دارالافتاء شہر مہدپور
زیرِ نگرانی:حضرت مفتی محمد اشرف صاحب قاسمی (صدر مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور و نگراں مجدد الف ثانی اکیڈمی مہدپور)
Show more267
Subscribers
No data24 hours
No data7 days
No data30 days
- Subscribers
- Post coverage
- ER - engagement ratio
Data loading in progress...
Subscriber growth rate
Data loading in progress...
یہ تفصیلات میری زندگی کے وہ لمحات ہیں جو مجھے قلبی خوشی ومسرت کی دولت سے مالامال کرتے ہیں ،اس لیے میں نے انھیں الفاظ کا پیرہن پہناکر اپنے پاس محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے،اور شاید قارئین کے لیے بھی ان کچھ اسباق ہوں۔
فقط والسلام
کتبہ:محمداشرف قاسمی
خادم الافتاء: شہر مہدپور،اجین،ایم پی۔
یکم دسمبر2023ء
[email protected]
ترتیب:
ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
22. عرض مسئلہ سرمایہ کاری کے بعض نئے طریقے ۔
تشبہ سے متعلق مسائل۔
حرام کمائی سے متعلق مسائل ۔
23. تلخیص مقالات ،حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل ۔ملخص: مفتی امتیاز احمدقاسمی ۔ایفا پبلیکشنز دہلی 2023م
24.تلخیص مقالات،سرمایہ کاری کے بعض نئے طریقے۔ملخص:مولاناڈاکٹرصفدر زبیرندوی ۔ایفا پبلیکشنز دہلی 2023م۔
25.تلخیص مقالات،تشبہ سے متعلق احکام ومسائل ۔ملخص: مفتی احمدنادر قاسمی ۔ایفا پبلیکشنز دہلی 2023م۔
(یہاں تک کی تحریر20نومبر2023ء
ڈینڈیگل سے چنئی کی طرف دورانِ سفر چنئی سے قبل تک مکمل ہوگئی تھی۔)
*انگریزی زبان*
مدرسہ کے اندرطلباء سے اردوعربی مرکب گفتگو سے کام چلتارہا۔
لیکن بستی میں تفریح کے طورپربچوں سے گفتگو کی کوشش کی تو بچے نہ اردو سمجھ سکے اورنہ ہی اردو میں جواب دینے کی پوزیشن میں نظر آئے۔
ایک مسجد میں دو چھوٹے بچے ملے ان سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں گفتگو کی احساس ہوا کہ بچے کچھ کچھ انگریزی سمجھتے ہیں۔
ہماری ٹرین ڈنڈیگل سے چنئی تک تھی اور پھر چنئی سے بھوپال کے لیے دوسری ٹرین تھی۔ٹرین میں ہمارے کیبن میں کوئی بھی مسافر اردو نہیں سمجھ پارہاتھا۔ بلکہ کیبن میں موجود مرد وخواتین تمل کے ساتھ انگریزی ہی میں گفتگو کررہے تھے۔ چندجملوں کے علاوہ باقاعدہ انگلش تکلم لیے میرے دشوار ہے،حضرت مولاناطیب صاحب ندوی عربی وانگریزی دونوں زبانوں میں تکلم پرقادرہیں۔
چنئی سے قبل موصوف نے کیبن میں موجود ایک سن رسیدہ مسافرسے انگریزی میں گفتگو کی، توپتہ چلا کہ ہماری آگے کی ٹرین سینٹرل چنئی سے ہے،اوریہ ٹرین ایک اسٹیشن پہلے ہی چنئی ایگمور(Chennai Egmore)پرہمیں چھوڑدے گی۔وہان سے بذریعہ لوکل ٹرین یا بس یا بذریعہ آٹو ہمیں سینٹرل چنئی جانا ہوگا۔ ان مسافر سے مولانا موصوف نےانگریزی ہی میں مکمل رہنمائی حاصل کی۔اس موقع پراحساس ہوا کہ انگریزی سے عدم واقفیت کی صورت میں ہماری آگے کی ٹرینیں چھوٹ جاتیں۔اورہم کافی پریشانی میں مبتلاء ہوجاتے۔
اس اسٹیشن پر دوسری کوچ کے مقامی مسلمان مل گئے،اطمینان کے لیے ان سے رہنمائی حاصل کی گئی،وہ اسٹیشن سے باہرتک آئے اور ہمیں سینٹرل چنئی ریلوے اسٹیشن تک کے لیے آٹو پر بیٹھا کراپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
سینٹرل اسٹیشن تک بذریعہ آٹوہم سے پانچ سے دس منٹ کے درمیانی وقفہ میں پہونچ گئے۔ اتنی مسافت کے لیے آٹونے 150روپیہ کرایاچارج کیا۔
جاتے وقت اس اسٹیشن پر تقریباًچالیس منٹ ہماری ٹرین یہاں رکی تھی،سیرو سیاحت کے لیے دوسرے رفقاء اس اسٹیشن پر اترے تھے۔ بلکہ بعض احباب اسٹیشن سے باہر نکل کر شہرچنئی میں بھی گھوم کر آگئے تھے۔لیکن میں ٹرین سے نیچے نہیں اتراتھا،
اب واپسی میں آگے بھوپال کی ٹرین پکڑنے کے لیے اس اسٹیشن کو دیکھنے کاموقع ملا۔کافی کشادہ،وسیع عمارتوں پر مشتمل صاف ستھرا اسٹیشن ہے۔ اس سٹیشن کے سارے مناظرائیرپورٹس کانظارہ پیش کررہے تھے۔
ہمارے پلیٹ فارم پر پہونچتے ہی ہماری ٹرین12621آگئی اورسکون کے ساتھ ہم اپنی اپنی نشستوں (M2,57&58)پر بیٹھ گئے۔ پھرجان میں جان آئی۔ ڈینڈیگل سے چنئی تک جس طرح ہماری کیبن میں کوئی بھی اردو صحیح سمجھنے اوربولنے والا نہیں تھا، اس ٹرین میں بھی کیبن میں کوئی بھی صحیح سے اردوسمجھنے اور بولنے والا نہیں تھا۔ اگرمولانامحمد طیب صاحب انگریزی میں دوسرے مسافرسے طویل گفتگو پرقادرنہ ہوتے تو یقیناً ہمیں کافی پریشانی ہوتی ۔
*بھوپال سے مہدپورتک*
21نومبرکی شام کوآٹھ بجے ہم بھوپال ریلوے اسٹیشن پراترگئے،یہاں سے گیارہ بجے اجین کے لیے ہماری ٹرین تھی۔ اس لیے پلیٹ فارم نمبر1سے ریلوے اسٹیشن کے باہرمسجد سرائے سکندری میں ہم آگئے نمازعشاء یہاں اداکرکے بغل کے ہوٹل میں کھانے سے فارغ ہوئے،اورمسجدمیں کچھ دیر تک آرام کرنے کے بعد اجین کے لیے اپنی ٹرین پر سوارہوگئے۔ اجین ہماری ٹرین دوبج کرپچاس منٹ پرشب میں پہونچ رہی تھی،حضرت مولانامحمد طیب صاحب ندوی نے شب میں اپنے ساتھ مجھے رکنے کے لیے اصرار کیا، لیکن میں نے سبق کاعذرپیش کرکے رات ہی میں اجین سے مہدپورجانے کاپروگرام بنایا۔
مقررہ وقت پردو بج کر پچاس منٹ پرٹرین اجین پہونچ گئی۔ تقریباً 3بجے اجین سے مہدپور کے لیے پریس کی گاڑی تھی، ہم اس میں سوار ہوگئے، گاڑی والے نے بتا یا کہ ہماری گاڑی سوا پانچ بجے مہدپور چوک بازار پہونچے گی، وہ گاڑی اجین میں مختلف مقامات سے اخبارات کے بینڈل اٹھاتی اوراتارتی ہوئی ہوئی روانہ ہوگئی،میں نے ساڑھے چار بجے اپنے گھر پر فون لگایا کہ عزیزم خادم زادے محمد انس چودھری سلمہ اللہ المتعال پانچ بن کر دس منٹ پرمجھے لینے کےلئے بائک کے کرچوک پہونچ جائیں،عزیزم پانچ ہی بجے چوک پہونچ گیے،پانچ بج کر دس منٹ پریہ گاڑی چوک پہونچی، میں چند لمحوں میں اپنے گھرپرپہونچ کراسباق کامطالعہ کیااوراول وقت میں نمازفجر اداکرکے تھوڑی دیرکے لیے بستر استراحت پر درازہوگیا۔ پھرغسل وناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد چھ بج کر چالیس منٹ پر مدرسہ پہونچ گیا۔
*اسلامک فقہ اکیڈمی کے بتیسویں سیمینار،پلاپٹی ضلع کروڑ(تمل ناڈو)کاسفر* قسط4.آخری
*مفتی محمداشرف قاسمی*
[email protected]
*علمی سوغات*
زبانی وروحانی علمی تحفوں کے علاوہ کتابی صورت میں منتظمین و میزبانوں کی طرف سے درج ذیل علمی سوغات سے بندہ سرفرازہوا۔
1. فتاوی عثمانی،تین جلدیں ۔از:حضرت مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم،تخریج وترتیب: مولانامحمدزبیرحق نواز۔مطبوعہ:مجلس جامع الخیر،آمبور،مدراس،انڈیا۔ سن طباعت تحریرنہیں ہے،مرتب نے عرض مرتب کے اختتامیہ میں 1431ھ لکھا ہے۔)
2.الموجزفی اصول الفقہ مع المعجم الاصولی،(الفھرس الھجائی لماجاء فی الکتاب من الباحث۔(الصفحات421) (تالیف :المفتی محمد عبید اللہ الاسعدی،عضو ھیئۃ التدریس بالجامعۃ العربیۃ ھتورا،باندہ،الھند،طبعۃ ثالثۃ،طبعۃ اولی1434ھ -2015م)
3.شرح الوقایۃ،(الجزء الاول)للامام العلامۃ الفھامۃ صدرالشریعۃ عبیداللہ بن مسعود الانصاری المحبوبی،مع تعلیقات عمدۃ الرعایۃ فی حل شرح الوقایۃ،للامام ابی الحسنات محمدعبدالحیی اللکناوی الفرنغی محلی ،اعتنی بہ وھذبہ وحققہ: المفتی ابوحمادمحمد اسعدالبالنفوری،استاذ الحدیث والفقہ ورئیس قسم الافتاء بدارالعلوم المرکز الاسلامی,انکلیشور،غجرات،(الصفحات 660)الناشر: المکتبۃ المحمودیۃ انکلیشور،سنۃ الطباعۃ: 1443ھ-2024م)
4.علماء وخواص امت،مقام اور ذمہ داریاں ۔( مجموعہ خطبات استقالیہ،مؤتمرات المجمع الفقہ الاسلامی)از: مولانا خالدسیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم (صخامت528صفحات)،ناشر:ایفاپبلیکیشنز،دہلی،سن طباعت نومبر2023.
5.آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات ۔(ضخامت280 صفحات)تالیف مفتی ابوالکلام شفیق القاسمی،استاذدارالعلوم زکریا،سیلم تمل ناڈو،ناشر مکتبہ المظاھر،سن اشاعت1443ھ_2021م۔
6.سعید الملت نمبر(ماہنامہ الخیرکاچھٹا خصوصی شمارہ،حضرت مفتی سعید احمد صاحب پرنامبٹی کی سوانحی حیات وخدمات)،مرتب:مفتی محمد مصباح اللہ قاسمی،(ضخامت224صفحات)،ناشر: مجلس جمع الخیر،انبور.
جمادی الاولی والثانیۃ۔1444ھ،-دسمبر،وجنوری2022-23م۔
7.حیات خلیل کی چند جھلکیاں(مفتی خلیل الرحمٰن رشیدصاحب قاسمی کی مختصر سوانح حیات)،(ضخامت176صفحات)مرتب محمد اکرم بن مولانا اسلم رشیدرحمانی،ناشر: دارالعلوم مدرسہ عربیہ تعلیم المسلمین ،لوناواڑہ،ساگر،گجرات،1444ھ-2023م۔
8. وفات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔تالیف: مفتی ابوالکلام شفیق القاسمی،استاذ :دارالعلوم زکریا،سیلم تمل ناڈو،المکتبۃ الیوسفیہ،دیوبند،الھند،تاریخ النشر:1/ ربیع الاول 1442ھ۔
9.التاریخ التشریع فی العصر المکی والمدنی۔تالیف مفتی ابوالکلام شفیق القاسمی،استاذدارالعلوم زکریا،سیلم تمل ناڈو۔
الناشر: مکتبۃ المظاھر سلیم،تاریخ الںنشر4جمادی الاول1445ھ۔
10۔علامہ شاطبی کے مقاصد؛ قواعدالموفقات کی روشنی میں،از:ڈاکٹرمفتی محمدشاہجہان ندوی۔ایفا پبلیکشنزدہلی،سن اشاعت نہیں تحریر ہے ۔
11. مقاصدشریعت سے متعلق قواعد الموفقات کی روشنی میں۔ از ڈاکٹر ظفرالاسلام صدیقی،ایفا پبلیکشنز،دہلی،2023ء۔
12.فقہ حنفی خصوصیات واولیات ۔از : مولاناخالد سیف اللہ رحمانی ۔ایفا پبلیکشنزدہلی ۔اشاعت ثانی2014م۔
13.فقہ حنفی اورحدیث۔از : مولاناخالدسیف اللہ رحمانی ۔ایفا پبلیکشنز دہلی ۔اشاعت ثانی2014م۔
14.کلیدی خطبہ(بیسواں فقہی سیمنار،3تا5جمادی اولیٰ 1445ھ_18تا20نومبر2023م، پلاپٹی تمل ناڈو):مولانا خالدسیف اللہ رحمانی ۔ایفا پبلیکشنز دہلی ۔
15.علامہ ابن عاشور کانظریۂ مقاصد،ان کی کتابوں کی روشنی میں،ڈاکٹرمفتی محمد شاہجہان ندوی۔ایفاپبلیکشنز دہلی،سن اشاعت نہیں تحریر ہے ۔
16.جدید مسائل اورفقہ اکیڈمی کے فیصلے(فقہی سیمینار:26تا31)مع تعارف وخدمات اکیڈمی،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا۔جولائی2023م۔
17.جدید مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے ( فقہی سیمینار:1تا25) مع تعارف وخدمات اکیڈمی،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا۔طبع ثانی2022م۔
18.نمازتراویح کی اہمیت اورچند قابل اصلاح پہلو۔تالیف: مفتی محمدتبریز عالم حلیمی قاسمی،دارالعلوم حیدرآباد،1439ھ_2018م
19.استقبالیہ کلمات،بموقع: بتیسویں فقہی سیمینار،منعقدہ جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ ،2023م۔( یہ خطبہ استقبالیہ پلاپٹی کی بنیادی اسلامی تاریخ کو سمجھنے کے لیے انتہائی جامع ہے)ناشر: جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ شریعۃ کالج،پلاپٹی،صلع کرور،تامل ناڈو۔2023م۔
20. ماہرین کی رپورٹ: سرمایہ کاری کے بعض نئے طریقے ۔ محمد سلمان مظاہری،مرکزالاقتصاد الاسلامی،بنگلور،انڈیا۔ناشر: ایفا پبلیکشنز دہلی2023م۔
21. ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے دولت کی بڑھوتری کے تعلق سے بہت ہی اہم اور بنیادی معلومات ۔از: محمد شریف الدین شبیر۔ بانی وچیف ایگزیکٹیو آفیسر ،سین سیج فنانشل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ ،حیدرآباد،نومبر2023م۔
*اسلامک فقہ اکیڈمی کے بتیسویں سیمینار،پلاپٹی ضلع کروڑ(تمل ناڈو)کاسفر* قسط3.
*مفتی محمداشرف قاسمی*
[email protected]
*تجاویزکے شق نمبردس میں اختلاف*
دوسرے دن جب تشبہ کے تعلق سے عرض مسئلہ پیش ہورہاتھا،توعین اسی وقت وہیں مسجدکے تحتانی حصے کے ایک گوشہ میں ہماری تجویز کمیٹی کی مجلس بھی قائم ہوئی۔
تجاویزمیں ایک شق سے بندہ کی رائے تھی کہ:
”ربو(سود)کے پیسہ کے حکم کوجوزکوۃ کے ساتھ مربوط کرکے مستحقین زکوٰۃ پرتصدق کولازم کیاگیاہے،وہ محل نظر ہے۔ میرے خیال میں زکوۃ اور اس میں فرق ہے،اس مال کو بلانیت ثواب ہرکارخیر میں خرچ کیاجاسکتاہے۔اس میں تملیک ضروری نہیں ہے۔اس لیے اگر اصل مالکوں تک اسے واپس کرناناممکن ہو تو زیربحث مسئلہ میں رفاہی کاموں ،مدارس کی عمارتوں وغیرہ کے لیے مختلف کاموں میں ربو (سود)کاپیسہ استعمال کیاجاسکتا ہے۔اسی طرف حضرت تھانوی اور دیگربعض محقق علماء کارجحان ہے.“
دیگربعض ارکانِ تجویز نے میری بات اس رائے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ:
”تجاویزکی عبارت خوانی ہوگی تواس وقت آپ اپنی بات رکھیں.“
*گرمی سےپریشانی*
چونکہ دعوت نامہ میں تحریرہدایت کے مطابق گرم کپڑاپہن کراورساتھ لے کے أئے تھے،لیکن یہاں موسم اتناگرم تھا کہ دھوپ میں کھڑاہونامشکل تھا۔اورگرم کپڑے جسم پرباقی رکھنا آفت جان۔
تمام مہمانوں کے لباس کی نستعلیقی ہئیت آہستہ آہستہ تبدیل ہوگئی۔ دوسرے دن ڈاکٹررضی الاسلام ندوی بغیرشیروانی کے ملے، تو میں نے ان سے یہی سوال کیاکہ آپ کی نستعلیقی ہیئت تبدیل ہوگئ؟ اس پر موصوف نے ہنس کرجواب دیا کہ:
”گرمی میں کب تک بوجھ لادکررکھیں گے؟!“
بیس کی صبح تقریباً پونے گیارہ ڈاکٹرفہیم اخترندوی (شعبہ دینیات،مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی،حیدر آباد) کے پاس میں کھڑا تھاکہ ڈاکٹر سعودعالم قاسمی(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)شیر وانی میں تشریف لائے،اس پرمیں نے ان سے تفریح کرتے ہوئے پوچھاکہ:
”آپ کی نستعلیقی ہیئت تبدیل نہیں ہوئی؟“
اس لطیفے کوشایدوہ نہیں سمجھ سکے یا میری بات صحیح طور وہ سن نہیں سکے۔ بولے :
”ایسی بات نہیں ہے،بلکہ میں نے اپنے کو لفافہ میں پیک کرلیا،اس سے پریشان ہوں“
ڈاکٹرفہیم اخترصاحب ندوی نے ان سے کہاکہ :
” آپ اس طرف نہ آئیں ادھردھوپ کی تمازت ہے،آپ مسجدمیں بیھیں۔“
الغرض ہمارے گرم کپڑے پریشانی کاباعث بن گئے۔ لیکن واپسی میں بہرحال گرم کپڑوں کی ضرورت ہوگی۔اس لیے یہ گرم کپڑے بوجھ ہونے کے باوجودراستے میں سردی سے حفاظت کے لیے ضروری بھی ہیں۔
*19کی شام کوشہر کی سیاحت*
پلاپٹی میں 35ہزار ووٹ ہیں،یہ سب مسلم ووٹ ہیں۔ یہاں ایک بھی غیرایمان والا نہیں ہے۔ یہاں پولس تھانہ بھی نہیں ہے،اور نہ شراب کی کوئی دکان ہے اور نہ ہی کوئی سییمنیاہاؤس۔ مرد حضرات سروں پرٹوپی اور خواتین مکمل شرعی پردے میں رہتی ہیں،حتی کہ سات آٹھ سال کی بچیاں بھی شرعی نقاب وبرقع میں ہوتی ہیں۔
ہم لوگوں بازار سے اپنے اپنے بچوں کے لیے بطور یادگار کچھ سامان خریدنا چاہتے تھے۔ایک اے سی والی اچھی کارمیں میزبان ہمیں لے کر بستی میں آئے ،ایک مسجدمیں نماز عصر اداکی، دو مدرسوں کے سامنے ایک دو منٹ کےلے گاڑی روکی گئی،ایک مقام پر رہبرنےادب سے چائے وغیرہ کی درخواست کی ،چنانچہ ایک ہوٹل میں چائے کے لیے پہونچے ،تو چائے سے قبل نمکین اورمٹھائیاں بھی ٹیبل پرآگئیں۔ پھربتاچلا کہ پروگرام میں مہمانوں کے لیے چائے کا نظم اسی ہوٹل مالک کی طرف سے ہے ،ہوٹل مالک وخدام نے اپنے ہوٹل میں سیمینار کے مہمانوں کو دیکھ کراصلی دیسی گھی میں صبح تیار گئی جو مٹھائی ٹیبل رکھی گئی تھی،جلدی جلدی بالکل گرم گرم تیار کراکر وہی مزید مٹھائی ٹیبل پرپیش کردیا ۔
یہیں بیٹھ کر رفیق سیاحت وسفرمفتی محمد ادریس صاحب نے اس مجلس اور میزبانوں کے ویڈیوزکو اپنے انسٹاگرام پراپ لوڈکیا۔ موصوف کے دولاکھ سے زائدویووائرس ہیں ۔
ایک چوراہے پرگزرتے ہوئے ایک بھیڑنظر أئی جس میں تمام شرکاء کے سروں پر مسلمانوں کی طرح ٹوپیاں تھیں،(یہ مجمع مسلمانوں پر ہی مشتمل تھا)اس کے بارے میں میزبانوں نے بتایاکہ اسٹالین(وزیراعلیٰ تمل ناڈو) کی آمدہونے والی ہے،انھیں کے استقبال میں یہ سب مسلمان جمع ہیں ۔
یہاں اردو زبان تقریباً بالکل نہیں ہے۔اس کے باوجود دینداری کاماحول اس قدرہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان دین کی حفاظت واشاعت کاذریعہ نہیں ،اس لیے جولوگ اردو کواسلام کی زبان سمجھ کرکے عربی،دعوتی اور قانونی زبانوں سے اپنے تعلیمی اداروں کودور رکھے ہوئے ہیں انھیں اس علاقہ سے سبق حاصل کرناچاہئے۔
*واپسی*
چونکہ بیس نومبر کومجھے وطن واپسی کی خاطر بارہ بجے ڈینڈگل کے لیے نکلناتھا،اورتجاویز کی عبارت خوانی کی کارروائی گیارہ بجے سے شروع کرنے کا اعلان ہواتھا۔گیارہ بجے کا صاف مطلب ساڑھے گیارہ بجے سمجھناچاہئے۔
اس لیےاولامیں نے سوچا کہ تحریری شکل میں اپنی رائے اکیڈمی کے حوالہ کرکے میں اپنے سفر پر روانہ ہوجاؤں،البتہ تبرکاً کچھ وقت کے لیے آخری مجلس میں بھی شریک ہوجاؤں۔اسی خیال سے اختتامی اجلاس میں شریک ہوگیا۔ لیکن سوال نمبر10 جس میں یہ شق تھی،اس پر کوئی تجویزنہیں آئی۔ میں گیارہ بج کر47منٹ پر اس مبارک اجلاس سے نکل کر استقبالیہ پرآگیااور پھریہاں سے بذریعہ کار ڈینڈگل کی طرف روانہ ہوگئے۔کار سے سے گزرتے ہوئے علاقہ ہریالی کشادہ سڑکیں ،ہری بھری پہاڑیاں آنکھوں کو لذت اود دل ودماغ کو فرحت عید فراہم کررہی تھیں، کارکی ڈرائیونگ محترم ابوالفتاح کررہے تھے۔خیال تھاکہ ڈینڈگل میں کسی ہوٹل سے راستہ کے لیے کھانہ پارسل کرالیں گے۔ لیکن موصوف نے ہمیں اسٹیشن پرچھوڑکر خودہی بازارسے کیلوں کے پتوں میں کھانے پیک کرامت لائے( ہم لوگوں نے ظہر کی آخر وقت اورعصر کی اوک وقت میں اسٹیشن کے پلیٹ نمبر1 ہر قیام وقعود کے ساتھ نمازیں اداکیں۔خیال رہے کہ ابھی تک سفر کی اکثرنمازیں ٹرینوں میں بلاقیام اداکی گئیں،) ابوالفتاح صاحب بڑی اکرام ومحبت کے ساتھ دعائے خیر درخواست کرتے ہوئے سلام ومصافحہ کے بعدہم سے رخصت ہوئے،ان سب میزبانوں نے،یادوں ومحبتوں کے ایسے چراغ ہمارے دل ودماغ میں روشن کیا ہے جس کی روشنی مدت مدیدتک ان کے چہروں کو ہمارے ذہن ودماغ کے ایوانوں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔ ہمارا یہ پورا سفرمیرے دل ودماغ میں ایسا آئینہ بن گیا جس میں ایک طرف عالمِ اسلام کے چنندہ ومقتدر علماء کے مقدس قافلہ کی متحرک تصویر گردش کررہی ہے، اوردوسری طرف مہمانوں کے اکرام ومحبت میں میزبانوں بھاگ دوڑ اپنی طرف ہمیں کھینچ رہی ہے۔اللہ تعالیٰ اس نورانی عکس ونقش کو تادخول جنت قائم وباقی فرمائے۔ آمین ثم آمین
جاری۔۔۔۔۔
ترتیب:ڈاکٹرمحمد اسرائیل قاسمی
یہ ایک ذی استعداد اورہر فن مولا،بزرگ عالم ہیں،کسی موضوع پرگفتگوسن کرمیں نے ان سے تفریح کی، پھر وہ میرے ساتھ ہوگئے۔ ایک کے بعدایک باتوں سے مسلسل بندہ کو محظوظ کرتے رہے۔انھوں نے میری کتاب”تعمیرمساجد اور انسانیت کی رہنمائی“ کاذکرکرکے میرانام پوچھا پھربولے:
*”اسی کتاب کے ذریعہ غائبانہ طورپرآپ کو پہچانتاہوں،اورمیں نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق رکھتا ہوں،میری روح آپ تک مجھے کھینچ لائی ہے۔آپ فرشی نہیں بلکہ عرشی مفتی بنو۔“*
پھرکچھ دعائیں بتائیں، جس میں ایک دعادولت دنیا میں اضافہ کے لیے بتایا۔ میں نے پوچھا کہ:
”آپ نے اس دعاکااہتمام کیا اوراس کے نتائج حاصل ہوئے؟“،اس پر فرمایا کہ:
” یہ دعا ہرعالم کو پڑھنا چاہئے،علماء کو مالی فراخی کی زیادہ ضرورت ہے ،جہاں تک میراتعلق ہے،میں نے اس دعا کااہتمام کیا اور اس کے نتائج مجھے حاصل ہوئے،میں نے اپنے پیسے سے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرلی،اس سے بڑی دولت مندی کیا ہوسکتی ہے۔ کہاں آموں کے پھینکے ہوئے چھلکوں کی روٹی کھانے پر مجبور تھا اور کہاں اتناروپیہ آگیاکہ حج بیت اللہ بھی کرلی ؟؟!!“
آپ کی بتائی ہوئی دعاؤں کو میں نے آڈیو ریکارڈ کرلیاتھا،ان شاءاللہ تعالیٰ ان کا اہتمام کروں گا۔
آپ تفریحی انداز میں عربی بھی خوب بولتے تھے۔
مثلاًحضرت مفتی محمد جنیدصاحب کی طرف اشارہ کرکے میں نے حضرت مفتی صاحب کاتعارف کراناچاہاتو کہا کہ :
”میں انھیں جانتا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کانام جنیداسم تصغیر بروزن طفیل، وھوماخوذ من الطفل۔ وانت کالطفل فی الجسم ،ولکن کالجبال فی العلم وانت عالم کبیر،فلذاک یناسب لک ان تکون طویلا و’موٹووا‘وسمینا“
(خیال رہے کہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی نوراللہ مرقدہ کی طرح حضرت مفتی جنید احمدصاحب جسمانی لحاظ سے پست قد ہیں،لیکن آپ کی تعلیمات وخدمات بہت ہی بلند وبالا۔)
اسی طرح فرمایاکہ :
” میں بچپن میں بہت غریب تھا ،غربت کی وجہ سے آم کے جوچھلکے لوگ پھینک دیتے تھے اس کی روٹی میں نے بچپن میں کھائی ہے۔“
پھراسی بات کو اس طرح عربی میں بیان کیا۔
”کنت طفلا ’غریبا‘ ومسکینا فلذالک کنت آکل خبزقشر الانبج “
مولانامحمدطیب صاحب ندوی نے کہا کہ: ”حضرت غریب کے لیے مفلس یامسکین کالفظ آتا ہے“۔
اس پرجواب دیاکہ:”صرف سنتے رہو،میں جج ہوں جج!“
پھرتفریح کرتے ہوئے کہاکہ :
میرے پاس بسترپر سوتے وقت مچھرآیا تو میں نے اس کوعربی میں کہا:
” یاایھا المچھر لاتبھنبھن فان عندی لیس مچھردانی“
پھرمچھرکے بارے میں کہاکہ:
”مچھرغافل انسان کو متنبہ کرنے اور نماز وغیرہ کے لیے بیدار کرنے آتا ہے۔اسی لیے کبھی کبھی میں مچھردانی لگا کراس کے باہر سوتاہوں، تاکہ مچھر ہماری غفلت دورکرتارہے“۔
زیادہ گفتگوسے اندازہ ہوا کہ آپ پریاتوجذب کی حالت طاری رہتی ہے،یاذہنی توازن میں کچھ خلل واقع ہورہاہے۔
موصوف اپنی کوٹ(صدری) کی دونوں جیبوں میں اسٹیل کے دوچمچے رکھے ہوئے تھے، جسے نکال کر مجھے دیکھایا ،یہی نہیں بلکہ سلورکلرمیں کاغذ (نقرئی طشتری)کاایک پلیٹ(جس میں مٹھائی مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے)بھی جیب میں رکھے ہوئے تھے،اس سلسلے میں کہاکہ :”میں کوئی چیز نہیں پھینکتاہوں۔“
یہ سب ذہنی توازن کی بے اعتدالی کی علامات ہوسکتی ہیں ۔
خاص طورپر یہاں کی گرمی میں اس قسم کی تکلیف بڑھ جانے کاقوی اندیشہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر کامعاملہ فرمائے ۔آمین ثم آمین
(چنئی پہنچنے سے قبل تک رودادسفر پرمشتمل ہماری یہ تحریرمکمل ہوچکی تھی۔ لیکن چنئی سے بھوپال روانہ ہونے کے بعد 21 کی شام کو بھوپال پہونچنے سے قبل کسی گروپ پرحضرت مفتی صاحب کے بارے میں آپ کی تصویر کے ساتھ درج ذیل تحریرموصول ہوئی۔
” یہ حضرت مفتی ابوبکر صاحب قاسمی استاد مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ دربھنگہ بہارہیں، بہار کے بڑے مفتیان کرام میں ان کا شمار ہوتا ہے ،ان دنوں مدراس گئے ہوئے تھے ،وہاں اسٹیشن پران کادماغی توازن بگڑگیا ہے، اگرکسی صاحب کو ملیں تو اس نمبر پراطلاع دینے کی کوشش کریں 9631880618“
اس خبر سے بندہ کو کافی افسوس ہوا،اور حضرت والاکی تلاش وتعاون کے لیے ممبئی جمعیت علمائے ہند گروپ(زیر نگرانی:حضرت مولانامحمد اسلم صاحب قاسمی) اور اپنے ٹیلی گرام چینل پردرج ذیل تحریرمیں نے ارسال کی ۔
”حضرت مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت وعافیت عطاءفرمائے ۔پلاپٹی تمل ناڈومیں حضرت والاسے میری طویل ملاقات رہی،اپنے سفرنامہ میں میں نے جہاں ان سے استفادہ کی تفصیلات لکھیں وہیں آپ کی مجذوبانہ کیفیت یاذہنی عدمِ توازن کاذکربھی کیاہے۔ ہماراسفرنامہ چنئی پہونچنے سے قبل 20 نومبر کوہی مکمل ہوگیاتھا۔اب یہ اطلاع ملنے کے بعد کافی افسوس ہورہاہے۔اللہ تعالی حضرت والاکوصحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطافرمائے۔آمین ثم آمین
محمداشرف قاسمی
خادم الافتاءشہر مہدپور،اجین(ایم پی)
مسافرمن چنئی الی بھوپال
8:13P.M.
21نومبر2023م“)
جاری۔۔۔۔۔
ترتیب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
ایک دن نمازفجر کے بعدحضرت مولاناعبداللہ جولم صاحب کادرس قرآن ہوا۔ بعض احباب کاخیال ہے کہ موصوف غیرمقلدعالم ہیں، مختلف پروگراموں کی کئی مجلسوں میں راقم الحروف کی موصوف سے بے تکلفانہ ملاقاتیں ہوئیں،اوردعوتی موضوع پر تفصیلی گفتگو بھی ،لیکن تمام ملاقاتوں میں مجھے کبھی بھی غیرمقلدین جیسی بددماغی،ہٹ دھرمی،ضداوراسلاف امت سے عنادوعداوت کاادنی شائبہ بھی محسوس نہیں ہوا۔
البتہ اس پوری تفصیل سے احساس ہوتا ہے کہ شایدیہاں غیرمقلدیت کے جراثیم موجود ہیں ۔
*رہائش گاہ کےدو رفقاء*
ہمارے کمرے میں دیگر علماء کے علاؤہ محترم مفتی صالح الزماں قاسمی ازہری (جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ،اڑیسہ) تھے،موصوف کی تصویرمیرے ذہن ودماغ میں اس وقت سے نقش ہے،جب وہ دارالعلوم دیوبند میں تدریب فی الافتاء کے رسمی طالب علم تھے،اوراسی حیثیت سے حج ہاؤس (ممبئی)میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سیمینارمیں شریک ہوئے تھے،اس موقع پرحج ہاؤس میں عرب علماء سے فقہ حنفی ودیگر دبستان فقہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کوطعن و تشنیع کاذریعہ بنائےبجانے کی وجوہات اوراس کے تدارک پرعربی میں سوال وجواب کیاتھا ۔اس وقت ان کے چہرے پر پوری ریش نہیں آئی تھی۔ گویاچہرے سے وہ بچے تھے۔
دوسرے مہمان مغربی بنگال کے ایک مدرس اورمباحث فقہیہ کے سیمینار میں میرے سابق میزبان رہ چکے نوجوان عالم دین مفتی راسخ الاسلام قاسمی ارریاوی،)استاذ: حدیث وفقہ ،ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی اتر دیناج پور،مغربی بنگال) بھی رہائش میں ہمارے ساتھ تھے۔
موصوف نے اپنی کتاب
”مستندومدلل کتاب الدعاء“(مکتبہ عبدالرحمن،ٹھیکری باڑی ،سن اشاعت نہیں تحریر ہے۔)عنایت کی۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء ۔
نیزمفتی محمدادریس صاحب(جن کے سوشل میڈیا پرتقریباً دولاکھ ویورس ہیں)ان کی مرافقت رہی۔ موصوف نے ایک ہوٹل کی مجلس کواپنے چینل پراپ لوڈکیا،جس میں ٹیبل پر بندہ بھی موجود ہے۔
*افتتاحی اجلاس*
ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد تقریباًساڑھے نوبجے افتتاحی اجلاس کی ابتداء ہوئی۔ افتتاحی اجلاس میں مولانامحمدزکریاحسنی( یہ حسنی خاندانی نسبت نہیں ہے بلکہ جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ کی طرف تعلیمی نسبت ہے) تمل ناڈواور پلاپٹی کی اسلامی، دعوتی تاریخ اورموجودہ صورت حال پرانتہائی جامع خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔(کسی دوسرے موقع پراس خطبہ کے کچھ اجزاء حوالۂ قارئین کروں گا۔ان شاء اللہ)
موصوف نے اردو میں خطبہ استقبالیہ پیش کرنے کے علاوہ تمل میں بھی کچھ بیان کیا۔ بعض رفقاء تفریحا ان کے اس تمل بیان کوبچھوڈسے ہوئے پردم کرنے کی کوئی منتر بتارہے تھے۔ایک دوسرے بڑے بزرگ عالم نے بھی کسی دوسری نشست میں اپنا پورا بیان تمل ہی میں پیش کیا۔آخر میں کچھ اردومیں بھی گفتگو کی۔اور اردو پرعدم قدرت پرمعذرت پیش کی۔
یہاں اردو زبان تقریباً بالکل نہیں ہے۔اس کے باوجود دینداری کاماحول اس قدر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اردوزبان دین کی حفاظت واشاعت کاذریعہ نہیں،اس لیےجو لوگ اردو کواسلام کی زبان سمجھ کر عربی،دعوتی، قانونی اور سائنسی زبانوں سے اپنے تعلیمی اداروں کو دور رکھے ہوئے ہیں انھیں اس علاقہ سے سبق حاصل کرناچاہئے۔
*میزبانوں کی محبتیں*
زبان سے عدم واقفیت کی بناپرمیزبان اورمہمانوں دونوں کوکافی دشواری پیش آرہی تھی۔ لیکن مہمانوں کے اکرام ومحبت کے جذبات گویامیزبانوں کی نس نس میں کوٹ کوٹ کر بھرےگئے ہوں۔ کھانےکی اقسام اورطریقۂ اکل میں مہمانوں کی الجھن دیکھ کر میزبان انگلیوں کے اشاروں سے مہمانوں کوسمجھاتے ۔ جیساکہ اوپرسوپ پلانے کے بارے میں میزبان کی تعلیم بیان کرچکاہوں،وہی صورت حال یہاں بھی تھی ۔
مہمانوں کی رہائش گاہوں میں خدمات پرمامور افرادشب وروزمہمانوں کے اشاروں کے منتظر رہتے، تمام ضیوف کے سوجانے کے بعد وہ کمرے کے دروازے پریا مہمانوں کی چارپائی کے پاس اپنا گدا بچھاکرسوجاتے اورمہمانوں سے قبل بیدارہوکراپنی ذمہ داری پر لگ جاتے۔اس طرح خدمات انجام دینے والے میزبان عام طورپرغریب افراد یاطلباء نہیں ہیں،بلکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم وچراغ اورخوراکی وتعلیمی فیس ادا کرکے یہاں پڑھنے والے نو جوان ہیں۔
*دوسری نشست*
پہلے دن دوسری نشست بعدنمازمغرب منعقد ہوئی،اس میں حرام مال کے تعلق سے عرض مسئلہ پیش ہوا۔حضرت مفتی امانت علی صاحب قاسمی مدظلہ (استاذحدیث وافتاء دارالعلوم وقف دیوبند) کی کنوینگ میں تجویز کمیٹی بنی۔جس میں ایک رکن کے طورپربندہ کے نام کا بھی اعلان ہوا۔ مفتی رحمت اللہ صاحب ندوی (استاذ حدیث ندوۃ العلماء لکھنؤ)اورمفتی ابوبکرصاحب قاسمی (بہار) وغیرہ کے اسماء تھے۔
*مولانامفتی ابوبکرقاسمی صاحب مدظلہ،استاد مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ بہار*
*اسلامک فقہ اکیڈمی کے بتیسویں سیمینار،پلاپٹی ضلع کروڑ(تمل ناڈو)کاسفر* قسط2.
*مفتی محمداشرف قاسمی*
[email protected]
*ڈینڈیگل میں*
17و18نومبرکی شب تقریباً بارہ بجے ہماری ٹرین ڈنڈیگل ریلوے اسٹیشن پرپہونچی، چھوٹی وبڑی عمرکے تقریباً بیس لوگ پلیٹ فارم پرہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے،ٹرین رکتے ہی وہ سب ہم رفقاء کی طرف دوڑپڑے۔چونکہ کسی کاپاس”رضاکار“وغیرہ کی علامت نہیں تھی،اس لیے اولا اپنے ان مخلصین اورمحبین فی اللہ میزبانوں کی شناخت میں دشواری ہوئی،لیکن چندہی لمحوں میں یقین ہوگیا کہ یہ سب ہمارے میزبان ہیں ۔
ان لوگوں نے تمام رفقاء کے سامانوں کو اپنے اپنے ہاتھوں و کندھوں پراٹھالیا۔لیکن میزبانوں کے اصرار کے باوجود لیپ ٹاپ کی حفاظت کی غرض سے میں نے اپنابیگ کسی کونہیں دیا۔ اسٹیشن سے باہرکاراورمنی بس لگی ہوئی تھی۔ میزبانوں نے بتایا کہ:
”یہاں سے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں آپ منزل پرپہونچے گے۔“
اے سی سے باہرنکلنے کے بعداحساس ہوا کہ یہاں سردی کے بجائے گرمی ہے۔ جب کہ دعوت نامہ میں بتایا گیاتھا کہ سردی کےلحاظ سے گرم کپڑے وغیرہ ساتھ میں لے کرآئیں۔
تھوڑی دورتک بس کے چلنے کے بعد ایک عمارت کے سامنے روک کرہمیں بتایا گیا کہ:
”یہ مکہ مسجدہے،یہاں نمازاورکھانے سے فراغت کے بعد آگے کاسفرہوگا۔“
چنانچہ اسی مسجد میں عشاء کی نمازاداکی گئی،نماز کے بعددسترخوان بچھا، ہمارے علاقے میں جس بڑے وگہرے تھال میں روٹی بنانے کےلیےخواتین روٹی آٹا گوندھتی ہیں،اسی تھال میں سبزی کے ساتھ دو قسم کی روٹیاں،مزید سوئیں کی ایک تیسری قسم کی روٹی دسترخوان پراورایک بڑے پیالے میں زیادہ پانی والی دال کی شکل میں کچھ تھا۔ بعدمیں میزبانوں نے بتایا کہ”یہ مرغے کاپایا ہے“
لیکن اس کوکھانے کاطریقہ نہیں سمجھ میں آرہاتھا،ان میزبانوں کو اردو بولنے میں بہت دشواری ہورہی تھی۔ایک میزبان ہمارے سامنے بار بارآکرلفظ” پایا “کاتکلم کرتے ہوئے اس کو کھانے کی ترکیب بتانے کے لیے پیالے کی طرف اشارہ کرتےہوئے جس طرح وضو میں ایک ساتھ دونوں
ہتھیلیوں میں پانی بھرکر چہرے پرہاتھ پھیرتے ہیں،یاحوض وتالات سے دونوں ہتھیلیوں میں پانی بھرکر پیتے ہیں ،اسی ہیئت میں ہمیں پیالے کو منہ سے لگا کرپینے کااشارہ کرتے۔
کچھ دیر کے بعد بغل میں بیٹھے صاحب نے پیالہ میں منہ میں لگاکرجب پائے کاشوربہ پیا،توان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی پیالہ منہ میں لگاکریہ سوپ پیا۔ یہ سوپ کافی لذیذتھا۔کھانے کے بعدچائے ہوئی۔یہاں میزبان حضرات نے بتایا کہ ”یہ مسجدمرکزکابیٹاہے بڑامرکزدوسری جگہ ہے۔“ رفقائے نے”بیٹا“ کامطلب یہ بتایا کہ ”یہ چھوٹامرکز ہے“۔میزبان حضرات ہمیں یہاں سے رخصت کرتے ہوئے محبت بھرے اندازمیں دعاؤں کی درخواست کررہے تھے.اللہ تعالیٰ ان کی ہرجائز ضروریات پوری فرمائے،اور دنیاوآخرت کی تمام بھلائیاں انھیں اورہمیں عطاء فرمائے ۔آمین ثم آمین
*پلا پٹی کی طرف*
یہاں سے منزل کی طرف ہماری گاڑی روانہ ہوئی ۔
چونکہ رات زیادہ ہوچکی تھی،رفقاء کوشاید ننید آرہی تھی،اس لیے یہ طے ہوا کہ بس کے مائک واسپیکرسسٹم میں بلوٹوتھ کے ذریعہ نعت لگادی جائے ،چانچہ مفتی سیف اللہ عرشی صاحب یہ کام کرتے رہے اورنعت ونظم کی سماعت کے ساتھ ہم منزل مقصودکی طرف روانہ ہوگئے۔ کشادہ اورستھری سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہم تقریباً ڈیڑھ بجے شب جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ کے کپماؤنڈ میں داخل ہوگئے۔ناموں وغیرہ کے اندراج کے بعد سب کو ان کی مقررہ رہائش گاہوں پربھیج دیاگیا۔
ہماری رہائش گاہ پرخدمات کے لیے درج ذیل4 طلباء مامور تھے۔
محمد بلال ،رابعہ۔
عطاء اللہ رابعہ۔
عبدالسلام ۔الثالث
محمد مسعب الرابع۔
تھوڑی دیرمیں ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے،نمازفجرکے وقت میزبانوں نے جگایا۔مسجدمیں باجماعت نمازسے فارغ ہوکرغسل وغیرہ کیا۔چائے سے فارغ ہوکر پھراستراحت کے لیے بستر پردرازہوگئے۔ دوبارہ ساڑھے آٹھ بجے ناشتہ کے لیے ہمیں میزبانوں نےجگایا۔
*نمازفجر میں دعائے قنوت وغیرہ*
پہلے دن نمازفجر میں کوئی نئی اور غیرروایتی بات نہیں محسوس کی،بلکہ فلسطین کی صورتِ حال کے پیش نظر قنوت نازلہ نہ پڑھنے پرایک گونہ رنج بھی ہوا۔ دوسرے دن نمازفجر میں دوسری رکعت میں رکوع سے اٹھنے کے بعد دعائے قنوت پڑھی گئی۔ نیز بعض جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ سے قبل امام صاحب نے بسملہ اور سوۃ کے اختتام پرولاالضالین پڑھ کربلند آوازسے آمین پڑھا۔نیز سورۃ فاتحہ اور سورۃ کے درمیان قدرے طویل سکتہ بھی کیا۔ اورسلام کے بعد کب دعاشروع کی کب ختم کی؟ اس کی کوئی آوازسنائی نہیں پڑی۔ خیال رہے کہ فرائض کے دعاؤں کی قبولیت پر صحاح صریح روایات موجود ہیں ،کچھ فیشن پرست حنفی علماء غیرمقلدین سے متاثر ہوکر فرض نمازوں کے بعد دعاؤں کے ترک پرعمل کرتے ہیں،جوکہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
ماشاءاللہ
مبدا فیاض نے آپ کے قلم کو وہ فیاضی عطا کی ہے جو مستقل سخاوت کرتا ہے اور بخوبی کرتا ہے اور مشتملات کو بہت عمدہ انداز میں سمیٹ لیتا ہے
مقامی دینی ملی ذمہ داریوں اور تدریسی مصروفیات کے ساتھ مستقل تحریروں کا آنا ہم خردوں کے لئے قابل تقلید ہے۔
اللہ عزوجل جملہ شرور ص فتن اور بدنظری سے محفوظ فرمائے اور ان امور کو ذخیرہ آخرت بنائے۔
نیک خواہشات کا طالب
سیف اللہ عرشی اندور
5دسمبر2023
بھوپال سے چاربجے سمپرکرانتی ٹرین تھی۔ یہاں تک پہونچنے کےلیے
اجین سے بھوپال کے لیے ساڑھے دس بجے چارٹرڈ بس
میں ریزرویشن ہواتھا، اس بس کوپکڑنے کے لیے مہدپور سے ہمیں تقریباً آٹھ بجے نکلناتھا۔
چنانچہ اسی لحاظ سے ہم مہدپورسے نکل کرساڑھے نو یاپونے دس تک اجین پہونچ گیے اورپھرحضرت مولانا محمدطیب صاحب ندوی کی معیت میں بھوپال کے لیے اسی چارٹرڈبس کے ذریعہ کے ذریعہ ڈھائی بجے بھوپال وقت پرپہونچ گئے۔ ٹرین کی آمدمیں کافی وقت تھا،اس لیے پلیٹ نمبر6 کی جانب اسٹیشن سے قریب سبزی منڈی کے پاس واقع عظیم
الشان مسجد”بیت المکرم “میں چلے گئے،( پلیٹ فارم نمبر1کی جانب باہرنکلتے ہی مسجدسرائے سکندری واقع ہے،عام طورپراسی مسجد میں دیندارمسافرکچھ وقت کے لیے رکتے ہیں،میں بھی عام طورپراس روٹ سے سفر کی صورت میں نماز وغیرہ کی ادائیگی اورٹرین وغیرہ کے انتظام کے لیے رکتاہوں،لیکن چھ نمبر پلیٹ فارم پراترنے کی وجہ سے مسجدبیت المکرم میں) ظہرکی نمازادا کرکےسامنے ایک ہوٹل میں کھانے سے فارغ ہوئے۔ پھراسی مسجد ہی تقریباً ایک گھنٹہ آرام کیاگیا،اس کے بعدریلوے اسٹیشن پہونچ گئے۔
*بھوپال سے آگے کاسفر*
کسی کنفیوژن کی وجہ سے پلیٹ فارم نمبر6پرہم لوگ ٹرین کا انتظارکررہے تھے،لیکن گرامی قدربرادر محبی فی اللہ مفتی سیف اللہ صاحب عرشی قاسمی نے فون کرکے ہماراحال معلوم کیا اورصحیح پلیٹ فارم نمبر بتایا،توہم بھاگتے ہوئےوہاں پہونچے۔وہاں ایم پی کے مختلف علاقوں کے علاوہ راجستھان (جے پور)سے مولانا ابراراحمد ندوی اور باندہ(یوپی)سے مفتی محمداسجدصاحب،مفتی مسعوداسعدی(صاحبزاہ حضرت مولاناعبیداللہ اسعدی دامت برکاتہم)اور مفتی مغفورصاحب قاسمی موجودتھے۔قت مقررہ پر ہم ٹرین پرسوارہوئے۔
یہاں سے ان تمام مندوبین کےلئے اہم پی کے کچھ علماء نے ٹرین میں کھانہ فراہم کرنے کانظم کیاتھا۔جن میں حضرت مولانامحمدمعاذ صاحب ندوی(مہتمم دارالعلوم علامہ عبدالحیی حسنی ندوی)اورمفتی محمدعزیرصاحب فلاحی(اندور)نے بذریعہ فون اس سہولت اورانتظام کے بارے میں مجھے بتایاتھا۔
نیزمحترم مفتی محمد انور(مدرسہ تعلیم الدین،اندور)بھی رفقائے سفرکے لیے زادراہ لے کرآئے تھے۔
ٹرین میں میری ہی کوچ
میں دارالعلوم وقف دیوبندکے تدریب فی الافتاء کے دوطلباء مفتی محمدارشدربانی اور
محموداخترکیفی کی تھے۔ میری کیبن میں باندہ(یوپی) کے تینوں علماء کی مرافقت رہی۔
بھوپال سے جوکھانے وغیرہ کا نظم ہواتھا،اسے تمام مندوبین تک بروقت پہونچانے کی ذمہ داری محترم مفتی سیف اللہ عرشی(اندور )اورمفتی محمدرضوان(ہردا)صاحبان انجام دے رہے تھے ۔
دوسرے دن ”وجے واڑہ“ میں بھی کہیں سے رفقائے سفرکے لیے کھانے نظم ہوا تھا۔
وجے واڑہ میں جب تازہ تازہ کھانا آیاتو اس کھانے کی تھیلی میں بریانی کے بھی بکسزتھے جودیکھنے میں باریک چاول معلوم تھے،لیکن پلیٹ میں نکالنے کے بعد معلوم ہواکہ وہ سوئیں کی بریانی ہے۔شاید یہی بریانی اس رودادسفر کوضبط کرنے کامحرک بنی۔
میں اپنے ساتھ اپنالیپ ٹاپ بھی لایاتھا تاکہ رفیق سفرمحبی فی اللہ مفتی محمدرضوان صاحب قاسمی اورمفتی سیف اللہ عرشی سے کچھ سافٹ ویئرس وغیرہ انسٹال کراکرسمجھ لوں، یہ دونوں حضرات اپنی کوچ سےمیرے پاس تشریف لائے،اورمیرا کچھ کام ٹرین میں کچھ منزل پرپہونچ پوراکیا۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء
*ٹرین میں مختلف موضوعات پرباہم گفتگو*
ٹرین میں علماء کرام کے اس کہکشاں میں مختلف مرتب وغیرمرتب موضوعات زیر گفتگو آئے ،انھیں میں ایک بات مدارس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ وملازمین کی قربانیوں کے تعلق سے آئی ہے۔دوران گفتگو ایک صاحب نے پوچھاکہ :”اس مجلس میں کوئی مہتمم تو نہیں ہے؟“
سب کی طرف سے نفی میں جواب ملنے کے بعد موصوف نے فرمایا کہ:
” مدرسوں کی ملازمت اختیارکرنےکے بعد آہستہ خدمات وذمہ داریوں میں اضافہ ہوتاجاتاہے ،اورجب مہتمم کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ بندہ پوری طرح میرے قابومیں آگیا ہے،توجس طرح کولہوکے دوپاٹوں کے درمیان گناپیرنے(اعصار) کےلیے لگایاجاتا ہے،اسی طرح مدرسین وملازمین کو پیراجاتاہے۔“
کولہومیں گنے کی پیرائی میں نے دیکھ وسن رکھاہے،لیکن موصوف کی زبان سے یہ تعبیر وجملہ زیادہ دنوں کے بعد سن کر یک لخت خیال آیا کہ اس کا صحیح مصداق میں ہی ہوں،میرے سفرنامہ وغیرہ سے قارئین میری مصروفیات ومشاغل کواچھی طرح سمجھ سکتے ہیں،نیزمیری کتاب ”یادداشت لاک ڈاون“ بھی میری اس اعصارجہود کی شہادت ہے۔(یہ کتاب کو میرے ٹیلی گرام چینل دارالافتاء مہدپور،
https://t.me/joinchat/U2cuCarYg0LZ0e2l
سے لوڈکی جاسکتی ہے)۔
پھولوں کاکبھی میں نے نظارہ نہیں دیکھا
دارالافتاء شہر مہدپور
زیرِ نگرانی:حضرت مفتی محمد اشرف صاحب قاسمی (صدر مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور و نگراں مجدد الف ثانی اکیڈمی مہدپور)
Choose a Different Plan
Your current plan allows analytics for only 5 channels. To get more, please choose a different plan.