ارریاوی گروپ ایڈمن https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

🔬 دس بے اصل روایات 🔬 *★★★ (مسئلہ نمبر ٨٤٥)★★★* عوام میں بہت سی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی دس بے اصل روایات ملاحظہ فرمائیں: ▪ *روایت 1⃣:* حضور اقدس ﷺ دین کی دعوت کے سلسلے میں ابو جہل کے دروازے پر سو بار تشریف لے گئے تھے۔ ▪ *روایت 2️⃣:* ایک بار حضور اقدس ﷺ نے سخت طوفانی رات میں ابو جہل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ابو جہل نے اپنی بیوی سے کہا کہ ایسی طوفانی رات میں کوئی ضرورت مند ہی یہاں آسکتا ہے، اس لیے میں اس کی حاجت ضرور پوری کروں گا، چنانچہ جب ابو جہل نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر حضور اقدس ﷺ کھڑے ہیں، آنے کی وجہ پوچھی تو حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ایمان لے آؤ کامیاب ہوجاؤ گے۔ اس پر ابو جہل نے غصے میں آکر دروازہ بند کردیا۔ اس واقعہ کو لوگ مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں کہ بعض لوگ اس کو یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ابو جہل نے اعلان کیا کہ جو بھی میرے پاس ضرورت لے کر آئے گا تو میں اس کی ضرورت ضرور پوری کروں گا۔ چنانچہ حضور اقدس ﷺ تشریف لے گئے اور ایمان لانے کی درخواست کی، جس پر ابو جہل کو غصہ آگیا۔ ▪ *روایت 3⃣:* عرش کو اُٹھانے والے فرشتے اللّٰہ تعالٰی کے راستے میں نکلنے والے شخص کے لیے تین دعائیں کرتے ہیں کہ: اے اللّٰہ! اس شخص کی مغفرت فرما۔ اس شخص کے گھر والوں کی مغفرت فرما۔ اس شخص کو اس کے گھر والوں کے ساتھ جنت میں جمع فرما۔ ▪ *روایت 4⃣:* طالبِ علم کے جس حصے پر استاد کی مار پڑتی ہے اُس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔ ▪ *روایت 5️⃣:* کپڑے کی تجارت سب سے اچھی تجارت ہے اور سلائی کا ہنر سب سے اچھا ہنر ہے۔ ▪ *روایت 6️⃣:* جو عورت اپنے خاوند کو اللّٰہ تعالٰی کے راستے میں روانہ کرتی ہے وہ اپنے خاوند سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گی۔ ▪ *روایت 7️⃣:* حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ نے ایک بار حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللّٰہ کے رسول! اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے ہدایت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، ورنہ تو اگر ہدایت آپ کے ہاتھ میں ہوتی تو نجانے میری باری کب آتی۔ ▪ *روایت 8️⃣:* جو شخص مسجد میں ہوا خارج کرتا ہے تو فرشتہ اس کو منہ میں لے کر مسجد سے باہر نکال دیتا ہے۔ ▪ *روایت 9️⃣:* قیامت کے دن اللّٰہ تعالٰی جلال اور غصے میں ہوں گے، اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو حساب کے لیے اللّٰہ تعالٰی کے سامنے پیش کیا جائے گا تو انھیں دیکھ کر اللّٰہ تعالٰی کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور لوگوں سے حساب کتاب لینے کا آغاز ہوجائے گا۔ ▪ *روایت 🔟:* بسم اللّٰہ پڑھ کر گھر میں جھاڑو لگانے پر بیت اللّٰہ میں جھاڑو لگانے کا اجر ملتا ہے۔ ⬅️ *تبصرہ:* مذکورہ دس روایات بے اصل ہیں جن کا حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ❄️ *احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:* احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ 1⃣ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘ 110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «...وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». 2️⃣ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘ 2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ». ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔
إظهار الكل...
❄️ *غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:* بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے، تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالہ کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔ واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ ✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ فاضل جامعہ دار العلوم کراچی محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی 23 ربیعُ الاوّل 1442ھ/ 10 نومبر 2020 #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

حالت حمل میں بیوی کو تین طلاق دینے کا حکم *★★★ مسئلہ نمبر (٨٤٤) ★★★* سوال میری شادی کو تین سال گزر گئے ہیں ، ایک بیٹی ہے جس کی عمر دو سال ہے ، میں نے غصے میں آکر 20/20/2022 کو اپنی اہلیہ کو یہ الفاظ کہے : "طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں " اور اس وقت ہمارے درمیان لڑائی جھگڑا چل رہا تھا ، پہلے میں نے اپنی اہلیہ کو ماں کے گھر جانے کا بولا ، جب وہ نہ مانی تو میں نے کہا کہ طلاق مل جائے پھر جاؤ گی ؟اور اس کے بعد میں نے یہ الفاظ بول دیے ، طلاق کے 16 دن کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ میری اہلیہ حاملہ ہے اور میڈیکل رپورٹ میں بھی حاملہ ہونے کی تصدیق ہوگئی ۔ اب میری اہلیہ میری بہن کے گھر پر رہائش پذیر ہے اور ہم آپس میں رجوع کرنا چاہتے ہیں ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مندرجہ بالا صورت کے مطابق حالت حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رجوع کی کوئی صورت ممکن ہے ؟ جواب واضح رہے کہ بیوی کو حمل کی حالت میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے غصہ میں اپنی بیوی کو یہ کہا کہ : "طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں" تو اس سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،میاں بیوی دنوں کا نکاح کا ختم ہوچکا ہے ، بیوی سائل (شوہر) پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب سائل کے لیےبیوی سے عدت کے دوران رجوع کرنا یا عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ اور مطلقہ چوں کہ حاملہ ہے، اس لیے اس کی عدت وضع ِ حمل ہے،لہذا بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی عدت ختم ہوجائے گی، عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ ہاں اگر مطلّقہ عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے، یا عورت خود طلاق لے لے ،یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو پھر اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر (سائل) سےدوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔ مبسوط سرخسی میں ہے : "أن ‌من ‌أقر ‌بطلاق سابق يكون ذلك إيقاعا منه في الحال؛ لأن من ضرورة الاستناد الوقوع في الحال، وهو مالك للإيقاع غير مالك للإسناد." (كتاب الطلاق ، باب من الطلاق ، ج:6 ، ص:133 ، ط:دارالمعرفة) بدائع الصنائع میں ہے : "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة." ( كتاب الطلاق ، فصل في حكم الطلاق البائن ، ج:3 ، ص:187 ، ط: سعيد ) فتاوی عالمگیریہ میں ہے : "وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان." ( كتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر في العدة ، ج:1 ، ص:528 ، ط:دارالفكر ) فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 144309100493 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن #شیخ_محمدمستقیم_فقہ_حنفی_ودیوبندی_ارریاوی https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati_chainal
إظهار الكل...
🌹اشاعت المسائل چینل🌹

فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں! برائےرابطہ

https://t.me/Mohd_Mustkim_ishaati

حلال اور حرام جانور *★★★ مسئلہ نمبر (٨٤٣) ★★★* سوال: کون سے جانور حلال ہیں اور ان کی پہچان بھی بتائیں؟ جواب: خشکی میں رہنے والے جانوروں اور پرندوں میں سے جو جانور یا پرندے دانت یا پنجوں سے شکار کرتے ہیں اور جن کی غذا صرف گندگی اور مردار وغیرہ ہوتی ہے اور جن میں خون بالکل نہیں ہوتا ہے اور جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، اسی طرح تمام زمین کے اندر رہنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے وغیرہ سب حرام ہیں، ا لبتہ ٹڈی میں خون نہیں ہوتا، پھر بھی وہ حلال ہے، مذکورہ اقسام کے علاوہ خشکی میں رہنے والے دیگر سب جانور (جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، ہرن، نیل گائے، وغیرہ) اور پرندے (جیسے: مرغی، بطخ، مرغابی، کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ بٹیر، بلبل، کویل وغیرہ) حلال ہیں۔ جب کہ پانی میں رہنے والے جانوروں میں سے مچھلی کے علاوہ کوئی بھی جانور حلال نہیں ہے اور جو مچھلی طبعی موت مرکر پانی میں الٹی تیرنے لگے اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔ دانتوں یا پنجوں سے شکار کرنے والے جانوروں کی مثال جیسے: شیر، چیتا، بھیڑیا، لومڑی، ریچھ، گیدڑ، بجّو، بندر، ہاتھی، بلی وغیرہ۔ جبڑوں یا پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں کی مثال، جیسے: شکرہ، باز اور گدھ وغیرہ ۔ گندگی اور مردار کھانے والے جانوروں کی مثال، جیسے: سور اور کتا وغیرہ۔ جن جانوروں میں خون نہیں ہوتا ان کی مثال:بھڑ، مکھی، مکڑی اور بچھو وغیرہ. جن جانوروں میں بہنے والے خون نہیں ہوتا ان کی مثال: سانپ، چھپکلی، گرگٹ، نیولا وغیرہ۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 35): "أما الأول فالحيوان في الأصل نوعان: نوع يعيش في البحر، ونوع يعيش في البر أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه وهذا قول أصحابنا - رضي الله عنهم - ... (وأما) الذي يعيش في البر فأنواع ثلاثة: ما ليس له دم أصلا، وما ليس له دم سائل، وما له دم سائل مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والعضابة والخنفساء والبغاثة والعقرب. ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة؛ لأنها من الخبائث لاستبعاد الطباع السليمة إياها وقد قال الله تبارك وتعالى {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] إلا أن الجراد خص من هذه الجملة بقوله عليه الصلاة والسلام: «أحلت لنا ميتتان» فبقي على ظاهر العموم. وكذلك ما ليس له دم سائل مثل الحية والوزغ وسام أبرص وجميع الحشرات وهوام الأرض من الفأر والقراد والقنافذ والضب واليربوع وابن عرس ونحوها ... وما له دم سائل نوعان: مستأنس ومستوحش أما المستأنس من البهائم فنحو الإبل والبقر والغنم بالإجماع وبقوله تبارك وتعالى {والأنعام خلقها لكم فيها دفء ومنافع ومنها تأكلون} [النحل: 5] ، وقوله سبحانه وتعالى: {الله الذي جعل لكم الأنعام لتركبوا منها ومنها تأكلون} [غافر: 79] واسم الأنعام يقع على هذه الحيوانات بلا خلاف بين أهل اللغة و لاتحل البغال والحمير عند عامة العلماء - رحمهم الله تعالى -. ... وأما المتوحش منها نحو الظباء وبقر الوحش وحمر الوحش وإبل الوحش فحلال بإجماع المسلمين ولقوله تبارك وتعالى: {يسألونك ماذا أحل لهم قل أحل لكم الطيبات} [المائدة: 4] وقوله عز شأنه: {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157]، وقوله سبحانه وتعالى: {كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 57] ولحوم هذه الأشياء من الطيبات فكان حلالا وروي أنه لما «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن لحوم الحمر فقال: الأهلية؟ فقيل: نعم» فدل قول رسول الله صلى الله عليه وسلم على اختلاف حكم الأهلية والوحشية، وقد ثبت أن الحكم في الأهلية الحرمة لما ذكرنا من الدلائل فكان حكم الوحشية الحل ضرورة وروي «أن رجلًا من فهر جاء إلى النبي عليه الصلاة والسلام و هو بالروحاء ومع الرجل حمار وحشي عقره فقال: هذه رميتي يا رسول الله وهي لك فقبله النبي عليه الصلاة والسلام و أمر سيدنا أبا بكر -رضي الله عنه- فقسمه بين الرفاق»، والحديث وإن ورد في حمار الوحش لكن إحلال الحمار الوحشي إحلال للظبي والبقر الوحشي والإبل الوحشي من طريق الأولى؛ لأن الحمار الوحشي ليس من جنسه من الأهلي ما هو حلال بل هو حرام وهذه الأشياء من جنسها من الأهلي ما هو حلال فكانت أولى بالحل. وأما المستأنس من السباع وهو الكلب والسنور الأهلي فلا يحل وكذلك المتوحش منها المسمى بسباع الوحش والطير وهو كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير لما روي في الخبر المشهور عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن أكل كل ذي ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير» ، وعن الزهري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل ذي ناب من السباع حرام» فذو الناب من سباع الوحش مثل الأسد والذئب والضبع والنمر والفهد والثعلب والسنور البري والسنجاب والفنك والسمور والدلق والدب والقرد والفيل ونحوها ...
إظهار الكل...
اختر خطة مختلفة

تسمح خطتك الحالية بتحليلات لما لا يزيد عن 5 قنوات. للحصول على المزيد، يُرجى اختيار خطة مختلفة.