cookie

We use cookies to improve your browsing experience. By clicking «Accept all», you agree to the use of cookies.

avatar

🌹🌹عشقی🌹القدس 🌹🌹

رغم البعد أنتِ لأرواحنا أقرب ! ✨ يربطنا بكِ شيء أعظم من الحب بكثيير ! .♥️

Show more
The country is not specifiedUrdu348Religion & Spirituality68 829
Advertising posts
446Subscribers
No data24 hours
-27 days
-330 days

Data loading in progress...

Subscriber growth rate

Data loading in progress...

شعر حج
Show all...
💛اے القدس💛 تم سے محبت تو ڈھلتی شاموں کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ دن کو اپنے آنچل میں سمیٹ کر اس کی روشنی کو مدھم کر کے بالکل اندھیرا کر دیتی ہے کچھ ایسی ہی محبت اور عقیدت کا تعلق تجھ سے ہے کہ ڈھلتی شاموں کے ساتھ ہی محبت کے دئیے وجود جاں کو روشن کر دیتے ہیں ع۔۔خان
Show all...
Document from ع۔۔۔خان
Show all...
Document from ع۔۔۔خان
Show all...
Document from ع۔۔۔خان
Show all...
سوال جشن آزادی آج پاکستان والے منا رہے ہیں کل افغانستان و ہندوستان مناۓ گا لیکن پاک و ہند کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیا ہم افغانستان کی طرح آزاد ہے؟ کیا ہم نے مکمل نفاذ شریعت یہاں قائم کر لیا ہے؟ کیا ہمارے بڑوں نے جو قربانیاں دی تھی اس کا ثمرہ ہمیں ملا؟ آزادی مناتے ہوۓ یہ سوال ضرور خود سے پوچھے گا اگر اس کا جواب ناں میں ملے جو یقینا نفی میں ہی ملے گا تو کیا کبھی ہم نے اس کے لئے کوششیں کی؟ نفس سوء کہے گا کوشش سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہاں جمہوریت کا نفاذ ہے لیکن کیا کبھی یہ بھی سوچا ہے؟ آپ نے کہ ہم نے کبھی خود پر بھی شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہے؟؟؟ یا ہم صرف حکمرانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے رہیں گے؟؟ یاد رکھیے گا شیطان ہمارے پاس ان راہوں سے آتا ہے جہاں سے ہمیں گمان بھی نہیں ہوتا ہمیں نفس سوء سے جواب ملے گا حکمران اچھے ہوں گے تو ہم اچھے بن جائیں گے لیکن کیا ہمارے اچھے ہونے سے حکمران اچھے نہیں بن سکتے؟؟؟ یہ بات کبھی نفس سوء نہیں بتاۓ گا ہمارے اچھے اعمال کرنے سے اللہ کی رحمتیں نازل ہوں گی جن کی بدولت ہمیں نیک صالح حکمران ملیں گے جو شریعتِ مطہرہ کا نفاذ کریں گے جشن تو ہر دفعہ مناتے ہے ہم اس دفعہ اپنے آپ سے سوال کریں اپنے آپ کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کریں کل آپ سے مجھ سے ہم سب سے پوچھا جاۓ گا اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے کیا کیا؟ ہم جواب تو دے سکے کہ یا ربی ہم نے اپنی ذات سے تو کوشش شروع کی تھی لیکن باقی کچھ نہیں ہو سکا ہم سے ایسے نہ ہو کل بروز قیامت آپ میں ہم سب مجرم ہو اس بات پر کہ ہم اپنے اجسام پر بھی شریعت کو نافذ نہ کر سکے اور باتیں کرتے تھے ملک میں شریعت کے نفاذ کے اللہ تعالیٰ فرماتے ہے (یا ایھا الذین آمنوا لما تقولون ما لا تفعلون) اے ایمان والوں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں آج اپنے آپ سے سوال ضرور کیجیے گا ع۔۔۔۔خان
Show all...
امۃ اللہ آج دوبارہ سے اپنی پسندیدہ جگہ پر آئی تھی ساحل سمند پر اپنے مخصوص بنچ پر آکر بیٹھ گئی تھی آج اسے بے طرح عبداللہ یاد آرہا تھا جب سے عبداللہ فلسطین کی طرف عازم سفر ہوا تھا تب سے امۃ اللہ نے ساحل سمندر پر آنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ اور عبداللہ ایک ساتھ آتے اور تادیر سمندر کے کنارے بیٹھ کر گفتگو کرتے دونوں ایک ساتھ اس دنیا میں آئے تھے ایک جیسی خواہشات ایک جیسی پسند ایک جیسے خواب اور ایک ہی مشن القدس کی ازادی کا مشن امت کو جھنجوڑ دینے کا مشن آج پھوپھی اماں کے ساتھ سمندر پر آ کر اسی مخصوص بینچ پر بیٹھ گئی تھی جہاں وہ عبداللہ اپنے ماں جایاں کے ساتھ بیٹھا کرتی تھی سامنے سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے امۃ اللہ کی سوچوں کی پرواز عبداللہ کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھی آج سمندر پر آنے کی وجہ بھی اس کی وہی بے چینی اور کسک تھی کہ جو عبداللہ کی یاد کی صورت میں اس کے لہو میں گردش کر رہی تھی امۃ اللہ اپنے القدس کے بیگ پر بہت محبت سے ہاتھ پھیرنے لگی اس ایک بیگ کے لئے اس نے عبداللہ کو کتنا تنگ کیا تھا تب عبداللہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہی سے بھی ہو لیکن تمہارے لئے القدس کا بیگ لیکر آوں گا ماضی کی خوبصورت یادیں ساحل سمندر پر جا بجا بکھری ہوئی تھی سامنے سمندر کی موجیں بھی امۃ کی شدتوں اور اس کی محبتوں کے گواہ تھے جس سال امۃاللہ کے دورہ کا سال تھا عالمیہ دوم اس کا آخری سال درس نظامی کا تو کلاس میں تمام طالبات بیٹھ کر باتیں کر رہی تھی کہ ختم بخاری پر اپنے گھر والوں سے کیا کیا ہدایہ لیں گی ایک طالبہ کہہ رہی تھی کہ میں اپنی والدہ سے سونے کا بریسلیٹ لوں گی تو ایک سونے کی نیکلس کا کہہ رہی تھی تو کوئی کس چیز کا اور کوئی کس چیز کا جب امۃ اللہ کی باری آئی تو امۃ اللہ نے کہا کہ میں نے عبدللہ سے القدس کے بیگ کی فرمائش کی ہے ساری طالبات ہکا بکا رہ گئی تھی اس کی القدس سے جنونی محبت تو سبھی جانتے تھے لیکن ایسی محبت آج اس کی اس محبت کو سب رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جس دن ختم بخاری کا اخری دن تھا امۃ اللہ گھر لوٹ کر آئی تو پھوپھی اماں نے گلے لگا کر مبارکباد دی نم انکھوں سے امۃ اللہ کے سامنے جیسے عائشہ (والدہ) آکر کھڑی ہو گئی جیسے وہ بھی وہاں سامنے موجود ہو عابی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑاتی وہ اپنے کمرے میں آئی تو سامنے ہی ٹیبل پر ایک خوبصورت سا ہدیہ رکھا تھا اور عابی کا نام سامنے موتیوں کے مانند چمک رہا تھا امۃ اللہ نے مسکرا کر گفٹ کھولا تو حیران رہ گئی القدس سے متعلق بے شمار چھوٹی موٹی چیزیں تھی پیکنگ کھولتے ہوئے سامنے ہی القدس کی ایک خوبصورت تصویر فریم میں موجود تھی جس میں بیت المقدس کے اندر قبۃ الصخرۃ کے سامنے عبایہ میں ملبوس ایک لڑکی تھی جس کے نیچے اختی امۃاللہ کے الفاظ تھے اور ایک خوبصورت سا کپ جس پر عاشقۃ القدس کے الفاظ آویزاں تھے ایک ننھی سی خوبصورت کی چین جس پر ایک طرف سرمئی رنگ کا بیت القدس کا گنبد ایک اداس سا تصور پیش کر رہا تھا ایک قلم جس پر عابی نے القدس کی تصویر میں اس کا نام بیت المقدس پر لکھا تھا ایک ڈائری تھی جس کے ٹائٹل پر القدس سے بہتا لہو پاک زمین کو سرخ کر رہا تھا نیچے امۃاللہ کے لکھے الفاظ خون میں ڈوبے محسوس ہو رہے تھے میں جب تحریر کرتی ہوں تیرے غم کو میرے اقصیٰ مگر میں لکھ نہیں پاتی تیرے دکھ کو میرے اقصی قلم شدت سے روتا ہے قلم تا دیر روتا ہے سسکتا القدس میرا بلکتا القدس میرا قلم کو روک دیتا ہے قلم کو روک دیتا ہے اشعار پر گنبد سے بہتے آنسوؤں نے امۃاللہ کے آنکھوں کو نم کر دیا تھا سامنے ہی اس کی فرمائش پر ایک خوبصورت سا بیگ موجود تھا جس پر القدس کے الفاظ تھے عابی کی اس محبت کو دیکھ کر امۃاللہ کے آنسو بے اختیار اس کے رخساروں کو گیلا کرتے چلے گئے تھے امۃ عابی کی پکار پر تیزی سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا تو دروازے پر عابی کھڑا مسکرا رہا تھا جلدی آؤ تمہیں کہیں لیکر جانا ہے امۃاللہ ابھی تک عبایہ میں تھی جامعہ سے آکر اس نے ابھی تک عبایہ نہیں اتارا تھا جلدی سے حجاب لگاتے ہوئے وہ اپنے القدس کے بیگ کو اٹھانا نہیں بولی کندھے پر اس بیگ کو لٹکاتے ہوۓ امۃاللہ کو لگا تھا جیسے وہ آج بیت المقدس کی حصار میں آگئی ہو عبداللہ اپنی فلسطین رومال کو کندھوں پر پھیلاتے ہوۓ امۃاللہ کو باہر آنے کا اشارہ کر رہا تھا کہاں جانا ہے عابی تمہاری پسندیدہ جگہ ساحل سمندر پر ساحل سمندر پر آکر اپنے مخصوص بینچ پر بیٹھتے ہوۓ عابی اس کے سامنے ہی چٹان پر بیٹھ گیا امۃ تمہیں ایک خوشخبری سنانی ہے کیسے خوشخبری؟؟ امۃ ایک ہفتے بعد میں شہر انبیاء کے راستوں کا مسافر بن جاؤں گا تمہارے آنکھوں میں القدس کی فتح کے خواب سجانے امۃ ابی جان اور والدہ کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے امۃ ایک ہفتہ ہے بس ایک ہفتہ
Show all...
چمکتے چہرے کے ساتھ امۃ کو خوشخبری سناتے ہوۓ عابی کو اندازہ نہیں تھا کہ امۃاللہ پر اس وقت کیا بیت رہی تھی جس نہج پر امۃ نے ہوش سنبھالنے کے بعد محنت شروع کی تھی آج وہ محنت کا پھل اسے مل رہا تھا لیکن اس پھل کے ساتھ جدائی بھی ہمیشہ کے لیے اس کے مقدر میں آرہی تھی عابی کے چمکتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے امۃاللہ یہی سوچ رہی تھی کہ ایک ہفتے بعد میں اس چہرہ کو کبھی نہیں دیکھ سکوں گی اور یہ چہرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو جائے گا جڑواں بچوں کا معاملہ بھی عجیب ہوتا ہے امۃ کو لگا جیسے کسی نے بائیں طرف سے اس کے دل کو نکال کر بے دردی سے سامنے سمندر کے بے رحم موجوں میں پھینک دیا ہو جو ہچکولے کھاتا ہوا ڈوبتا جا رہا تھا کیا ہوا امۃ تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟؟ عابی کے ان جملوں نے اسے حال کی طرف لوٹنے پر مجبور کر دیا مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے عابی برسوں پرانا خواب میرا پورا ہو رہا ہے میں بہت خوش ہوں بہت باوجود کوشش کے امۃ کی آواز کی کوکھلاہٹ اسے خوش ہونے سے روک رہی تھی اسے خود بھی شدت سے اپنی آواز کا کھوکھلا پن محسوس ہو رہا تھا جدائی کے لمحات اسے موت جیسے لگ رہے تھے ا انسان مرنے کی تکلیف کو تو برداشت کر دیتا ہے لیکن جدائی کی تکلیف کو برداشت نہیں کر پاتا بچھڑنے کے خوف نے امۃ کے بولنے کی صلاحیت جیسے ختم کر دی امۃ کو لگا کہ ایک لفظ بھی اگر وہ کہیں گی تو عابی کے سامنے رو پڑے گی عابی عابی دور سے کسی نے عابی کو آواز دی تو عابی اس آواز کی جانب بڑھا اور امۃاللہ کو لگا جیسے سیلاب پر باندھا بند ٹوٹ گیا ہو اور آنسو چہرے کے ساتھ ساتھ اس کے حجاب کو تر کرتے جا رہے تھے امۃ اللہ گھٹنوں میں منہ چھپا کر زاروں قطار رونے لگی امۃ جتنا رونا ہے ایک دفعہ رو لو عابی کے سامنے نہیں رونا اپنے اپ کو تسلی دیتے ہوئے اپنے کر لاتے ہوئے دل کو سنبھالتے ہوئے وہ بڑی بے بسی سے اپنے آپ کو خود ہی تسلی دے رہی تھی سامنے سمندر کے پانی کا شور اور ایک دوسرے سے ٹکراتی نمکین موجیں امۃ کو لگ رہا تھا جیسے سمندر کی پانی کی تمام تر نمکینیت آج اس کے آنسو میں پھیل چکی تھی حجاب آنسوؤں سے تر ہوتا جا رہا تھا بہت چاہ سے آج اس نے القدس کا بیگ پہنا تھا اس پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ امۃ اللہ کو اپنا دل ٹکروں میں تقسیم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا یا اللہ یہ کیسی بے بسی ہے💔 آپی آپی کسی بچے نے اسے جھنجھوڑ کر ہلایا تو اس نے چونک کر اس جانب دیکھا کیا ہوا بیٹا سامنے وہ بزرگ خاتون آپ کو کب سے بلا رہی ہے پھوپھی اماں کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ اس معصوم بچے نے کہا امۃ اللہ ماضی کی خوبصورت یادوں سے باہر نکلی تو وہی بینچ تھا وہی چٹان وہی سمندر وہی ماحول تھا لیکن اس منظر میں عبداللہ نہیں تھا عبداللہ کی یاد ہی تو اسے سمندر کی طرف لائی تھی اور بینج پر بیٹھتے ہی امۃاللہ ماضی میں گم ہوگئی تھی پھوپھی اماں کی جانب قدم بڑھاتے ہوۓ امہ نے القدس کا بیگ کندھوں پر ڈالا پھوپھی اماں یہ قرون اولیٰ کی مائیں بھی کیسی عجیب مائیں تھی نا وہ بیٹیاں وہ بہنیں کیسی دین سے محبت کرنے والی تھی نا اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں کو بھائیوں کو بیٹوں کو راہ عزیمت کے مسافر بناتی اور مسکرا کر ان کو الوداع کرتی کاش میں بھی انہی کی طرح ہوتی کاش سمندر کی موجیں ایک دوسرے ٹکراتی ہوئی اس سادہ مزاج لڑکی کو دیکھتے ہوۓ موجیں ایک دوسرے سے کہنے لگی کاش اس لڑکی کو کوئی یہ بتا دیتا کہ امۃ اللہ تم بھی انہیں قرون اولیٰ کی بیٹیوں کی طرح ہی ہو جو اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائیوں کو راہ عزیمت کا مسافر بناتی ہے ع۔۔۔خان
Show all...