cookie

نحن نستخدم ملفات تعريف الارتباط لتحسين تجربة التصفح الخاصة بك. بالنقر على "قبول الكل"، أنت توافق على استخدام ملفات تعريف الارتباط.

avatar

تفسیری فوائد

برصغیر کے اکابر مفسرین کرام کی مستند تفاسیر سے عام فہم تفسیری فوائد

إظهار المزيد
لم يتم تحديد البلدالأردو431الدين والقيم الروحية98 534
مشاركات الإعلانات
216
المشتركون
لا توجد بيانات24 ساعات
+17 أيام
+230 أيام

جاري تحميل البيانات...

معدل نمو المشترك

جاري تحميل البيانات...

میں جب قرآن کریم کو کھولتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو ایک ضال (یعنی بے خبر) کے مقام پر کھڑا کرتا ہوں اور اللہ سے کہتا ہوں کہ اے کریم اللہ! جیسے آپ نے اپنے نبی صلی الله عليه وسلم سے فرمایا کہ : وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى اور تمہیں راستے سے نا واقف پایا تو راستہ دکھایا۔ ایسے ہی میں بھی ہزاروں حقیقتوں اور راستوں سے ناواقف انسان ہوں، مجھے خبر نہیں کہ جس کو میں دین داری سمجھ رہا ہوں، وہ دین داری ہے یا نہیں کیونکہ آپ نے خود ہی قرآن میں کہہ دیا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ہم ہدایت پر ہیں حالانکہ وہ ہدایت پر نہیں ہیں، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری راہ ہی راہ ہدایت ہے حالانکہ وہ راہِ ضلال ہے۔ مجھے ایمان کی توفیق مل گئی تو ہدایت کا سب سے اعلی درجہ پا لیا لیکن ابھی بھی اعمال کی حقیقتوں سے نا آشنا ہوں. نماز، روزہ، زکوۃ، حج، جہاد، تلاوت وغیرہ کے ظاہر کو تو جانتا ہوں اور ان پر عمل بھی کرتا ہوں لیکن ان کے باطن اور مقاصد سے نا واقف ہوں۔ ضلالت کا اصل معنی ہے کہ کوئی چیز آپ سے چھپی ہوئی ہو، جیسے دودھ میں پانی ڈال دیں تو پانی کی حقیقت نظر نہیں آتی اس لیے عرب کہتے ہیں: ضل الماء فی اللبن یعنی دودھ پانی میں مکس ہوگیا۔ جیسے کسی مُردہ شخص کی ہڈیاں زمین کے ذرات میں تبدیل ہو جائیں تو ان کا پتا نہیں چلتا۔ کافر کہا کرتے تھے: ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ کیا جب ہم مٹی کے ساتھ (اس طور پر) مکس ہو جائیں گے (کہ ہڈیوں کی حقیقت کا بھی علم نہیں ہوگا تو دوبارہ پیدا کیے جائیں گے؟) ایسے ہی زندگی کی کئی راہیں ہم سے پوشیدہ ہوتی ہیں، کئی بہاریں اوجھل ہوتی ہیں، کئی خزانے چھپے ہوتے ہیں، کئی صلاحتیں غبار آلود ہوتی ہیں، کئی دروازے بند ہوتے ہیں، کئی منزلیں خفیہ ہوتی ہیں، کئی مناظر دھندلے ہوتے ہیں اور ہم ایک بھٹکے مسافر کی طرح ہر روز ایک ایسی منزل کی طرف سفر کر رہے ہوتے ہیں جہاں ہم نے جانا نہیں ہوتا یا جانا نہیں چاہیے۔ ہم جس انداز میں جی رہے ہوتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ وہی صحیح ہے، وہی حق ہے اور شاید وہی انداز اور وہی راستہ سب کچھ ہے۔ ہماری صبح اور شام دنیا کی بہترین صبح و شام ہیں، ہماری راتیں اور دنوں کی ڈائریکشن درست ہے حالانکہ ہم نے کبھی قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھا ہوتا جو حقیقت کی دنیا کا راستہ دکھاتا ہے۔ بہت دفعہ تو ہم اللہ سے اپنے لیے ہدایت ہی نہیں مانگتے، ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ شاید ہدایت صرف دوسروں کےلیے مانگی جاتی ہے یا ان کےلیے جو حق راستے سے بھٹک چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ہر روز ہدایت کا محتاج ہے۔ چنانچہ جب کبھی ذاتِ حق سے ہم ہدایت مانگتے ہیں اور سچی ہدایت مانگتے ہیں تو وہ ہمیں ہدایت کے سب سے بڑے سرچشمے کی طرف متوجہ کر دیتا ہے جہاں سے زندگی گزارنے کی صاف و شفاف نہریں جاری ہوتی ہیں، جہاں کا پانی ظاہر و باطن کو پاکیزگی کی ایک نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے۔ جب ہم کتاب ہدایت سے اپنی زندگی کے سوالات پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں ہمارے اسٹیٹس اور دین داری کی رعایت کیے بغیر دو ٹوک جوابات دیتی ہیں، جب ہم اپنی صبح شام اور رات دن اس پر پیش کرتے ہیں تو وہ حق اور باطل ، جھوٹ اور سچ، فریب اور حقیقت، خیر اور شر کو الگ الگ کر کے رکھ دیتی ہے۔ ہمارے ذہنوں اور دلوں سے غفلتوں اور گم راہیوں کے پردے چاک کر کے سچی منزل کا مسافر بنا دیتی ہے۔ جب ہم قرآن کو اپنا رہبر مان کر چوبیس گھنٹوں کی زندگی گزارتے ہیں تو پھر سمجھ آتا ہے کہ درحقیقت ہم تو اب صراط مستقیم پر چلنا شروع ہوئے ہیں۔ قرآن ہمیں صرف نماز ، روزہ، زکوۃ، حج، جہاد، تلاوت وغیرہ کے بجائے ان کے حقائق سے واقف کراتا ہے اور ہمارا رخ ایک ایسے راستے کی طرف موڑ دیتا ہے جہاں پر ہمیں آسانی سے اللہ مل جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی قرآن پڑھیں تو پہلے اپنے آپ کو ضال ( یعنی نا واقف) سمجھیں پھر دیکھیں کہ نسیمِ ہدایت کے جھونکے کیسے آپ کو حقیقت کی بہار سے آشنا کرتے ہیں۔ وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَؕ اور ہم نے اس قرآن کو حق ہی کے ساتھ نازل کیا ہے، اور حق ہی کے ساتھ یہ اترا ہے۔ اگر آپ حقیقت (Reality) کی تلاش میں ہیں تو آجائیے قرآن کی طرف۔ یہ آپ کی پیاس بجھا دے گا۔ محمد اکبر 28 دسمبر 2023ء t.me/TafseeriFawaid
إظهار الكل...
Photo unavailableShow in Telegram
‏موٹرنشینی کو عبادت کیسے بنائیں؟ مفسر قرآن حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی نور اللہ مرقدہ کے اس وجد آفریں افادہ کو ملاحظہ فرمائیں سورہ زخرف آیت ۱۳ ۔ ۱٤ کے تفسیری فوائد میں ملاحظہ فرمائیں بہ شکریہ ابو امامہ آفتاب
إظهار الكل...
سورت یوسف نے مجھے بتایا کہ اپنی زندگی کے خواب ہر ایک سے شیئر نہ کرو، کچھ لوگ تمہارے خواب سن کر حسد کی آگ میں جلنے لگ جاتے ہیں اور ہر طرح سے ستانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تم قیمتی اور تمہارا خواب قیمتی ، اس لیے اسے چھپا کر رکھو یہاں تک کہ وہ خواب حقیقت کا لباس پہن کر سامنے آ جائے ، اب اگر خواب کا چرچا ہوتا ہے تو نقصان نہیں ہوگا کیونکہ تم حسد کیے جانے کا وقت طے کر چکے ہو۔ لوگ آپ کی کامیابی سے حسد نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حسد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، وہ کامیابی کے راستہ پر چلنے سے حسد کرتے ہیں کہ کسی دن یہ شخص معرکہ ہی سر نہ کر لے۔ جب تک منزل اور کامیابی کے راستہ پر ہو، کسی کو نہ بتاؤ، جب پہنچ جاؤ گے تو سب کو پتا چل ہی جائے گا۔ محمد اکبر 18 دسمبر 2023ء t.me/TafseeriFawaid
إظهار الكل...
بعض تفاسیر میں ہے کہ یوسف علیہ السلام جب جیل سے نکلے تو آپ نے اُس کے دروازے پر لکھا : ”یہ زندوں کا قبرستان، غموں کی آماجگاہ، دشمنوں کیلیے باعثِ تشفی اور دوستوں کو پہچاننے کی جگہ ہے۔“ (تفسير الثعلبي : ٤٦/١٥ ، مكارم الأخلاق للخرائطي : ٧٧١) بہ شکریہ عبد العزیز ناصر
إظهار الكل...
زندگی میں تھوڑا سا وقفہ لیں دنیائے کرکٹ کے مشہور بلے باز ویراٹ کوہلی پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ بہت بری پرفارمنس دے رہا تھا، اکثر کرکٹرز کی طرف سے ٹرول کیا جاتا اور کئی بار ٹی وی شوز میں فارمر کرکٹرز نے کرکٹ چھوڑنے کے مشورے بھی دیے۔ کوہلی نے کچھ دنوں کےلیےPause لے لیا، پھر جب دوبارہ میدان میں اترا تو پہلے سے مختلف کانفیڈنس کے ساتھ دکھائی دیا اور اس سال کے ورلڈ کپ میں بہترین اسکورر رہا ہے۔ ورلڈ کپ سے پہلے پا_کستانی بلے باز فخر زمان بھی بہت مایوس کارگردگی دکھا رہا تھا، ہر کوئی کپتان بابر اعظم کو مشورہ دے رہا تھا کہ اسے ٹیم سے نکال دیا جائے یا باہر بٹھایا جائے لیکن ایشیا کپ میں کپتان اسے مسلسل کھلاتا رہا اور ناکامی ہوتی رہی۔ ورلڈ کپ کے ابتدائی میچز میں بھی گھسیٹا گیا لیکن ناکام۔ اس کے بعد کچھ دنوں کےلیے وقفہ دیا گیا اور پھر جب دوبارہ نیوزی لینڈ کے خلاف ایک اہم ترین میچ میں واپسی ہوئی تو کسی بالر کو دو چھکے لگائے بغیر نہیں چھوڑا۔ جب ہم اپنی زندگی میں کسی خاص جانب سفر کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا وقت بھی آتا ہے جب حالات ہمارے مطابق نہیں ہوتے، ہم اپنے بدن کو تھکاتے ہیں، مسلسل چلنے سے پاؤں میں آبلے پڑ جاتے ہیں لیکن مقصد نہیں مل پاتا ، بہتر فیصلے لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام ہو جاتے ہیں، اپنے گمان میں منزل کی طرف قدم بڑھاتے ہیں لیکن حقیقت میں منزل سے دور ہو رہے ہوتے ہیں۔ پھر اپنے آپ کو کوستے ہیں ، اللہ سے شکایات کرتے ہیں کہ مولی ! یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ۔ ایسے میں آپ وہی کام کریں جو قرآن نے ہمیں حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں سمجھایا اور وہ یہ ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کے ایک نیک بندے (خضر ) کی طرف سفر کیا تو راستے میں دو جگہ آرام کےلیے رکے۔ ایک جگہ پہنچ کر اپنے خادم سے کہا: اٰتِنَا غَدَآءَنَا٘-لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا ہمارا ناشتہ لاؤ، سچی بات یہ ہے کہ اس سفر میں بڑی تھکاوٹ لاحق ہوگئی ہے۔ (کہف:62) یہ آیت بتا رہی ہے کہ جب کام کرکے آپ کا بدن تھک جائے اور کوشش کے باوجود مقصد سے دور ہو رہے ہوں تو اپنے آپ کو گھسیٹنے سے بہتر ہے کچھ دیر کےلیے ریلیکس ہو جائیں اور پاز (Pause) لے لیں۔ حضرت موسی کی طرح رک جائیں تاکہ وہ رکنا آپ کےلیے بہتر ثابت ہو۔ پھر یہ pause ہر گھنٹہ میں بھی ہو سکتا ہے، دن ، مہینے اور سال میں بھی۔ اگر آپ نے مسلسل ایک گھنٹہ کام کیا اور تھک گئے لیکن پھر بھی رسمی کار روائی جاری رکھی ہوئی ہے تو فائدہ نہیں ہوگا، منفی اثرات مرتب ہوں گے، بریک لیں، کمرے سے باہر نکلیں، سردی ہے تو کچھ دیر دھوپ میں کھڑے ہو جائیں ، چہل قدمی کر لیں، اپنے قریب منتشر چیزوں کو سمیٹ لیں، ایک آدھ انگڑائی لے لیں اور نہیں تو کچھ مراقبہ (meditation) کر لیں، فریش ہو کر دوبارہ کام شروع کریں تاکہ ارتکاز (Focus) رہ سکے۔ ہمارے ہاں جب نوجوان پڑھائی سے تھکتے ہیں تو تھکاوٹ اتارنے کےلیے ٹی وی دیکھنا شروع کر دیتے ہیں یا انٹرنیٹ سرفنگ، ویڈیو گیمز وغیرہ لیکن یہ ایکٹیوٹی دماغ کو مزید تھکا دینے والی ہے۔ اس لیے مہینے میں ایک دن موبائل کے استعمال سے بھی pasue لیں۔ ایک دن ایسا ہو جس میں گھر کا کوئی فرد صبح سے لے کر شام تک موبائل استعمال نہیں کرے گا، سب اپنے موبائل جمع کر کے لاکر میں رکھ دیں اور اُس دن مزے لے لے کر کھانا کھائیں، ایک دوسرے کو توجہ دیں، مل بیٹھ کر گپ شپ لگائیں، معمول سے زیادہ عبادت کر لیں، پارک چلے جائیں اور کوئی نئی ایکٹیوٹی کر لیں۔ سال میں ایک بار کسی جگہ کا وزٹ کر لیں۔ اسی طرح pasue پڑھائی، کاروبار، ڈیوٹی، آفس، کھیتی باڑی، مزدوری، کمپیوٹر، اسکل سیکھنے وغیرہ کسی بھی چیز میں ہو سکتا ہے جو بھی آپ کی فیلڈ اور منزل ہے، جس کےلیے آپ صبح شام اپنے آپ کو کھپا رہے ہیں،اس سے پاز لیں۔ ہم اپنے آپ کو ہر وقت کسی نہ کسی ایکٹیوٹی میں ہمہ وقت مشغول رکھتے ہیں۔ ہر فیلڈ میں کمپیٹیشن بہت زیادہ ہوگیا ہے اور ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے ، زیادہ پیسے اور شہرت کمانے کے چکر میں اپنے سکون ہی کو برباد کر رہا ہے۔ اس لیے آج کے دور میں pause کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بس ایک بات کا خیال رکھیں کہ pause اتنا لمبا نہ ہو کہ مقصد ہی پر کمپرومائز کرنا پڑ جائے۔ محمد اکبر 13 دسمبر 2023ء t.me/Kamyab_Zindagi
إظهار الكل...
اللہ کی مخلوق اتنی زیادہ ہے کہ گنی نہیں جا سکتی لیکن یہ شرف اور خوش قسمتی صرف انسان ہی کو حاصل ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی اس سے بات کرتا ہے۔ یٰعِبادِی اے میرے بندو! کا خطاب ہر درد کو مٹا دیتا ہے اور انسان کا ٹوٹا دل تسلی پانے لگتا ہے۔ یا اللہ! تیرا شکر کہ تو نے ہمیں قرآن دیا جس کے ذریعے ہم تجھ سے اور تو ہم سے بات کرتا ہے۔ بہت شکریہ اللہ جی مولانا محمد اکبر t.me/TafseeriFawaid
إظهار الكل...
نوجوان بھائیوں اور بہنوں کے نام السلام علیکم ورحمۃ اللہ امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے، اللہ آپ کو ہمیشہ ایسے ہی خیریت سے رکھے۔ آج میں آپ کو سورت عصر کی روشنی میں ایک وصیت کرنے لگا ہوں کیونکہ یہ میری ذمہ داری ہے اور سورت عصر ہی میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ کامیاب لوگ وہ ہیں جو ایمان لائے، نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق بات اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔ میری وصیت اسی آیت کو سامنے رکھ کر ہے۔ آپ نے سورت عصر کی تلاوت کئی بار سنی ہوگی، ترجمہ تفیسر بھی پڑھ لی ہوگی لیکن آج میں اس کے صرف ایک لفظ سے آپ کو وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ سورت عصر کا پہلا لفظ عصر ہے۔ جس کا معنی ہے: کسی چیز کو نچوڑ کر اس میں سے عمدہ اور اعلی چیز کو نکال لینا۔ جیسے پھل نچوڑ کر جوس نکالتے ہیں تو اسے عصیر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی بادلوں کو نچوڑ کر میٹھا پانی نکالتا ہے تو قرآن میں بادلوں کو معصرات کہا گیا۔ فرمایا: وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجاً اور ہم نے ہی بھرے ہوئے بادلوں (کو نچوڑ کر ) موسلا دھار پانی نکالا۔ میرے نوجوان بھائیو اور بہنو! یہ لفظ ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جو زندگی دی ہے، اسے نچوڑیں۔ اس میں سے خیر اور نیک اعمال کا جوس نکالیں اور یہ جوس تھوڑی محنت، مشقت، مجاہدے اور ہمت سے نکلے گا، نفس اور شیطان کے بہکاؤوں پر پاؤں رکھنے اور ان کی چال کو سمجھ کر کچل دینے سے نکلے گا۔ صرف سوئے اور بیٹھے رہنے، گناہوں پر گناہ کرتے جانے یا عیاشی کرتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ جوانی ہی در اصل وقت ہوتا ہے اپنا جوس نکالنے کا۔ اس کی مثال ایسے سمجھ لیں کہ ایک انار ہے جو ابھی پک کر تیار ہوا اور اس کے دانے رس سے بھرے پڑے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوگی کہ اس تازہ انار کا فریش جوس نکالا جائے کیونکہ یہ لذیذ ہے، وٹامنز سے بھرپور ہے، ہمارے نظام انہضام کو تیز کرے گا، فری ریڈیکلز سے بچائے گا وغیرہ۔ لیکن اگر یہی انار پکنے کے بعد کئی ہفتوں تک گھر یا دکان میں رکھا رہے تو کیا پھر بھی وہی فریش جوس نکلے گا جو تازہ انار سے نکلتا ہے؟ نہیں نا۔ کیونکہ اب یہ خراب ہونا شروع ہو گیا۔ پرانے اور خراب انار میں وہ لذت نہیں رہی جو تازہ اور جوان میں تھی۔ اس وقت میں اور آپ بھی تازہ انار کی طرح ہیں۔ جوانی کے خون سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ اعمال کر سکتے ہیں جو بوڑھا انار نہیں کر سکتا۔ اگر اپنی جوانی کو نچوڑ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین پر لگا دیں گے تو یقین کریں کہ اللہ کو بہت خوشی ہوگی کیونکہ اللہ کو نوجوان کی عبادت اور اس کا نیک اعمال میں اپنے آپ کو لگانا بہت پسند ہے۔ اُس نے تو ایسے نوجوانوں کےلیے قرآن کے درمیان میں پوری سورت کہف اتار دی اور بتا دیا کہ یہ چند نوجوان جو اپنی جوانی کو ہمارے لیے نچوڑ رہے تھے، انہیں کیسے ہم نے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیا اور میٹھی نیند سلا دی اور ان کا تذکرہ ہمیشہ والی کتاب کا حصہ بنا دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو جوانی میں عبادت کرے وہ عرش الہی کے سائے میں ہوگا اور اسے قیامت کے میدان میں کوئی گرمی نہ پہنچے گی ۔(صحیح بخاری) کیونکہ اللہ کا اصول ہے جو اس دنیا میں پسینہ بہا لیتا ہے، وہ آخرت کے پسینے سے بچ جاتا ہے اور جو یہاں پسینہ نہیں بہائے گا یعنی محنت نہیں کرے گا وہ آخرت میں خسارے میں جائے گا۔ اس لیے سورت عصر میں عصر کے لفظ کے بعد فورا کہا: اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(2)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ سب انسان در حقیقت بڑے گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق بات اور صبر کی وصیت کی۔ یہ وقت ہے اپنے آپ کو عصر یعنی نچوڑنے کا۔ لگا دیجیے اپنا وقت، جان ، مال، دوستی، رشتہ داری، ہر چیز اللہ کےلیے۔ زندگی کو ایک ٹریک پر لے آئیں۔ تمام نمازوں کی پابندی کریں خاص کر فجر کی۔ ہر روز قرآن کی تلاوت کریں۔ اہل علم کے ساتھ کچھ وقت گزاریں اور بار بار سورت عصر پڑھتے رہیں تاکہ یہ سورت آپ کو بیٹھنے نہ دے۔ عمل کےلیے کھڑا کیے رکھے اور آپ کے اندر جو خیر رکھ دی گئی ہے، اس کا جوس نکلتا رہے جس سے آپ کو بھی فائدہ ہو اور معاشرہ کو بھی۔ شیخ سعدی کہتے ہیں: در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیز گار بن جاتا ہے۔ اصل میں تو جوانی کے وقت توبہ اور پرہیزگاری نیکوں اور پیغمبروں کا شیوہ ہے۔ آپ کےلیے نیک تمنائیں اور دعائیں آپ کا اپنا بھائی محمد اکبر 26 نومبر 2023ء t.me/TafseeriFawaid
إظهار الكل...
قرآن سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں جو انسان کو ایک کام کی طرف یکسو کرتی ہو۔ یہ کتاب بار بار کہتی ہے کہ ایک خدا پر فوکس کرو۔ اگر تم کئی چیزوں کو خدا مان لو گے تو گم راہ ہو جاؤ گے۔ ایک جگہ مثال دیتے ہوئے کہا: ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ مفہوم: جو غلام کئی لوگوں کے درمیان مشترک ہو، اس کے کئی مالک ہوں، وہ زیادہ بہتر ہے یا وہ غلام جس کا صرف ایک مالک ہے؟ یقینا وہی بہتر ہوگا جس کا صرف ایک مالک ہے کیونکہ وہ اس کے احکامات کی بجا آوری کےلیے یکسو اور فوکسڈ ہوگا۔بنسبت پہلے غلام کے کہ اس کی توجہ کئی مالکوں کی طرف بٹی ہوگی۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یکسوئی کتنی بڑی نعمت ہے! ہمارے معاشرے میں کام کو یکسوئی کے ساتھ کرنے کے بجائے "نمٹاؤ" والی ذہنیت پروان چڑھ چکی ہے۔ یار تم صبر کرنا، میں ابھی نماز نمٹا کر آیا۔ تم ذرا یہاں ٹھہرو میں ابھی کھانا نمٹا کر آیا۔ فلاں کام کی ٹینشن نہ لے ، وہ تو میں منٹوں میں نمٹا لوں گا۔ تم تو ابھی ایک ہی اسکل سیکھ رہے ہو، میں تو چار اکٹھی نمٹا رہا ہوں۔ یار دعا کرو اس سال شادی بھی نمٹ جائے اور ایم اے بھی۔ اس ذہنیت سے ہم کسی کام میں یکسوئی نہیں رکھ پاتے اور نہ ہی عمدہ طریقہ سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ جب کہ قرآن کہتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ احسان کا معنی ہے کہ جس کام کو بھی کیا جائے، اسے سو فیصد توجہ دی جائے۔ اپنی سوچ کو بکھرنے نہ دیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے وضو کے بارے میں فرمایا کہ جس بندے نے وضو کیا اور پھر وضو میں احسان کیا تو اس کے جسم کے گناہ مٹ جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر ناخن کے نیچے بھی گناہ ہو تو وہ بھی نکل جاتا ہے۔ اس حدیث میں وضو کو احسان کے ساتھ جوڑا کہ صرف وضو نمٹانا نہیں ہے بلکہ بہترین طریقہ سے فوکسڈ ہو کر کرنا ہے۔ اب یہاں میں ایک ایسی حدیث بھی ذکر کرتا ہوں جو ارتکاز فکر (Mental Focuse) پر سب سے بہترین انداز میں دلالت کرتی ہے۔ بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں یہ روایت موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر نے جہاد کیا تو اپنے لوگوں سے کہا: میرے ساتھ وہ مرد نہ چلے جس نے نکاح کیا اور وہ چاہتا ہو کہ اپنی عورت سے ہمبستری کرے اور ابھی تک اس نے ہمبستری نہیں کی اور نہ وہ شخص جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی تک اس کی چھت بلند نہ کی ہو۔ اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں یا گابھن اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان سے بچے پیدا ہونے کی امید ہو ۔ پھر اس پیغمبر علیہ السلام نے جہاد کیا تو عصر کے وقت یا عصر کے قریب اس گاؤں کے پاس پہنچا (جہاں جہاد کرنا تھا) تو پیغمبر علیہ السلام نے سورج سے کہا: تو بھی تابعدار ہے اور میں بھی تابعدار ہوں(اس کے بعد دعا کرتے ہوئے فرمایا) یا اللہ !تھوڑی دیر کےلیے اس کو میرے اوپر روک دے (تاکہ ہفتہ کی رات نہ آ جائے کیونکہ ہفتہ کو لڑنا حرام تھا اور یہ لڑائی جمعہ کے دن ہوئی تھی) پھر سورج رک گیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دی۔" یہ حدیث بتاتی ہے کہ اگر انسان کو یکسوئی نہ ہو تو پھر کسی نیک کام کا بھی وہ فائدہ نہیں مل پاتا جو اس کی اصل روح ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ اگر سخت بھوک لگی ہے تو پہلے کھانا کھا لو، نیند آرہی ہے تو آرام کر لو، پھر نماز پڑھو تاکہ ذہن یکسو رہے۔ (بشرط کہ فرض نماز قضا نہ ہو) علی بابا کے بانی جیک ما کہتے ہیں: . اگر آپ کے سامنے نو خرگوش ہوں اور آپ انہیں پکڑنا چاہے تو پہلے صرف ایک کو پکڑنے کی کوشش کریں۔ اگر سب کو ایک ہی لمحہ میں پکڑنے کی کوشش کریں گے تو شاید ایک بھی نہ پکڑ پائیں۔ اللہ تعالی ہمیں ڈسٹریکشن کے اس دور میں حنیف بنائے جو ایک وقت میں ایک ہی کام کی طرف جھکا ہوتا ہے۔ اللھم آمین محمد اکبر 25 نومبر 2023 tinyurl.com/FikreeMazameen
إظهار الكل...
جب بھی قرآن کھولیں تو اس سے ایک بات ضرور کریں اور وہ یہ کہ اے قرآن میں مٹی کا ذرہ ہوں، تیرے اندر جا کر موتی بننا چاہتا ہوں، اصل والا موتی یعنی کامل مسلمان۔ جس طرح اس وقت ہماری مارکیٹ میں جعلی یا آرٹیفیشل موتی مل جاتے ہیں لیکن قدرتی موتی کی اپنی ہی مانگ اور قیمت ہوتی ہے، میں بھی اوریجنل اور پکا مسلمان بننا چاہتا ہوں تاکہ دنیا اور آخرت میں میری مانگ ہو۔ میں جب قرآن کے سامنے بیٹھتا ہوں تو سب سے پہلے اس سے مخاطب ہوتا ہوں کہ اے قرآن ! دیکھ نا موتی (Pearl) اصل میں تو موتی نہیں ہوتا، ریت یا سمندری پودے یا بانس یا لکڑی کا چھوٹا سا ذرہ ہوتا ہے جو سیپ (Oyster) کے خول میں پہنچتا ہے تو وہ اس کے گرد ایک حفاظتی شیلڈ چڑھا دیتا ہے جس کے اندر رہ کر وہ کچھ عرصے بعد موتی بن کر نکلتا ہے۔ میں بھی مٹی سے بنا ہوا ایک ذرہ ہوں اور موتی بننے کی تمنا رکھتا ہوں۔ تیری تلاوت کرنے لگا ہوں، تو مجھے اپنے اندر چھپا لے۔ میری تربیت کر، مجھے اللہ تک پہنچنے والا راستہ دکھا، میرے اعمال کی اصلاح کر، مجھے زندگی کی اصل قیمت بتا، میرے اندر اللہ کی محبت کی آگ لگا دے، میرے جذبوں کو عروج دے، مجھے دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا انداز سکھا، میرے شر کو مٹا دے، خیر کو جگا دے، نیکی پہ لگا دے۔ اے قرآن ! مجھے اس وقت تک نہ چھوڑ جب تک موتی نہ بن جاؤں۔ تیرے بغیر میں مٹی کا ذرہ ہوں جو لوگوں کے پاؤں کے نیچے بھی آ سکتا ہے اور تیرے اندر رہ کر میں موتی بن جاؤں گا جس کو لوگ سجا کر رکھتے ہیں۔ جب اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ آپ قرآن کے سامنے بیٹھتے ہیں تو پھر آپ وہ انسان نہیں رہتے جو اب ہیں۔ آپ کی سوچوں اور جذبوں میں ایک ایسا انقلاب برپا ہو جاتا ہے جو زندگی کی صحیح راہ پر آپ کو ڈال دیتا ہے۔ آپ کو اپنی اور دنیا کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے اور پھر ایسے موتی بنتے ہیں کہ دنیا ہی میں اللہ کی طرف سے رضی اللہ عنہ کا ایوارڈ پا لیتے ہیں۔ اے اللہ! ہم سب کو قرآن کا تیار کردہ موتی بنا دے۔ آمین محمد اکبر 20 نومبر 2023ء tinyurl.com/FikreeMazameen
إظهار الكل...
قرآن کی ایک آیت طبیعت میں ٹھہراؤ پیدا کر دیتی ہے اور طبیعت میں ٹھہراؤ بڑی چیز ہے۔ سوچ سمجھ کر بات کرنا ، قدم اٹھانا اور تھوڑا سا رُک کر آگے چلنا بہت بڑی نعمت ہے۔ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اکثر تو جلدی ہی کر دیتے ہیں۔ اپنی خواہشات کے ریلوں میں بہہ جاتے ہیں۔ جب یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس غلہ لینے آئے تھے تو حضرت یوسف نے بنیامین کو اپنے پاس ٹھہرانے کےلیے یہ حیلہ اختیار کیا کہ اس کے سامان میں اپنا پیالہ رکھوا دیا۔ بعد میں شور مچا کہ بادشاہ سلامت کا پیالہ گم ہوگیا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جاتے جاتے رک گئے۔ سامان چیک کیا گیا تو بنیامین کی بوری سے پیالہ برآمد ہوا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا: اچھااا! تو یہ بنیامین نے چرایا تھا،ہممم۔ اس سے پہلے اس کے بھائی یوسف بھی چوری کی تھی۔ ہم جیسا کوئی ہوتا تو اپنی حقیقت اور سچائی واضح کرنے کےلیے فورا پھٹ پڑتا لیکن یہاں قرآن ایک جملہ ذکر کرتا ہے: `فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ``` پس یوسف بھائیوں کی اس بات کو پی گئے اور یہ بات ان کے سامنے نہ کھولی۔ یوسف علیہ السلام کی طبیعت میں ٹھہراؤ تھا، وہ طاقت کے باوجود سچ کے واضح ہونے کا انتظار کر رہے تھے، اُس وقت کا انتظار جب حاسد خود ہی سر جھکا لے۔ کبھی کبھار خاموشی اور تھوڑا سا رک کر فیصلہ کرنا بہتر ہوتا ہے۔ سچا ہونے کے باوجود سچ نہیں کھولنا ہوتا تاکہ دوسرا انسان سب کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔ اپنے غصے اور جذبات کو لگام دینی ہوتی ہے اور حق بات پر کھڑے ہوتے بھی اپنے بھائی کے سامنے سر جھکانا ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب وہی بھائی آپ کے سامنے سجدہ کےلیے جھک جاتا ہے اور اس دن حقیقت میں آپ کی جیت ہوتی ہے۔ محمد اکبر 18 نومبر 2023ء tinyurl.com/FikreeMazameen
إظهار الكل...
اختر خطة مختلفة

تسمح خطتك الحالية بتحليلات لما لا يزيد عن 5 قنوات. للحصول على المزيد، يُرجى اختيار خطة مختلفة.